نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’ہر وقت پیشاب خطا۔ زندگی عذاب!!!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ جونہی خاتون چھینک مارتی ہے، کھانستی ہے، اٹھتی بیٹھتی ہے، وزن اٹھاتی ہے، سیڑھیاں چڑھتی ہے، مثانے میں موجود پیشاب کمزور یورتھرا کے راستے باہر نکلنا شروع کر دیتا ہے۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اٹھوں، بیٹھوں، کھانسوں، تیز چلوں، چھینک ماروں۔ ہر بات میں زندگی عذاب ہے۔ کیا کروں؟

ادھیڑ عمر خاتون کی آنکھ میں آنسو تھے۔ وہ ایک دعوت میں ہمارے پاس بیٹھی تھیں اور ہماری گائناکالوجی سے مستفید ہونا چاہتی تھیں۔

آپ کے کتنے بچے ہیں؟
چھ۔
کیسے پیدا ہوئے
نارمل طریقے سے
ایسا کب سے ہے؟
چار پانچ برس ہو گئے
پھر کیسے گزارہ کرتی ہیں؟

اگر گھر میں ہوں تو بار بار شلوار تبدیل کرتی ہوں۔ کسی دعوت میں جانا ہو تو پیمپر پہنتی ہوں۔ مگر سب سے زیادہ تکلیف نماز کے دوران ہوتی ہے جب نماز کے دوران پیشاب کے قطرے خارج ہو جائیں۔ کیا کروں؟

آپ کا معائنہ کرنا ضروری ہے۔ آپ میرے کلینک آ جائیے گا۔ وہ دوسرے دن ہی آ گئیں۔ انہیں ہم بتا چکے تھے کہ معائنے سے پہلے باتھ روم نہیں جانا۔ مثانہ خالی نہیں ہونا چاہیے۔

انہوں نے ہماری ہدایات پر عمل کیا تھا۔ معائنے والی میز پر لٹا کر ہم نے انہیں کھانسنے کو کہا۔ جونہی وہ کھانسیں، پیشاب کی دھار نکلتی ہوئی نظر آئی۔

بچے دانی اپنی جگہ پر تھی، مثانہ بھی نیچے نہیں تھا مگر مثانے کا منہ ڈھیلا ہو چکا تھا۔ جب بھی جسم کا پریشر کچھ بڑھتا، پیشاب کے قطرے خود بخود خارج ہونے لگتے۔

اس مسلے کو stress incontinence کہتے ہیں۔

مثانہ ایک ایسی تھیلی ہے جس میں پیشاب اکٹھا ہوتا ہے جو گردے بنا بنا کر بھیجتے رہتے ہیں۔ گردے اور مثانے کے درمیان رابطہ پیشاب کی نالیوں کے ذریعے ہوتا ہے۔ مثانہ پیشاب کو جمع کرتا رہتا ہے کیونکہ پیشاب کو جسم سے خارج کرنا اس وقت تک ممکن نہیں ہوتا جب تک اس کی سہولت موجود نہ ہو۔

ڈھائی سو ملی لیٹر ( پیپسی کی چھوٹی بوتل ) پہ جا کر جسم کو احساس ہوتا ہے کہ مثانے میں پیشاب جمع ہو رہا ہے۔ چار سو ملی لیٹر سے زیادہ پیشاب آرام سے روکا نہیں جا سکتا۔ جوں جوں مثانہ پیشاب کی وجہ سے پھیلتا اور بڑا ہوتا ہے، مثانے کا منہ یعنی یورتھرا سختی سے بند رہتا ہے۔ یہ ایک ایسی بوتل کی مانند ہے جو الٹی لٹکی ہوتی ہے۔

یورتھرا وہ سوراخ ہے جو ویجائنا کے سامنے ہوتا ہے۔ ویجائنا، یورتھرا اور مقعد نہ صرف ہمسائے ہیں بلکہ ان کو کنٹرول کرنے والے اعصاب ( نروز) کا بھی آپس میں گہرا تعلق ہے۔

نارمل زچگی میں بچے کا سر ویجائنا میں دو سے تین گھنٹے تک رہتا ہے۔ چھوٹے فٹ بال جیسے سر کا وزن ویجائنا کی دیواروں پہ پڑتا رہتا ہے۔ ویجائنا ایک ٹیوب کی طرح کا عضو ہے جو طبعی طور پہ اتنا بڑا نہیں ہوتا۔ لیکن بچے کے سر کی موجودگی سے ویجائنا کے عضلات کھنچ کر اس اسے جگہ فراہم کرتے ہیں۔ یہ کھچاؤ عضلات کو توڑتا پھوڑتا تو ہے، ڈھیلا بھی کرتا ہے جسے شلوار کے نیفے میں پڑی الاسٹک کھچاؤ سے ڈھیلی ہو جاتی ہے۔

بچے کو باہر نکالنے کے لیے لگائی جانے والی طاقت ویجائنا کے مسلز اور اعصاب یعنی نروز کو بھی متاثر کرتی ہے۔ نہ صرف ویجائنا بلکہ اس کی زد میں یورتھرا اور مقعد بھی آتے ہیں۔

زچگی سے ہونے والے ان نقصانات کا جوانی میں پتہ نہیں چلتا لیکن مینو پاز کے بعد ہارمونز کی کمی، بڑھتی عمر، اور عضلات کی ٹوٹ پھوٹ اور ڈھیلے پن کے بعد ہی ایک عورت جان پاتی ہے کہ جسم کے ساتھ ہوا کیا؟

یورتھرا کے عضلات اور نروز کی کمزوری انہیں اس قابل نہیں چھوڑتی کہ اب وہ پیشاب سے بھرے مثانے کو کنٹرول کر سکیں۔ مطلب یہ کہ سختی سے اپنا منہ بند رکھ سکیں۔

نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ جونہی خاتون چھینک مارتی ہے، کھانستی ہے، اٹھتی بیٹھتی ہے، وزن اٹھاتی ہے، سیڑھیاں چڑھتی ہے، مثانے میں موجود پیشاب کمزور یورتھرا کے راستے باہر نکلنا شروع کر دیتا ہے۔

صاحب مثانہ کا مثانہ پر کنٹرول ختم۔ یہ وہ ہرجانہ ہے جو خاتون کو زچگی کے برسوں بعد بھرنا ہے اور زیادہ تر جان ہی نہیں پاتیں کہ ہوا کیا؟

ایک اور بنیادی عنصر موٹاپا، لٹکا ہوا پیٹ اور ورزش کی کمی ہے۔ یہ مثانے کی کمزوری کو مزید کمزور کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

سٹریس انکانٹیننس کے ٹیسٹ کرنے کے لیے مغرب نے سپیشل مشین بنائی ہے اور اس ٹیسٹ کو Urodynamic studies کہا جاتا ہے ۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں یہ سہولت موجود ہے۔

یورتھرا ایک بار کمزور ہو جائے تو دواؤں سے مضبوط نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے مختلف قسم کے آپریشن ہیں جو مریض کی کنڈیشن اور خواہش کے مطابق کیے جاتے ہیں۔

حضرات، آپ میں سے بہت سوں نے لکھا کہ آپ کے اردگرد رہنے والی خواتین کو کسی ایسے مسلے کا سامنا نہیں جو ہم لکھتے ہیں۔

اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ لیکن عورت ذات عجیب مخلوق بنائی ہے اللہ نے۔ بندی خدا کی گھٹ گھٹ کے مر جائے گی مگر گھر کے مرد کو حقیقت حال سے آگاہ نہیں کرے گی۔

درمیان میں فاصلہ ہی اس قدر ہے۔ آسمان تک بنی دیوار کو کیسے پاٹے؟ اس بارے میں کبھی سوچیے گا۔ پھر نہ کہیے گا، خبر نہ ہوئی۔

رہے ہم، تو ہم تو تکالیف دیکھتے دیکھتے زندگی کی شام تک آ پہنچے ہیں۔
اپنا فرض نبھا رہے ہیں۔
جو مزاج یار میں آئے۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

About The Author