رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا میں کیا کیا شاندار کتابیں چھپتی رہتی ہیں۔ برسوں ایک شخصیت پر ریسرچ کر کے وہ کتاب لکھی جاتی ہے جسے آپ ایک دفعہ شروع کریں تو نیچے نہ رکھ پائیں۔ایک نئی کتاب خریدی ہے جو سابق بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی پر لکھی گئی ہے۔ اس کتاب کی امریکن مصنفہ کیتھرین فرینک نے چھ برس تک بھارت میں رہ کر اس خاتون وزیراعظم پر تحقیق کی اور پھر کتاب لکھی۔567صفحات پر مشتمل کتاب آپکو کسی اور جہاں کی سیر کراتی ہے اور آپ مصنفہ کو بے ساختہ داد دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔اس نے امریکہ چھوڑ کر بھارت جانے کا فیصلہ کیا تاکہ اس کتاب پر کام کر سکے جس کا نام ہے :Indira: The Life of Indira Nehru Gandhi۔
باقی کتاب کوچھوڑ کر میں سیدھا آپ کو اس کے اُس حصے پر لے کر جاتا ہوں جب بھارتی وزیراعظم شاستری کی تاشقند میں اچانک موت ہوگئی تھی‘ جہاں وہ صدر ایوب خان سے جنگ بندی معاہدے پر مذاکرات کررہے تھے۔ بھارت میں بڑا بحران پیدا ہوگیا کہ اب نیا وزیراعظم کون ہوگا؟ نہرو جیسے بڑے وزیراعظم کے بعد شاستری جیسے بندے نے دو سال کا عرصہ تو گزار لیا تھا لیکن اب شاستری کے بعد دور دور تک بڑا لیڈر نظر نہیں آرہا تھا۔ شاستری کی جگہ لینے کیلئے کانگرس کے اندر سے نو دس امیدوار بن کر ابھرے۔ اُس وقت کانگرس کے چودہ ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کا بڑا اہم رول تھا‘ وہ کس کو وزیراعظم بنوائیں گے۔بھارت کو شروع ہی سے نہرو نے جمہوریت کی پٹڑی پر ڈال دیا تھا۔وہاں کانگرس کا صدر یا سیکرٹری اپنی مرضی سے کسی کو وزیراعظم کے عہدے کیلئے نامزد نہیں کرسکتا تھا۔ نیا وزیراعظم چننا ہے تو آپ کو پارلیمانی پارٹی کے ارکان کی رائے معلوم کرنی ہو گی۔ مختلف امیدوار الیکشن لڑیں گے اور پارلیمانی پارٹی کے ارکان اپنے ووٹ کے ذریعے فیصلہ کریں گے۔ اس دوڑ میں مرار جی ڈیسائی سب سے زیادہ ایکٹو تھے۔ وہ خود کو اس اہم عہدے کا حق دار سمجھتے تھے‘لیکن پارٹی کے اندر ایک گروپ تھا جو مرار جی ڈیسائی کے وزیراعظم بننے کے خلاف تھا۔ ہندوستانی ابھی تک نہرو فیملی کے رومانس میں تھے۔نہرو کی بیٹی اندرا ابھی تک چُپ بیٹھی تھی۔اس نے اب تک ایسا اشارہ نہ دیا تھا کہ وہ بھی وزیراعظم بننے کی دوڑ میں شامل ہے۔ جب سب امیدواروں کے نام سامنے آگئے تو پارٹی کے اندر ایک گروپ پیدا ہوا جو ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کا تھا۔ انہیں لگا کہ ڈیسائی وزیراعظم بن گیا تو وہ ایک باقاعدہ سیاسی بندہ ہے جو ان کی کوئی بات نہیں سُنے گا اور اپنی مرضی سے حکومت کرے گا۔ ڈیسائی کے بارے کسی نے ایک کمنٹ کیا تھا کہ اس میں نہرو والی سب برائیاں تو موجود تھیں لیکن نہرو والی ایک خوبی بھی نہیں تھی کہ اسے وزیراعظم بنایا جاتا۔ اس گروپ کا خیال تھا کہ اگر نہرو کی بیٹی اندرا کو آگے کیا جائے تو بہتر رہے گا۔ ایک تو وہ عورت ہے اور دوسرے ناتجربہ کار لہٰذا اسے کنٹرول کرنا آسان ہوگا۔ وہ ہر وقت ان کے کندھے ڈھونڈتی رہے گی۔ پارلیمانی ووٹ اور سپورٹ تو ان کے پاس تھی۔ جب بھی پارلیمنٹ یا کابینہ میں مسئلہ ہوگا وہ دوڑی دوڑی ان کے پاس آئے گی۔ اندرا تو نام کی وزیراعظم ہوگی جبکہ اصل پاور وہ استعمال کریں گے۔ یوں ایک تیر سے وہ دو شکار کریں گے۔ ایک تو مرار جی ڈیسائی کا پتہ کٹ جائے گا‘ دوسرے ایک کمزور عورت وزیراعظم ان کے اشاروں پر چلے گی اور راج نیتی کا کھیل وہ خود کھیلیں گے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ پیچھے بیٹھ کر مرضی کے فیصلے کریں گے‘ لیکن ان فیصلوں کی ذمہ داری کا بوجھ اندرا کے کندھوں پر ہوگا۔ پھر کانگرس کو یہ محسوس ہورہا تھا کہ اگلے سال بھارت میں جنرل الیکشن ہونے والے ہیں اور نہرو خاندان کا فرد الیکشن مہم چلائے گا تو پارٹی کے الیکشن جیتنے کے امکانات زیادہ ہوں گے۔یوں ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے اندر گاندھی کے لیے لابنگ شروع کر دی۔ دوسری طرف بھارتی صدر رادھا کرشن بھی خاموشی سے اندرا کی حمایت کر رہے تھے۔ انہیں بھی وہی مسئلہ تھا کہ ڈیسائی جی سے بہتر اندرا گاندھی ہے جسے آسانی سے وہ سب ہینڈل کر لیں گے۔اندرا کو اچھی طرح اندازہ تھا کہ یہ سب کیا کھیل چل رہا ہے۔ کسی قریبی دوست نے اندرا سے پوچھا کہ تم آرام سے گھر بیٹھی ہو کوئی ہلچل نہیں کررہی۔ باہر تو بڑا سیاسی دنگل لگا ہوا ہے۔ اندرا نے جواب دیا‘ یہ بابے سیاستدان اس کی محبت میں اسے وزیراعظم نہیں بنانا چاہ رہے تھے بلکہ ان سب کا ایک مشترکہ مخالف ہے اور اُس کا نام مرار جی ڈیسائی ہے جس کا وہ راستہ روکنا چاہتے ہیں۔ اسے بھلا بھاگ دوڑ کی کیا ضرورت ہے۔ وہ سب یہی سمجھتے ہیں کہ میں کمزور ہوں اور ان کے ہاتھوں راج نیتی کا کھیل کھیلوں گی۔
خیر جب کئی دنوں کی لابنگ کے بعد ڈیسائی کے خلاف اندرا گاندھی اس گروپ کی اہم امیدوار بنیں تو نہرو کی بہن وجے لکشمی پنڈت جو پہلے اندرا کے حق میں نہیں تھی وہ بھی مجبور ہوگئیں۔ اندراگاندھی کی اپنی پھوپھی سے نہیں بنتی تھی۔ مزے کی بات ہے نہرو‘ اندرا اور وجے لکشمی پنڈت کا ایک ہی سٹار تھا Scorpio جسے آسٹرولوجی میں طاقتور ترین سٹار سمجھا جاتا ہے۔ان سکارپین لوگوں کے بارے کہا جاتا ہے یہ لوگ آپکے دوست ہونے چاہئیں دشمن نہیں۔اب اندرا اور وجے لکشمی کی آپس میں کھٹ پٹ پرانی چلی آرہی تھی جو ہمیشہ نہرو کیلئے مسئلہ پیدا کرتی تھی کہ ایک طرف بہن تو دوسری طرف بیٹی۔ خیر جب وجے لکشمی نے دیکھا کہ ہوا کا رُخ بھتیجی کیطرف چل پڑا ہے تو اسنے ایک بیان جاری کیا لیکن اُس بکری والا کام کیا جو مینگیاں ڈال کر دودھ دیتی ہے۔ وجے لکشمی نے کہا ” اب یہ بات تو یقینی لگتی ہے کہ اندرا ہی ہندوستان کی وزیراعظم ہوگی۔ ہم نہرو اپنے خاندان پر فخر کرتے ہیں۔ جب نہرو خاندان کا فرد وزیراعظم بنے گا تو پورا ہندوستان خوش ہوگا۔ مسز اندرا گاندھی بہت خوبیوں کی مالک ہے لیکن اب اسے تجربے کی ضرورت ہے۔تھوڑے تجربے کیساتھ وہ اچھی وزیراعظم بنے گی۔ اگرچہ اسکی صحت اتنی اچھی نہیں ہے لیکن اپنے کولیگز کی مدد سے وہ اچھی وزیراعظم ثابت ہوگی‘‘۔
19 جنوری 1966ء کی صبح پورے ہندوستان کی نظریں کانگرس کے پارلیمانی اجلاس پر لگی ہوئی تھیں کہ نیا وزیراعظم کون ہوگا۔ اُس صبح اندرا جلدی اٹھی۔ تیار ہوئی۔ اس نے کھاڈی کی ساڑھی پہنی‘ سادہ کشمیری شال لی۔ گلے میں موتیوں کی مالا ڈالی جو اسے ایک بنگالی روحانی شخصیت کی مالک خاتون گُرو نے کچھ پڑھ کی دی تھی۔ تیار ہو کر وہ سیدھی جمنا گئی جہاں مہاتما گاندھی اور اس کے باپ کی آخری رسومات ادا کی گئیں تھیں۔وہ ہاتھ باندھے آنکھیں بند کئے کافی دیر تک کھڑی رہی۔ وہاں سے وہ تین مورتی گئی جہاں اب نیشنل میوزیم ہے ‘جسے نہرو کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ وہ کورویڈو سے گزرتی ہوئی اپنے باپ کے پورٹریٹ کے سامنے جا کر رک گئی۔اندرا کیساتھ اُس وقت ایکٹنگ وزیراعظم اور خاتون سبھادرا جوشی بھی تھی۔ راستے میں اُسے گلدستہ پیش کیا گیا۔مس جوشی نے ایک پھول توڑ کر اندرا کی ساڑھی پر لگا دیا جیسے کبھی اس کا باپ نہرو اپنی شیروانی کے کھلے بٹن پرپھول لگا لیا کرتا تھا۔ کانگرس کا اجلاس شروع ہونے والا تھا۔مرار جی ڈیسائی بھی خاموش سے اپنا کھیل کھیل رہا تھا۔ وہ آسانی سے شکست ماننے والا نہیں تھا ‘ اس نے بھی کچھ سوچ رکھا تھا‘ لہٰذا ایک چال چل دی کہ ووٹنگ خفیہ ہوگی۔اسی کی منصوبہ بندی کے تحت خفیہ ووٹنگ نے ہی اسے جتوانا تھا۔ 526 ایم پیز نے ووٹ ڈالنا تھا۔ خفیہ ووٹنگ شروع ہوچکی تھی۔پورے ہندوستان کی نظریں اُس اجلاس پر تھیں۔ پانچ گھنٹے بعد ووٹنگ مکمل ہوئی۔ ووٹ گنے گئے۔ باہر بڑا ہجوم اکٹھاہوچکا تھا۔ ڈیسائی مطمئن بیٹھا تھا۔جب کانگرس کا چیف وہپ رزلٹ لے کر باہر نکلا تاکہ ہجوم کو بتائے تو کسی بے صبرے نے ہجوم سے چیخ کر کہا :او بھائی جلدی بتائو لڑکا ہوا یا لڑکی (جاری)
باقی کتاب کوچھوڑ کر میں سیدھا آپ کو اس کے اُس حصے پر لے کر جاتا ہوں جب بھارتی وزیراعظم شاستری کی تاشقند میں اچانک موت ہوگئی تھی‘ جہاں وہ صدر ایوب خان سے جنگ بندی معاہدے پر مذاکرات کررہے تھے۔ بھارت میں بڑا بحران پیدا ہوگیا کہ اب نیا وزیراعظم کون ہوگا؟ نہرو جیسے بڑے وزیراعظم کے بعد شاستری جیسے بندے نے دو سال کا عرصہ تو گزار لیا تھا لیکن اب شاستری کے بعد دور دور تک بڑا لیڈر نظر نہیں آرہا تھا۔ شاستری کی جگہ لینے کیلئے کانگرس کے اندر سے نو دس امیدوار بن کر ابھرے۔ اُس وقت کانگرس کے چودہ ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کا بڑا اہم رول تھا‘ وہ کس کو وزیراعظم بنوائیں گے۔بھارت کو شروع ہی سے نہرو نے جمہوریت کی پٹڑی پر ڈال دیا تھا۔وہاں کانگرس کا صدر یا سیکرٹری اپنی مرضی سے کسی کو وزیراعظم کے عہدے کیلئے نامزد نہیں کرسکتا تھا۔ نیا وزیراعظم چننا ہے تو آپ کو پارلیمانی پارٹی کے ارکان کی رائے معلوم کرنی ہو گی۔ مختلف امیدوار الیکشن لڑیں گے اور پارلیمانی پارٹی کے ارکان اپنے ووٹ کے ذریعے فیصلہ کریں گے۔ اس دوڑ میں مرار جی ڈیسائی سب سے زیادہ ایکٹو تھے۔ وہ خود کو اس اہم عہدے کا حق دار سمجھتے تھے‘لیکن پارٹی کے اندر ایک گروپ تھا جو مرار جی ڈیسائی کے وزیراعظم بننے کے خلاف تھا۔ ہندوستانی ابھی تک نہرو فیملی کے رومانس میں تھے۔نہرو کی بیٹی اندرا ابھی تک چُپ بیٹھی تھی۔اس نے اب تک ایسا اشارہ نہ دیا تھا کہ وہ بھی وزیراعظم بننے کی دوڑ میں شامل ہے۔ جب سب امیدواروں کے نام سامنے آگئے تو پارٹی کے اندر ایک گروپ پیدا ہوا جو ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کا تھا۔ انہیں لگا کہ ڈیسائی وزیراعظم بن گیا تو وہ ایک باقاعدہ سیاسی بندہ ہے جو ان کی کوئی بات نہیں سُنے گا اور اپنی مرضی سے حکومت کرے گا۔ ڈیسائی کے بارے کسی نے ایک کمنٹ کیا تھا کہ اس میں نہرو والی سب برائیاں تو موجود تھیں لیکن نہرو والی ایک خوبی بھی نہیں تھی کہ اسے وزیراعظم بنایا جاتا۔ اس گروپ کا خیال تھا کہ اگر نہرو کی بیٹی اندرا کو آگے کیا جائے تو بہتر رہے گا۔ ایک تو وہ عورت ہے اور دوسرے ناتجربہ کار لہٰذا اسے کنٹرول کرنا آسان ہوگا۔ وہ ہر وقت ان کے کندھے ڈھونڈتی رہے گی۔ پارلیمانی ووٹ اور سپورٹ تو ان کے پاس تھی۔ جب بھی پارلیمنٹ یا کابینہ میں مسئلہ ہوگا وہ دوڑی دوڑی ان کے پاس آئے گی۔ اندرا تو نام کی وزیراعظم ہوگی جبکہ اصل پاور وہ استعمال کریں گے۔ یوں ایک تیر سے وہ دو شکار کریں گے۔ ایک تو مرار جی ڈیسائی کا پتہ کٹ جائے گا‘ دوسرے ایک کمزور عورت وزیراعظم ان کے اشاروں پر چلے گی اور راج نیتی کا کھیل وہ خود کھیلیں گے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ پیچھے بیٹھ کر مرضی کے فیصلے کریں گے‘ لیکن ان فیصلوں کی ذمہ داری کا بوجھ اندرا کے کندھوں پر ہوگا۔ پھر کانگرس کو یہ محسوس ہورہا تھا کہ اگلے سال بھارت میں جنرل الیکشن ہونے والے ہیں اور نہرو خاندان کا فرد الیکشن مہم چلائے گا تو پارٹی کے الیکشن جیتنے کے امکانات زیادہ ہوں گے۔یوں ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے اندر گاندھی کے لیے لابنگ شروع کر دی۔ دوسری طرف بھارتی صدر رادھا کرشن بھی خاموشی سے اندرا کی حمایت کر رہے تھے۔ انہیں بھی وہی مسئلہ تھا کہ ڈیسائی جی سے بہتر اندرا گاندھی ہے جسے آسانی سے وہ سب ہینڈل کر لیں گے۔اندرا کو اچھی طرح اندازہ تھا کہ یہ سب کیا کھیل چل رہا ہے۔ کسی قریبی دوست نے اندرا سے پوچھا کہ تم آرام سے گھر بیٹھی ہو کوئی ہلچل نہیں کررہی۔ باہر تو بڑا سیاسی دنگل لگا ہوا ہے۔ اندرا نے جواب دیا‘ یہ بابے سیاستدان اس کی محبت میں اسے وزیراعظم نہیں بنانا چاہ رہے تھے بلکہ ان سب کا ایک مشترکہ مخالف ہے اور اُس کا نام مرار جی ڈیسائی ہے جس کا وہ راستہ روکنا چاہتے ہیں۔ اسے بھلا بھاگ دوڑ کی کیا ضرورت ہے۔ وہ سب یہی سمجھتے ہیں کہ میں کمزور ہوں اور ان کے ہاتھوں راج نیتی کا کھیل کھیلوں گی۔
خیر جب کئی دنوں کی لابنگ کے بعد ڈیسائی کے خلاف اندرا گاندھی اس گروپ کی اہم امیدوار بنیں تو نہرو کی بہن وجے لکشمی پنڈت جو پہلے اندرا کے حق میں نہیں تھی وہ بھی مجبور ہوگئیں۔ اندراگاندھی کی اپنی پھوپھی سے نہیں بنتی تھی۔ مزے کی بات ہے نہرو‘ اندرا اور وجے لکشمی پنڈت کا ایک ہی سٹار تھا Scorpio جسے آسٹرولوجی میں طاقتور ترین سٹار سمجھا جاتا ہے۔ان سکارپین لوگوں کے بارے کہا جاتا ہے یہ لوگ آپکے دوست ہونے چاہئیں دشمن نہیں۔اب اندرا اور وجے لکشمی کی آپس میں کھٹ پٹ پرانی چلی آرہی تھی جو ہمیشہ نہرو کیلئے مسئلہ پیدا کرتی تھی کہ ایک طرف بہن تو دوسری طرف بیٹی۔ خیر جب وجے لکشمی نے دیکھا کہ ہوا کا رُخ بھتیجی کیطرف چل پڑا ہے تو اسنے ایک بیان جاری کیا لیکن اُس بکری والا کام کیا جو مینگیاں ڈال کر دودھ دیتی ہے۔ وجے لکشمی نے کہا ” اب یہ بات تو یقینی لگتی ہے کہ اندرا ہی ہندوستان کی وزیراعظم ہوگی۔ ہم نہرو اپنے خاندان پر فخر کرتے ہیں۔ جب نہرو خاندان کا فرد وزیراعظم بنے گا تو پورا ہندوستان خوش ہوگا۔ مسز اندرا گاندھی بہت خوبیوں کی مالک ہے لیکن اب اسے تجربے کی ضرورت ہے۔تھوڑے تجربے کیساتھ وہ اچھی وزیراعظم بنے گی۔ اگرچہ اسکی صحت اتنی اچھی نہیں ہے لیکن اپنے کولیگز کی مدد سے وہ اچھی وزیراعظم ثابت ہوگی‘‘۔
19 جنوری 1966ء کی صبح پورے ہندوستان کی نظریں کانگرس کے پارلیمانی اجلاس پر لگی ہوئی تھیں کہ نیا وزیراعظم کون ہوگا۔ اُس صبح اندرا جلدی اٹھی۔ تیار ہوئی۔ اس نے کھاڈی کی ساڑھی پہنی‘ سادہ کشمیری شال لی۔ گلے میں موتیوں کی مالا ڈالی جو اسے ایک بنگالی روحانی شخصیت کی مالک خاتون گُرو نے کچھ پڑھ کی دی تھی۔ تیار ہو کر وہ سیدھی جمنا گئی جہاں مہاتما گاندھی اور اس کے باپ کی آخری رسومات ادا کی گئیں تھیں۔وہ ہاتھ باندھے آنکھیں بند کئے کافی دیر تک کھڑی رہی۔ وہاں سے وہ تین مورتی گئی جہاں اب نیشنل میوزیم ہے ‘جسے نہرو کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ وہ کورویڈو سے گزرتی ہوئی اپنے باپ کے پورٹریٹ کے سامنے جا کر رک گئی۔اندرا کیساتھ اُس وقت ایکٹنگ وزیراعظم اور خاتون سبھادرا جوشی بھی تھی۔ راستے میں اُسے گلدستہ پیش کیا گیا۔مس جوشی نے ایک پھول توڑ کر اندرا کی ساڑھی پر لگا دیا جیسے کبھی اس کا باپ نہرو اپنی شیروانی کے کھلے بٹن پرپھول لگا لیا کرتا تھا۔ کانگرس کا اجلاس شروع ہونے والا تھا۔مرار جی ڈیسائی بھی خاموش سے اپنا کھیل کھیل رہا تھا۔ وہ آسانی سے شکست ماننے والا نہیں تھا ‘ اس نے بھی کچھ سوچ رکھا تھا‘ لہٰذا ایک چال چل دی کہ ووٹنگ خفیہ ہوگی۔اسی کی منصوبہ بندی کے تحت خفیہ ووٹنگ نے ہی اسے جتوانا تھا۔ 526 ایم پیز نے ووٹ ڈالنا تھا۔ خفیہ ووٹنگ شروع ہوچکی تھی۔پورے ہندوستان کی نظریں اُس اجلاس پر تھیں۔ پانچ گھنٹے بعد ووٹنگ مکمل ہوئی۔ ووٹ گنے گئے۔ باہر بڑا ہجوم اکٹھاہوچکا تھا۔ ڈیسائی مطمئن بیٹھا تھا۔جب کانگرس کا چیف وہپ رزلٹ لے کر باہر نکلا تاکہ ہجوم کو بتائے تو کسی بے صبرے نے ہجوم سے چیخ کر کہا :او بھائی جلدی بتائو لڑکا ہوا یا لڑکی (جاری)
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر