وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔ اس کہاوت کی عملی تصویر اس وقت یوکرین کا محاذِ جنگ ہے۔ وہاں پچھلے سترہ ماہ کے دوران ہر طرح کے اسلحے کے تجربات جاری ہیں۔ جو ممالک کل تک دوسروں کو جنگی اخلاقیات کا بھاشن دیتے تھے آج وہی ممنوعہ اسلحے کے استعمال کا بھی جواز دے رہے ہیں۔مثلاً جو بائیڈن نے بہت ہی مسکین صورت بناتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کو احساس ہے کہ کلسٹر بم اور گولے میدانِ جنگ میں استعمال نہیں کرنے چاہئیں۔خود امریکا نے دو ہزار تین کی جنگِ عراق کے بعد کلسٹر ایمونیشن کا استعمال روک دیا ہے۔مگر یوکرین کو امریکا اس لیے یہ ایمونیشن فراہم کر رہا ہے کیونکہ اسے حملہ آور روسیوں کے خلاف زیادہ ذمے داری سے استعمال کیا جائے گا اور یہ بھی خیال رکھا جائے گا کہ سویلینز اس کی زد میں نہ آئیں۔لیکن دوسری عالمی جنگ سے آج تک دیکھا یہی گیا ہے کہ کلسٹر ایمونیشن سے دشمن کا نقصان ہو نہ ہو سب سے بھاری قیمت عام شہریوں کو ہی چکانا پڑتی ہے۔ چنانچہ اسی خدشے کے پیش نظر امریکا کے قریبی ناٹو اتحادیوں برطانیہ ، کینیڈا اور جرمنی نے یوکرین کو کلسٹر ایمونیشن کی فراہمی کی کھل کے مخالفت کی ہے۔ مگر امریکا کو چونکہ یوکرین کے جنگی خرچے کا سب سے زیادہ بار اٹھانا پڑ رہا ہے اور توپوں کے استعمال کے لیے یوکرین بھیجے جانے والے روایتی گولوں کا ذخیرہ تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ جب کہ امریکا کے پاس آج بھی تیس لاکھ کے لگ بھگ غیر استعمال شدہ کلسٹر بم اور گولے پڑے ہیں۔ ایک روایتی گولے کے مقابلے میں کلسٹر بم زیادہ بڑے دائرے میں دشمن کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ لہٰذا امریکا نے اس ایمونیشن کی فراہمی کو جائز ثابت کرنے کے لیے خوساختہ نظامِ دلائل گھڑ لیا ہے۔
ایک دلیل یہ بھی ہے کہ چونکہ روس پہلے ہی سے محاذِ جنگ پر کلسٹر ایمونیشن استعمال کر رہا ہے لہٰذا یوکرین کو بھی اس کے استعمال کا حق ہے۔ حالانکہ روس اس الزام کی تردید کرتا ہے۔ مگر اب صدر پوتن نے دھمکی دی ہے کہ اگر یوکرین نے اس ایمونیشن کے استعمال میں پہل کی تو اسے کلسٹر کی زبان میں ہی کرارا جواب ملے گا۔ دلیل کوئی بھی ہو مگر ایسے ایمونیشن کے استعمال سے اسی فیصد نقصان سویلینز کا ہی ہے۔اسی لیے دو ہزار آٹھ کے اوسلو کنونشن کے تحت کلسٹر بموں اور گولوں کا استعمال، تیاری اور فروخت کو ممنوع قرار دیا جا چکا ہے۔ اس سمجھوتے پر ایک سو تئیس ممالک دستخط کر چکے ہیں۔ مگر امریکا ، روس اور یوکرین نے دستخط نہیں کیے۔کلسٹر ایمونیشن کوئی سنگل بم یا گولا نہیں ہے۔ بلکہ ایک بڑے بم یا گولے کے خول میں سیکڑوں چھوٹے چھوٹے گولے ہوتے ہیں جو وسیع علاقے میں پھیل کے تباہی مچاتے ہیں۔کلسٹر ایمونیشن کی تباہ کاری دوسری عالمی جنگ کے زمانے سے ثابت ہے۔ انیس سو تینتالیس میں سب سے پہلے اس کا استعمال سوویت فوج نے مغربی روس میں حملہ آور نازی جرمن فوج کے خلاف کیا۔ چند ماہ بعد جرمنوں نے شمالی انگلستان کے ساحلی شہر گرمزبی پر ایسے لگ بھگ ایک ہزار بم گرائے۔
امریکی فضائیہ نے ویتنام پر انیس سو پینسٹھ تا انیس سو تہتر کے دورانیے میں چار لاکھ تیرہ ہزار ایک سو تیس ٹن کلسٹر ایمونیشن برسایا۔ ریڈ کراس کے مطابق لاﺅس کے سترہ صوبوں میں آج بھی اسی ملین کے لگ بھگ کلسٹر ایمونیشن بکھرا پڑا ہے جو پھٹ نہیں سکا۔اس کی زد میں آ کر ہر برس ہزاروں لوگ بالخصوص بچے معذور اور تین سو کے لگ بھگ ہلاک ہو جاتے ہیں۔ انیس سو پچھتر تا اٹھاسی مراکش نے مغربی صحارا میں پولیساریو محاذِ آزادی کے خلاف جب کہ انیس سو بیاسی میں اسرائیل نے جنوبی لبنان پر فوج کشی کے دوران اندھا دھند کلسٹر بارود برسایا۔ اور دو ہزار چھ میں جنوبی لبنان میں حزبِ اللہ کے خلاف کارروائی میں بھی کلسٹر ایمونیشن کا بے دریغ استعمال ہوا۔
انیس سو بیاسی کی جنگِ فاک لینڈ میں برطانیہ نے ارجنٹینا کے آرٹلری مورچوں کو نشانہ بنایا۔ انیس سو اناسی تا نواسی سوویت فوجوں نے افغانستان میں اس ایمونیشن کا کھل کے استعمال کیا۔ آج بھی افغانستان بارود سے آلودہ ممالک کی صفِ اول میں ہے۔انیس سو اکیانوے میں کویت پر قبضے کے بعد چھڑنے والی جنگِ عراق میں برطانیہ اور امریکا نے فضا سے اکسٹھ ہزار کلسٹر بم اور گولے داغے۔یہ تعداد عراق اور کویت پر اتحادی بمباری میں استعمال ہونے والے ایک چوتھائی ایمونیشن کے برابر ہے۔ دو ہزار تین کی جنگ کے دوران عراق پر امریکا اور برطانیہ نے تیرہ ہزار کلسٹر بم برسائے۔ انیس سو بانوے تا پچانوے بوسنیا کی خانہ جنگی میں سرب فوجی دستوں نے کلسٹر بارود استعمال کیا جس سے سیکڑوں شہری ہلاک ہوئے۔سرب فوجوں نے کروشیا کے دارالحکومت زاغرب پر حملے میں بھی یہ ایمونیشن استعمال کیا۔
انیس سو چورانوے چھیانوے میں چیچنیا کے حریت پسندوں کے خلاف روسی فوج نے کلسٹر ایمونیشن استعمال کیا۔انیس سو چھیانوے تا ننانوے کے عرصے میں سوڈانی فوج نے جنوبی سوڈان میں ، انیس سو اٹھانوے میں ایتھوپیا نے اریٹیریا کے خلاف یہ اسلحہ استعمال ہوا۔انیس سو ننانوے میں کوسوو میں ناٹو کی فوجی کارروائی کے دوران سترہ سو پینسٹھ کلسٹر بم گرائے گئے۔
ان کے اندر تین لاکھ چھوٹے چھوٹے ” بمچے“ تھے جنھوں نے چاروں طرف وسیع تباہی پھیلائی۔ دو ہزار ایک اور دو میں افغانستان میں امریکا نے بارہ سو اٹھائیس کلسٹر بم پھینکے جن میں ڈھائی لاکھ چھوٹے چھوٹے ” بمچے “ تھے۔ دو ہزار آٹھ میں روس نے جارجیا پر حملے میں اس کا استعمال کیا۔دو ہزار گیارہ میں کرنل قذافی نے مسراتا کے علاقے میں اپنے ہی شہریوں کے خلاف کلسٹر ایمونیشن استعمال کیا۔ دو ہزار گیارہ سے اٹھارہ تک شامی خانہ جنگی میں سرکاری فوجوں نے باغیوں کے خلاف روسی ساختہ کلسٹر ایمونیشن کا بے دریغ استعمال کیا۔ دو ہزار چودہ میں جزیرہ نما کرائمیا پر قبضے کے دوران روسی فوج نے کلسٹر بم برسائے۔
دو ہزار پندرہ سے دو ہزار اٹھارہ کے دوران یمن کی خانہ جنگی میں سعودی و اماراتی قیادت والی اتحادی فوج نے کلسٹر بارود کا خوب خوب استعمال کیا۔مشرقِ وسطیٰ میں شام کے بعد یمن اس ایمونیشن کا سب سے زیادہ نشانہ بنا۔ اب یوکرین میں روسی اور یوکرینی اس کا استعمال مباح سمجھ رہے ہیں۔کلسٹر ایمونیشن کے نہ پھٹنے کا تناسب دیگر بموں سے زیادہ ہے۔ڈھائی فیصد سے بیس فیصد تک کلسٹر گولے یا بم دھنس جاتے ہیں اور پھر آنے والے عشروں میں بارودی سرنگوں کی طرح نسل در نسل ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
(بشکریہ روزنامہ ایکسپریس)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر