محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چار پانچ دن پہلے صدارتی ایوارڈز دئیے جانے کااعلان ہوا۔ ہر سال کی طرح اس بار بھی کچھ ایوارڈ ملنے والوں پر اعتراض اور بعض کی ستائش کی گئی ۔ یہ بحث تو ہر سال چلتی رہتی ہے، افسوس اس سے اخذ کردہ نتائج سے کبھی کچھ نہیں سیکھا جاتا۔ ایک بات جو پچھلے کئی برسوں سے چبھ رہی ہے ، بہت سے لوگوں نے اس پر اعتراضات بھی اٹھائے ہیں، مگر کسی بھی سابق حکومت نے اس حوالے سے کچھ نہیں کیا۔ وہ ہے ایوارڈز میں عدم مساوات۔صدارتی ایوارڈ ز کی مختلف کیٹیگریز ہیں، سب سے اہم نشان امتیاز ہے ،دوسرے نمبر پر ہلال ہے (ہلال پاکستان، ہلال شجاعت، ہلال امتیاز ، ہلال قائداعظم)، تیسرے نمبر پر ستارہ کی کیٹیگری ہے(ستارہ پاکستان، ستارہ شجاعت، ستارہ امتیاز)، چوتھے نمبر پر پرائیڈ آف پرفارمنس آجاتا ہے۔ اس کے بعد ستارہ کی کیٹیگری کے تین اعزازیعنی ستارہ قائداعظم،ستارہ خدمت ، ستارہ شجاعت آتے ہیں۔ ستارہ شجاعت لینے والے زیادہ تر فورسز کے لوگ ہوتے ہیں۔اس کے بعد تمغہ کی کیٹیگری آتی ہے،تمغہ امتیاز اور تمغہ خدمت۔ اس سال کووڈ میں کام کرتے ہوئے انتقال کرنے والے طب وصحت کے لوگوں کے لئے بھی سپیشل ایوارڈز دئیے گئے، وہ فہرست الگ سے بنائی گئی ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ان تمام کیٹیگریز میں سے صرف پرائیڈ آف پرفارمنس کے ساتھ مالی رقم دی جاتی ہے۔ جبکہ اس سے بڑی کیٹیگریز، نشان ، ہلال اور ستارہ وغیرہ کے ساتھ ساتھ تمغہ کی کیٹیگری میں بھی صرف میڈل ہی ملتا ہے، ساتھ انعامی رقم نہیں دی جاتی۔ اس کی وجہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ باقی ایوارڈز پہلے سے مل رہے تھے، پرائیڈ آف پرفارمنس کسی دور حکومت میں نئے شروع ہوئے اور ان کے ساتھ مالی رقم بھی دی جانے لگی، یہ سلسلہ چلتا رہا اور آج تک جاری ہے۔کسی نے اسے ٹھیک کرنے کی زحمت نہیں کی۔ اس کے دو نقصانات ہیں۔ ایک تو یہ کہ جب ایک کیٹیگری میںمیڈل کے ساتھ رقم دی جائے( اس سال شائد یہ رقم دس لاکھ کے لگ بھگ ہے) اور باقی کیٹیگریز میں صرف میڈل دیا جائے تو یہ نا انصافی اور’’ کھلا تضاد ‘‘لگتا ہے۔ دوسرا یہ کہ بہت سے لوگ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ اگر ایوارڈ دینا ہی ہے تو پھر پرائیڈ آف پرفارمنس ملے تاکہ ساتھ کچھ پیسے تو مل جائیں۔ یوں کئی لوگ جنہیں اپنے کام اور خدمات کی وجہ سے زیادہ بڑا اعزاز ملنا چاہیے ، انہیں بھی پرائیڈ آف پرفارمنس تک محدود رہنا پڑتا ہے۔ اس بار ماضی کے نامور گلوکار، اداکار، ہدایت کار عنایت حسین بھٹی کو بعد ازمرگ ایوارڈ دیا گیا، یہ پرائیڈ آف پرفارمنس تھا۔ عنایت حسین بھٹی کو اگر طویل عرصے کے بعد احساس ہوجانے پر کوئی اعزاز دینا ہی تھا تو وہ کم از کم بھی ہلال امتیاز یا ستارہ امتیاز کی کیٹیگری میں آتے تھے شائد پرائیڈ آف پرفارمنس کے ساتھ رقم کی وجہ سے ایسا کیا گیا۔میں نے تو یہ بھی سنا ہے کہ ایک علیل شاعر کو پرائیڈ آف پرفارمنس دیا گیا تاکہ اس کی کچھ مالی مدد بھی ہوجائے۔ چند سال بعد پھر اسے ایوارڈ دیا گیا اور ابتر مالی حیثیت کی وجہ سے ایک بار پھر پرائیڈ آف پرفارمنس دے دیا۔ یہ بات اگر درست ہے تونہایت افسوسناک ہے۔ ریاست پاکستان کے معاشی حالات خواہ کتنے خراب ہوں، چند کروڑ روپے ہر سال دینا کون سا مشکل کام ہے؟ اگر ایک ہی باربڑی رقم دے کر انڈومنٹ فنڈ بنا دیا جائے تو اس سے حاصل ہونے والے منافع سے یہ خرچ پورا ہوسکتاہے۔ ہر کیٹیگری کے اعزاز کے ساتھ رقم ہونی چاہیے تاکہ ملنے والے کو اچھا محسوس ہو۔ بعدازمر گ ایوارڈ میں تو ایسا لازمی کیا جائے ۔ مرحوم کے پسماندگان کو ایوارڈ ملنے سے کچھ فائدہ بھی تو ہو، ورنہ صرف میڈل کو شوکیس میں سجا لینے سے ان کے مسائل میں کمی نہیں آئے گی۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ اپنی پبلک ریلیشننگ اور تعلقات کی وجہ سے ایک ایوارڈ مل جانے کے بعد جلد ہی دوسرااس سے بڑی کیٹیگری کا اعزاز حاصل کر لیتے ہیں اور ان کی ایوارڈز لینے کی ہوس بڑھتی جاتی ہے۔ قواعد میں شائد تین یا چار سال کی پابندی لگائی گئی، مگر یہ ناکافی ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ایک ایوارڈ سے اگلے کے درمیان کم از کم دس سال کا وقفہ ہونا چاہیے ۔ دوسری باریوارڈ ملنے کی کوئی معقول وجہ بھی ہونی چاہیے اور اسے باقاعدہ ویب سائٹ پر بیان کرنا چاہیے ۔ پتہ چلنا چاہیے کہ درمیانی دس برسوں میں اس نے کوئی بڑا کارنامہ انجام دیا ہے، تب ہی اسے ایوارڈ دیا گیا۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی پڑا پڑا سینئر ہوجائے اور اس پر اسے ایوارڈ تھما دیا جائے۔ اس بار نشان امتیاز کی کیٹیگری جو سب سے بڑی ہے، اس میں ایک ممتاز بزرگ شاعر کو ایوارڈ دیا گیا۔ انہیں اس سے پہلے بھی ایک سے زائد بار ایوارڈ مل چکا۔ وجہ بتانی چاہیے کہ اس بار نشان امتیاز دینے کی کیا وجہ بنی ؟ موصوف اپنی بزرگی کی وجہ سے قابل احترام ہیں، مگر پچھلے تیس چالیس برسوں سے ان کی کوئی شاعری کی کتاب نہیں چھپی، بلکہ شائد ہی کوئی نئی غزل ، نظم سامنے آئی ہو۔ جو تخلیق کر ہی نہیں رہا، اسے پہلے بھی ایوارڈز مل چکے ہیں، پھر اچانک اتنا بڑا ایوارڈ کیوں دیاجائے؟اگر مستنصر حسین تارڑ، ڈاکٹر خورشید رضوی، اسد محمد خان، حسن منظر، ظفر اقبال وغیرہ جیسے بزرگ( مگر مسلسل تخلیقی عمل میں مصروف) ادیبوں ، شاعروں کو ایسا اعزاز دیا جائے تو قابل فہم ہے۔ ادب کی طرح ہاکی کے ایک ماضی کے ایک بڑے کھلاڑی کو بھی نشان امتیاز دیا گیا۔ ان کی سربراہی میں پاکستان نے 1982ہاکی ورلڈ کپ جیتا تھا، یعنی اکتالیس سال پہلے۔ وہ اسی سال ریٹائر ہوگئے تھے۔ انہیں یقینی طور پر کوئی بڑا اعزاز برسوں پہلے مل گیا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ آخر پچھلے چار عشروں میں موصوف نے ہاکی کے لئے کیا کیا؟ وہ کوچنگ سے وابستہ رہے اور بہت سے نوجوان کھلاڑی تیار کئے ؟ نہیں۔ پھر اتنا بڑا اعزاز کیوں دیا گیا؟ یہ بات بھی دیکھی کہ کسی کے ایک کارنامہ پر اسے اتنا بڑا ایوارڈ دے ڈالا کہ آئندہ کے لئے آپشن ہی محدود ہوگئی۔ مثال کے طور پر اس سال مولا جٹ فلم بنانے والے بلال لاشاری کو ستارہ امتیاز دیا گیا۔ کیوں؟ ایک فلم انہوں نے بنائی ، سپرہٹ ہوئی، اچھی ہوگی، مگر زیادہ سے زیادہ پرائیڈ آف پرفارمنس بنتا ہے۔ ستارہ امتیاز کیوں؟ زندگی بھر فلم کو دینے والے ستیش آنند کو بھی یہی ملا۔ گلوکارفاخر کو بھی ستارہ امتیاز۔ ویسے کوئی بتا سکتا ہے کہ فاخرنے پچھلے پانچ برسوں میں کیا میوزک تخلیق کیا؟ سرکاری افسروں کو ضرور اعزازات ملنے چاہییں، مگر اس حوالے سے بڑی احتیاط سے سکروٹنی کی جائے اور صرف انہیں ملیں جو واقعی اس کے حقدار ہوں۔ ذاتی یا سیاسی تعلقات کی بنا پر اعزاز دئیے جانے سے ان صدارتی ایوارڈز کی کریڈیبلٹی سخت متاثر ہوئی ہے۔پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں تو گیلانی حکومت نے تباہی مچا دی تھی، پیپلزپارٹی کے کئی رہنمائوں کو یہ اعزاز تھما دئیے گئے، ظلم تو یہ ہوا کہ وزیراعظم کی پرنسپل سیکرٹری نرگس سیٹھی نے اپنے لئے بھی ایک بڑا ایوارڈ مختص کر لیا۔ انہوں نے تو یہ فیصلے لینے تھے، وہ کیسے خود کو نواز سکتی تھیں؟ ایسا مگر ہوا۔ مجھے یاد ہے کہ زرداری صاحب نے ایک بہت سینئر صحافی اور کالم نگار کو نومبر میں ایوارڈ دینے کا اعلان کر دیا، حالانکہ چودہ اگست کو فہرست جاری ہوچکی تھی۔اپنی اخباری سرخیوں کی وجہ سے ممتاز اور منفرد مقام رکھنے والے ان سینئر صحافی کو شاعری کی کیٹیگری میں ایوارڈ دیا گیا جو کہ انہوںنے چالیس پنتالیس سال پہلے کی تھی اور مدتوں پہلے اسے چھوڑ چکے تھے۔ صحافت پر ایوارڈ ملتا تو بات قابل فہم تھی۔ بہترین طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ اس پورے پراسیس کو حکومت سے الگ کر دینا چاہیے ۔اس کے لئے مالی طور پر خودمختار ادارہ ہو جو یہ ایوارڈز دے اور وہ شفاف طریقے سے ممتاز لوگوں کو جیوری میں شامل کرے اور پھر کسی دبائو کے بغیرمیرٹ پر یہ فیصلے کئے جائیں۔ پچھلے کئی برسوں کی فہرست اور اس سال کے ایوارڈ کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوا کہ آرٹ اینڈ کلچر خاص کر شوبز کے شعبے میں بہت زیادہ ایوارڈز دئیے گئے، اس سال بھی چالیس سے پچاس ایوارڈ تھے۔ اتنے زیادہ کیوں ؟ اس کے برعکس علم وادب میں کم اعزاز ملتے ہیں۔ دینی سکالرز کی تعداد تو نہایت کم ہے۔ اس سال مفتی منیب الرحمن کو ایوارڈ دیا گیا، اس سے خود اعزاز کی توقیر میں اضافہ ہوا۔ ہر سال آٹھ دس علما دین کو ایوارڈ ملنے چاہئیں، ان لوگوں کو ترجیح دیں جنہوں نے اپنی زندگی دین کی تدریس میں کھپا دی ہے یا پھر ان کا تصنیفی کام غیر معمولی ہے۔ قرآن وحدیث اور فقہ پر انہوں نے شاندار کام کیا ہے۔ ظاہر ہے اس کی جیوری بھی ممتاز علما پر مشتمل ہونی چاہیے۔ مفتی تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمن اور اسی طرح کے چار پانچ لوگوں پرمشتمل مستقل کمیٹی بنائی جائے ۔ حرف آخر یہ کہ صدارتی ایوارڈز کے حوالے سے ایک مستقل اور جامع پالیسی بنائی جائے ، اعتراضات کا جائزہ لے کر شفاف، قابل اعتماد طریقہ کار بنایا جائے اور ان ایوارڈز کی ساکھ اور اعتبار بڑھایا جائے۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر