وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اخباری کالم تحریر کی دنیا کا عجیب الخلقت بچہ ہے۔ عبدالمجید سالک اور چراغ حسن حسرت کے قلم کی بدولت کتم عدم سے عالم ہست میں نمود ہوئی لیکن اسے صنف ادب نہیں کہہ سکتے۔ جو گرا پڑا ادیب کہیں بقیة السیف سانس لیتا ہے وہ اسے ادب قرار دینے پر بھڑک اٹھے گا اور صنف کی اصطلاح پر کشور ناہید نے کلیم داخل کر رکھا ہے۔ خدا خدا کر کے تانیثی ادب تک آئی ہیں ورنہ بھلے وقتوں میں آلما آٹا میں چند روز گزار کر واپس آئیں تو ادب میں صنف کی جفتی پر بھڑک اٹھتی تھیں۔ اب سے چالیس برس ادھر معلوم حیاتیاتی اصناف تو دو تھیں لیکن کشور آپا نے صنف پر اس طور املاک متروکہ ایسا اجارہ جاتی کلیم داخل کیا کہ بنت نذر الباقر اور امتیاز علی حجاب تک عشق پیچاں میں لپٹی مخملیں تحریروں کو پیروں کے بل گھسیٹ کر تانیثی ادب کے پائیں باغ میں جا پٹخا۔ کشور ناہید عمر اور منصب کے اس درجے پر ہیں جہاں ان سے مقاومت کا اشارہ گویا پیمرا کے نئے ترمیمی قانون کی حساسیت کی مانند قابل دست اندازی ہراسانی کے زمرے میں آتا ہے۔ ہراسانی کی اصطلاح فارسی سے مشتق تھی۔ آپا کشور ناہید نے کہیں انگریزی لغت سے چندھیائی دو ایک خواتین کو پاس بٹھایا اور ہراسگی کی اصطلاح ضابطہ فوجداری کی دفعہ 509 میں شامل کر دی۔ ہم ایسے گوشہ نشین تو فوجداری قانون کا نام سن کر ہراساں بلکہ ہراسگاں ہو جاتے ہیں۔ حارث خلیق ایسے اہل زبان کو توفیق نہیں ہوئی کہ ہراسگی بروزن خفگی پر انگلی اٹھائے اور پوچھ لے کہ بن بلائی بدنیت توجہ کو ہراسانی سے ہراسگی کی لسانی بدعت میں تبدیل کرنے میں کیا مصلحت تھی۔
بات کہاں سے شروع ہوئی تھی اور لفظوں کے چاکیواڑہ سے ہوتی ہراسانی بلکہ ہراسگی تک پہنچ گئی۔ کہنا صرف یہ تھا کہ گزشتہ کالم میں حقیر پرتقصیر نے دو مقامات پر سعودی عرب کا ذکر کیا تھا۔ ادارہ ہذا کے قلمی محتسب نے برادر اسلامی ملک میں تبدیل کر دیا۔ وہ اپنے ہدایت نامہ خاوند کے تابع ہیں۔ ادھر کلک بے مایہ کی نوک پر حقیقت بیانی بائیں پاﺅ ں کے انگوٹھے پر نرت کرتی ہے۔ چلئے اب یہ قاعدہ پلے باندھ لیا۔ واللہ ایران یا سعودی عرب کا ہرگز نام نہیں لیں گے۔ برادران یوسف کی ترکیب سے کام چلائیں گے۔ نیز دست دعا دراز کریں گے کہ کسی برادر اسلامی ملک کے صاحب اقتدار کا نام یوسف نہ ہو، ابھی تو ہمیں ناصر باغ اور قذافی سٹیڈیم کے لالے پڑے ہیں۔ ا±ن زمینوں کے محروم الارث لاشے مدت ہوئی وقف خاک ہو گئے، ہم لکیر پیٹ رہے ہیں۔ لکیر بھی محاورے کی دین ہے، ماتم تو اخباری کالم کا ہو رہا ہے۔ روزنامہ اخبار کا دستور ہے کہ قصہ زمین برسر زمین۔ آج کی بات ابھی نمٹاﺅ۔ یہاں گزشتہ سے پیوستہ کا چلن نہیں۔ گزرے ہوئے کل کا اخبار کڑوے تیل میں تلی مچھلی میں لپٹ گیا۔ نیا دن ہے، نئی بندش میں سرگم باندھو۔ نیا جیون کی نہ آ جائے کناردریا، نیا باندھو رے کنار دریا….
افغان پالیسی کی بات ہو رہی تھی۔ 1989 سے 1992 تک مجاہدین باہم دست و گریبان رہے۔ 9 برس تک افغانستان پر سوویت قبضے کے دوران پچیس لاکھ افغان بے وطن ہو کر پاکستان آئے۔ ایک اندازے کے مطابق پندرہ لاکھ افغان باشندوں نے دربدر ہو کر ایران میں پناہ لی۔ گویا کل آبادی کا ایک تہائی بے گھر ہو گیا۔ اس دوران لیکن کابل کی رونق باقی رہی۔ روسی فوج کی واپسی کے بعد خانہ جنگی میں گل بدین حکمت یار، برہان الدین ربانی، رشید دوستم اور شاہ نواز تنائی نے کابل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ کابل آباد تھا تو پشاور کے ڈبگری بازار کی طرح بستی خرابات میں استاد محمد حسین سرہنگ کے شاگرد رباب پر تان اڑاتے تھے۔ مجاہدین نے خرابات سمیت پورے کابل شہر کو کھنڈرات میں بدل دیا۔ صرف کابل شہر میں پچاس ہزار شہری کھیت رہے۔ پاکستان میں نسیم حجازی کے معنوی تلامذہ سمجھتے تھے کہ مجاہدین نے اسلام کے نام پر بندوق اٹھائی ہے۔ انہیں حرم پاک میں لے جا کر امن پر آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انہیں تو بھتے اور تاوان سے غرض تھی۔ ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت 1992 میں ختم ہوئی تو جگہ جگہ ناکے لگا کر لوٹ مار شروع ہوئی۔ کچھ کہانیاں تو ناقابل اشاعت ہیں۔
زبان اور قبیلے کے نام پر باہم خون بہانے والوں میں سے کوئی وادی پنج شیر کا باگھ تھا تو کوئی ہرات کا قصاب تھا۔ کوئی شہریوں کو ٹینکوں سے باندھ کر دولخت کرتا تھا تو کوئی سربریدہ لاشوں پر ابلتا تیل ڈال کر رقص بسمل سے لطف اٹھاتا تھا۔ دوسری طرف فروری 1989ءمیں کشمیر کا محاذ گرم ہو چکا تھا۔ داخلی معاملات ایسے دھندلے تھے کہ قاضی حسین احمد کی آواز پر نواز شریف اور بینظیر بھٹو بھی 5 فروری کو یوم کشمیر قرار دینے پر مجبور تھے۔ یٰسین ملک سرعام شیخ رشید کے تربیتی کیمپوں کا ذکر کرتے تھے۔ خارجہ پالیسی پر غیر منتخب قوتوں کی گرفت ایسی تھی کہ 29 ستمبر 1996ءکو پاکستان نے طالبان حکومت کو تسلیم کیا تو بینظیر بھٹو کی دم توڑتی حکومت کو یہ خبر ٹیلی ویژن پر موصول ہوئی۔ سردار آصف احمد علی نے کابل پر عمل داری رکھنے والی افغان حکومت تسلیم کرنے کی روایت کا حوالہ تو دیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ طالبان حکومت ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد ماننے پر تیار نہیں۔ پاک افغان سرحد کے عملی طور پر ختم ہونے کی تفصیل جاننا ہو تو احمد رشید کی کتاب ’طالبان‘ پڑھئے۔ کشمیر کی وادی کو آگ، خون اور دریا کا نمونہ بننے کی داستان جاننا ہو تو کشمیری صحافی بشارت پیر کی یادداشتیں Curfewed Nights دیکھئے۔ اس کہانی کا بین الاقوامی تناظر سمجھنا ہو تو ADRIAN LEVY اور CATHY SCOTT-CLARK کی کتاب The Meadow پر ایک نظر ڈال لیجئے۔ اگر اجنبی زمینوں سے اترنے والی خانماں بربادی کی زخم شماری کرنا ہو تو راہول پنڈت کی کتاب Our Moon has Blood Clots پڑھ لیجئے۔ کالم کی تنگنائے میں اتنی جگہ کہاں اور میرے دل کو تاب نظر کہاں۔ (جاری ہے)
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر