زندگی میں جو پہلا ناول انگریزی میں پڑھا تھا اور پورا سمجھ آیا تھا وہ کولمبیا کے شہرہ آفاق مصنف گیرئیل گارشیا مارکیز کا تھا۔ ناول بھی نہیں، ناولٹ تھا۔ ہسپانوی سے انگریزی میں ترجمہ ہوا تھا۔ ماحول بالکل دیسی لگا۔ ہیرو کا نام نصر تھا باقی کردار بھی کچھ جانے پہچانے تھے۔ شاید اسی لیے سمجھ بھی آ گیا اور دل کو اتنا لگا کہ اُردو میں ترجمہ کرنے کی ناکام کوشش بھی کی۔
’Chronical of a death foretold‘ میں ایک چھوٹے سے گاؤں میں نصر قتل ہونے والا ہے۔ پورا گاؤں جانتا ہے کہ آج نصر قتل ہونے والا ہے۔ قاتل بھی پورے گاؤں کو بتاتے پھر رہے ہیں کہ وہ قتل کرنے والے ہیں ( شاید اس امید میں کہ انھیں کوئی روک سکے)۔ پورے گاؤں کو اس پیش گفتہ موت کی خبر ہے سوائے نصر کو، نہ کوئی اسے بتاتا ہے، نہ بچانے کی کوشش کرتا ہے۔
آخر قتل ہو کر رہتا ہے اور نصر اپنے گھر کے دروازے پر اپنی انتڑیاں پکڑے اپنے آخری الفاظ بولتا ہے کہ ماں انھوں نے مجھے مار دیا ہے۔
اللہ عمران خان کی عمر دراز کرے، انھیں جیل میں وہ آسانیاں بھی میسر ہوں جو وہ اپنے مخالفین سے چھیننا چاہتے تھے۔ لیکن یہ کیسی گرفتاری، کیسی سزا ہے، کیسی نااہلی ہے، جس کے بارے میں پورا ملک جانتا تھا کہ آج ہوئی یا کل ہوئی اور اس پیش گفتہ وقوعے کو نہ پرانے خاندانی، نہ نئے انقلابی سیاستدان اور نہ وہ لاکھوں نوجوان سیاسی ورکر مل کر روک سکے جو اپنی پرانی شکستہ خوردہ تاریخ کو جلا کر ایک سنہرے مستقبل کے خواب دیکھنے نکلے تھے۔
ہمارے وہ سیانے جنھوں نے جنرل باجوہ کی ڈاکٹرائن کے دس سالہ منصوبے بیان کر دیے تھے اور وہ جو ’یہ کمپنی نہیں چلے گی‘ والی نصیحت کرتے تھے، اُن میں سے کوئی بھی اس گھسے پٹے سکرپٹ کو نیا موڑ نہیں دے سکا۔
اقتدار کی غلام گردشوں سے کان چپکائے ہمارے ذہن ساز بھی بتاتے رہے کہ نہیں نہ اب ادارے وہ ہیں، اور نہ ہی عمران خان پرانے آتے جاتے سیاستدانوں جیسا ہے۔
ہوش سنبھالنے کے بعد پہلا وزیراعظم جو دیکھا تھا اس کا نام محمد خان جونیجو تھا۔ سینیئر صحافی بتاتے ہیں کہ جب ان کے وزیراعظم کے نام کا اعلان ہوا تو سینیئر صحافیوں کے بھی سینیئر صحافیوں نے پوچھا تھا محمد خان جونیجو کون؟
اس کے بعد وہ ایک انتہائی شریف النفس، اور بیبا وزیراعظم ثابت ہوا لیکن زیادہ دیر تک چلا نہیں۔
وزیراعظم چاہے گمنام ہو، یا پاکستان کا ایسا ہیرو ہو جسے بچپن سے سب جانتے ہوں، کوئی اداروں کے ہاتھوں سے چھین کر حکومت لے، پچھلے دروازے سے گھس کر مذاکرات کرے، یا ان کے کندھوں پر بیٹھ کر آئے، وزیراعظم بننے کے دو یا تین سال بعد ایک ہی غلطی کر بیٹھتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو وزیراعظم سمجھنے لگتا ہے۔
کچھ حواری بھی شہ دیتے ہوں گے، کچھ خیرخواہ ہاتھ بھی جوڑتے ہوں گے کہ آپ سے پہلے والے نے بھی یہی کیا تھا، آپ کریں گے تو وہی ہو گا جو پچھلے والے کے ساتھ ہوا تھا۔ فرق صرف یہ ہو گا کہ کوٹ لکھپت جائیں گے، اڈیالہ یا اٹک لیکں سب کرتے وہی ہیں جو محمد خان جونیجو نے کیا تھا۔
جونیجو مرحوم نے اور بھی کچھ کیا ہو گا لیکن ایک بنیادی غلطی یہ کی تھی کہ پارلیمان میں ایک بجٹ سیشن تقریر کرتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ ملک کے اقتصادی حالات بہت خراب ہیں۔ اب ہمارے جنرل بھی سوزوکی کاروں میں بیٹھیں گے۔
آج ہمارے ادارے کے سینیئر اہلکاروں اور ان کے سویلین ہم منصبوں کی گاڑیوں کے ماڈل دیکھیں تو اندازہ ہو گا کہ پتا نہیں محمد خان جونیجو نے کون سا نشہ کیا ہوا تھا کہ ہمارے بڑوں کو سوزوکیوں میں بٹھانے چلا تھا۔ نشہ شاید ذہنی تھا کہ جس کا ایک ہلکورا ہر وزیراعظم کو آتا ہے کہ آخر میں عوام کا نمائندہ ہوں، کچھ کروں بھی نہ کم از کم نظر تو آئے کہ کچھ کر رہا ہوں۔
ہمارے سیانے تجزیہ نگار سمجھاتے رہتے ہیں کہ سویلین بالادستی بڑھکوں سے نہیں ملتی، یہ قدم بہ قدم جدوجہد ہے، مذاکرات سے، اپنے سیاسی مخالفوں سے اتحاد بنا کر، کچھ دے کر، کچھ لے کر ملتی ہے۔ کچھ لڑ بھڑ کر، کچھ مانگے تانگے کی، کچھ اداروں کی مجبوریوں کی وجہ سے ہمارے سب منتخب نمائندوں نے جمہوری نما دلاسہ دے رکھا ہے کہ آپ کو پورے نہیں تو تھوڑے بہت شہری حقوق لے کر دیں گے۔
جنرل ضیاالحق کے مارشل لا سے ہمیں آزادی ایم آر ڈی نے یا محمد خان جونیجو نے نہیں دلوائی، ایک فضائی حادثے نے دلوائی۔ جنرل مشرف کی وردی ہمارے سیاستدانوں نے نہیں دلوائی، جنرل کیانی نے ان کے ہاتھ سے سپہ سالار والا ڈنڈا ہی اُچک لیا، جنرل باجوہ بھی ہمارے ہاتھ باندھنے سے گھر نہیں گئے، بس ادارے کے اندر ان کا ٹائم پورا ہو گیا تھا۔
اداروں کو اب تک اتنی سمجھ تو آ ہی ہو گئی ہو گی کہ اگر محمد خان جونیجو سے لے کر شہباز شریف تک ہماری شرائط پر سب آنے کو تیار ہیں، اور یہ بھی پتا ہے کہ تین، ساڑھے تین سال بعد اپنے آپ کو وزیراعظم سمجھنے لگیں گے تو وہی کریں گے جو اس سے پہلے آنے والے کے ساتھ کیا تھا۔
سابق وزیراعظم عمران خان کا قافلہ جب گرفتاری کے بعد فل سپیڈ سے جیل کی طرف روانہ ہوا تو پیش گفتہ موت کا آخری منظر یاد آ گیا، جب پورے گاؤں کو خبر ہونے کے بعد آخر میں نصر کو احساس ہوتا ہے کہ اس کا قتل ہونے والا ہے، وہ اپنے گھر کی طرف بھاگتا ہے۔ قاتل دروازے پر آن لیتے ہیں، اور وہ دونوں ہاتھوں سے اپنی انتڑیاں سنبھالے اپنے دروازے پر گرتا ہے اور کہتا ہے، ماں مار دیا ہے انھوں نے مجھے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر