نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شوق تماشہ ۔۔۔|| عادل علی

بارڈر پر بے تحاشہ زمین کے مالکوں نے زرعی انقلاب کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ صحیح بات ہے جب مصنوعات بنانے کی فیکٹریز ان کے پاس ہیں تو خام مال بھی اپنا بنا کر لاگت میں کمی و منافعے میں اضافہ کرنا ہر کاروباری طبقے کی طرح ان کا بھی حق ہے۔

عادل علی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عجب شوق تماشہ ہے جو کھیلنے والوں کا دل ہے کہ بھرتا ہی نہیں ہے۔ حکومت کی آئینی مدت اختتام کو پہنچ رہی ہے۔ مہنگائی و معاشی بدحالی عروج پر ہے عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے اور جاتے جاتے حکومت نے عوام کو ایک اور تحفہ پیٹرول کی قیمتوں میں ایک دم بیس روپے کے اضافے کی صورت میں تھما دیا ہے جبکہ ابھی کچھ دن قبل ہی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہوئی تھی۔
عوام مہنگائی کے ہاتھوں ہر روز مر رہی ہے۔ اشیاء خورد و نوش اور روز مرہ کے معمولات زندگی مشکل ترین ہوچکے ہیں۔
زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب موجودہ حکومتی اتحاد میں شامل تمام سیاسی جماعتیں مہنگائی مکاو مارچ کیا کرتی تھیں اور تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عوام میں غم و غصے کی سب سے بڑی وجہ بھی مہنگائی اور عام آدمی کی زندگی کی مشکلات ہی تھی۔
آج جب تمام جماعتیں الیکشن کے دروازے پر کھڑی ہیں ایسے میں سابقہ روایت تو یہ رہتی آئی ہے کہ فوراً سے ترقیاتی کاموں میں تیز رفتاری آجانا، سالوں سے تاخیر شدہ منصوبوں کی تکمیل، لوگوں کو نوکریاں دینے سمیت سیاست کے چوہدریوں کے لب و لہجے میں شیرنی گھل جانا بھی شامل ہے۔ ساتھ ہی عوام کو مستقبل میں ہر سو بہار و شہد کی ندیاں بہنے کی منظر کشی بھی کر کے دکھائی جاتی ہے کہ اس بار تو جو ہوا سو ہوا اگلی باری ہمیں اقتدار میں آ لینے دیں بس۔۔۔
جبکہ وہی حضرات الیکشن جیت کر بھی اور ہار کر بھی عوامی منظر نامے سے غائب ہوجاتے ہیں جیتنے والے حکومت و اقتدار میں اپنی جگہ بنانے میں مصروف ہوجاتے ہیں جبکہ ہارنے والے جیتنے والوں سے ساز باز کر کے دھاندلی کا شور نہ مچانے کے بدلے اپنے نقصان کی بھرپائی کا کچھ نہ کچھ انتظام کرنے کے چکر میں لگ جاتے ہیں۔ سیاست ایک کاروبار کی صورت اختیار کر چکی ہے جبکہ الیکشن سیاست کے کاروبار میں میگا فسٹول کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف فرماتے ہیں کہ اگر موقع ملا تو بڑے میاں صاحب آکر ملک میں دودھ کی نہریں بہا دینگے جبکہ ان کو شاید یاد نہیں کہ یہ میاں صاحب کا چوتھا موقع ہوگا اکر کہ انہیں مل جاتا ہے تو جو کہ بظاہر تو یہ ہی لگ رہا ہے کہ ہر طرح سے ان کے شایان شان استقبال کی تیاریاں جاری ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ میاں صاحبان پر واری واری جارہی ہے اور اب تو عمران خان کے خلاف کاروائی بھی آخری مراحل میں داخل ہوچکی ہے۔ آج یا کل میں خان صاحب گرفتار ہو جائینگے اگر کوئی ڈیل فائنل نہیں ہوتی تو اور اگر پس پردہ ڈیل پایہ تکمیل تک پہنچ جاتی ہے تو خان صاحب آرام کی غرض سے لمبی چھٹی پر دیار غیر کوچ کر جائینگے۔
پیپلزپارٹی بلاول بھٹو کو وزیراعظم بنانے کے لیے پرامید دکھائی دیتی ہے۔ سیاست کے پیر آصف زرداری نون لیگ سمیت تمام سیاسی حریفوں کو سرپرائز دے سکتے ہیں کیونکہ حسب روایت بڑے گھر یعنی اسٹیبلشمنٹ والوں نے ایک ہاتھ انہیں بھی پکڑا رکھا ہے۔
بارڈر پر بے تحاشہ زمین کے مالکوں نے زرعی انقلاب کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ صحیح بات ہے جب مصنوعات بنانے کی فیکٹریز ان کے پاس ہیں تو خام مال بھی اپنا بنا کر لاگت میں کمی و منافعے میں اضافہ کرنا ہر کاروباری طبقے کی طرح ان کا بھی حق ہے۔
غرض کہ سب کو حق ہے اپنے اپنے حقوق کے تحفظ کا لیکن میں آخر میں یاد کراتا چلوں کہ جناب۔۔۔ آپ تمام اسٹیک ہولڈرز کی اصل ذمہ داری عوام کی فلاح و حفاظت ہے جس کا حلف لے کر آپ حکومتی ایوانوں یا فوجی کمانوں پر تعینات ہوتے ہیں مگر عوام کو آپ سب نے اپنے "شوق تماشہ” کی خاطر دیوار سے لگا رکھا ہے۔ ملک و مملکت کے لیے عوام لازم و ملزوم ہے۔ بھوک و افلاس سے ماری عوام پر آپ کی سیاسی بیان بازی و کندھوں پر سجی شجاعتیں بلکل بھی اثر انداز نہیں ہونے والی۔ قلیل مدتی فائدے کی سوچ سے آگے نکلیں اگر کہ آپ نے اپنے گاہکوں کو زندہ رکھنا ہے کیونکہ آپ کے گاہک عوام ہیں۔۔

یہ بھی پڑھیے

About The Author