وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کی افغان پالیسی پر تحریروں کے اس سلسلے کا مقصد محض یہ واضح کرنا ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پاکستانی عوام کے خلاف بدترین ریاستی جرم افغان معاملات میں مداخلت رہی ہے۔ اس فضیحتے میں پاکستان کوئی ہدف حاصل نہیں کر سکا۔ داخلی سطح پر سیاسی اور معاشی بدھیا بیٹھ گئی۔ سرکاری سطح پر ہمارا افغان موقف ہر چند ماہ تبدیل ہوتا رہا۔ نتیجہ یہ کہ ایک طرف ہماری خارجی ساکھ بری طرح مجروح ہوئی، دوسری طرف خود افغان عوام میں شدید معاندانہ جذبات پیدا ہوئے۔ پاکستان اس لڑائی میں اسلامی رشتے کا پرچم اٹھائے داخل ہوا تھا۔ مذہب فرد کا داخلی تجربہ ہے۔ سیاست اور معیشت کے دیوتا ایسے سنگی حقائق ہیں کہ صلیبی جنگوں سے ڈھاکہ تک مذہب کبھی پائیدار سیاسی یا معاشی بندوبست کی بنیاد نہیں بن سکا۔ نصف صدی پہلے ہم افغانستان میں ملوث ہوئے تو ہمارے اسلامی پھریرے پر سرد جنگ کے مغربی نظریہ سازوں کی مہر ثبت تھی۔ اس دوران پاکستان میں مذہبی مدرسوں کی تعداد تین سو سے بڑھ کر 35 ہزار تک جا پہنچی۔ یہ مدرسے دراصل افغان مزاحمت کے لئے غریب نوجوانوں کے بھرتی مراکز تھے جنہیں نیبراسکا یونیورسٹی کے تیار شدہ جہادی نصاب کا بپتسمہ دیا گیا تھا۔ خود پاکستان میں تدریس اور صحافت کے شعبوں میں باقاعدہ تطہیر، ادخال اورتلقین کے ذریعے اجتماعی ذہن پر جنگجو مذہبیت کی گہری تہ جمائی گئی۔
1988ء میں سوویت افواج کے افغانستان سے انخلا کی خبر آئی تو مجاہدین کی فتح کے تاشے مجیرے زور و شور سے پیٹے گئے۔ منتخب وزیراعظم بینظیر بھٹو پر عدم اعتماد کا یہ عالم تھا کہ انہیں قومی سلامتی پر بریفنگ کے لیے عسکری دفاتر میں طلب کیا جاتا تھا۔ سیاسی قیادت کے لیے خارجہ پالیسی ممنوعہ علاقہ قرار پائی۔ برسوں بعد اسلم بیگ نے 4 جنوری 2009ء کو پاکستان آبزرور میں لکھا کہ ’افغانستان میں سوویت یونین کو شکست ہو چکی تھی۔عراق کے خلاف جنگ میں ایران ایک مضبوط علاقائی طاقت بن کر ابھرا تھا۔ پاکستان میں ضیا حکومت ختم ہو چکی تھی۔ یہ بہترین موقع تھا کہ تینوں مسلمان ممالک ’مشترکہ دشمنوں‘ کے خلاف اتحاد قائم کر کے ایک سٹریٹجک ڈیپتھ (تزویراتی گہرائی) کی بنیاد رکھیں‘۔ اسلم بیگ کی سیاسی بصیرت کا یہ عالم تھا کہ وہ شمالی افغانستان اور ایران کا تاریخی تعلق سمجھنے سے قاصر تھے۔ وہ یہ اندازہ نہیں لگا سکے کہ افغانستان مستقبل میں بھارت سے قریبی تعلقات قائم کرنا چاہے گا۔
نفسیاتی جنگ کے ماہرین میں اتفاق ہے کہ حریف قوتوں کے باغی عناصر کو ذہنی غسل دینے والے اہلکاروں کی اپنی ذہنی اور پیشہ ورانہ صلاحیت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پاکستان میں اس کی دو بڑی مثالیں حمید گل اور جاوید ناصر تھے۔ جاوید ناصر تو مذہبی غلو کے اس درجے پر پہنچ گئے کہ امریکی وزیر خارجہ جیمز بیکر نے وزیراعظم نواز شریف کو باقاعدہ دھمکی دی تھی کہ پاکستا ن کو دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل کر دیا جائے گا۔ حمید گل ایک اور مزاج کے عبقری تھے۔ ان کی توقع کے برعکس سوویت انخلا کے باوجود نجیب اللہ حکومت قائم رہی تو انہوں نے 5 مارچ 1989ء کو جلال آباد پر افغان مجاہدین سے حملے کروا دیا۔ کچھ ابتدائی کامیابی کے بعد افغان مجاہدین فضائی بمباری اور سخت زمینی مزاحمت کے سامنے بے بس ہو گئے۔ اس حملے میں عرب مجاہدین سمیت 3000 جنگجو مارے گئے۔ مرنے والے شہریوں کی تعداد بارہ سے پندرہ ہزار تھی۔ نجیب کی افغان فوج کو 1500 جانوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔
جلال آباد حملے کی ناکامی سے بینظیر بھٹو کو حمید گل کو آئی ایس آئی کی سربراہی سے ہٹانے کا موقع مل گیا۔ تاہم حمید گل ٹولہ چین سے نہیں بیٹھا۔ 6 مارچ 1990ء کو سابق کمیونسٹ شاہ نواز تنائی اور گل بدین حکمت یار کے عجوبہ اتحاد کی مدد سے کابل میں بغاوت کی ایک اور کوشش کی گئی جو بری طرح ناکام ہوئی۔ شاہ نواز تنائی فرار ہو کر پشاور پہنچ گئے۔ اگلے برس اپریل 1992ء میں سوویت حکومت کے انہدام کے بعد نجیب اللہ حکومت ختم ہونے کا امکان بڑھ گیا چنانچہ باہم دست و گریبان مجاہدین رہنماﺅں کو معاہدہ پشاور کے ذریعے اکٹھا کرنے کی کوشش کی گئی لیکن عبوری حکومت کا یہ منصوبہ بھی ناکام ہو گیا کیونکہ حکمت یار کو صبغت اللہ مجددی کی قیادت قبول نہیں تھی اور وہ کابل پر قبضہ کر کے حکومت کرنا چاہتا تھا۔ مجددی کو اس منصوبے کی بھنک پڑی تو اس نے احمد شاہ مسعود کو وزیر دفاع مقرر کر کے حکمت یار کے خلاف کھڑا کر دیا۔ 24 اپریل 1992ء کو حکمت یار نے کابل پر قبضے کا اعلان کیا اور 25 اپریل کو احمد شاہ مسعود نے حکمت یار کی حزب اسلامی کو مار بھگایا۔ بالآخر پاکستان پر واضح ہو گیا کہ گل بدین حکمت یار افغانستان میں حکومت قائم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
جہاں تک سوویت یونین کے انہدام میں افغان جنگ کے کردار کا تعلق ہے تو سمجھنا چاہیے کہ نو سالہ جنگ میں پندرہ ہزار روسی فوجی مارے گئے جبکہ نوے ہزار مجاہدین ہلاک ہوئے، ایک لاکھ افغان شہری مارے گئے۔ 28 لاکھ افغان مہاجرت کر کے پاکستان آئے اور 15 لاکھ نے ایران کی راہ لی۔ موازنے کے لیے یہ جاننا کافی ہے کہ دوسری عالمی جنگ میں سوویت اموات کی تعداد دو کروڑ ستر لاکھ تھی۔ ویت نام میں اٹھاون ہزار امریکی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ سوویت یونین کے انہدام کے اسباب داخلی تھے۔ 1970 میں سوویت یونین امریکا کے بعد دنیا کی سب سے بڑی معیشت تھا۔ بریژنیف دور کے معاشی، سیاسی اور انتظامی جمود کے باعث 1990ء تک روس پہلی دس معیشتوں میں بھی شمار نہیں ہوتا تھا۔ گورباچوف کے لیے بے مقصد افغان جنگ ختم کیے بغیر پریس ٹرائیکا کی اصلاحات کو آگے بڑھانا ممکن نہیں تھا۔ سوویت یونین کا کمیونسٹ اقتدار افغانستان میں نہیں بلکہ اگست 1991ء میں ماسکو میں ختم ہوا جب گورباچوف کو اپنی حکومت بچانے کے لیے بورس یلسن سے مدد لینا پڑی۔ (جاری ہے)
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر