دسمبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کیا جہانگیر ترین کی پارٹی فیصلہ کن کردار ادا کر پائے گی؟۔۔۔||محمد عامر خاکوانی

عامر خاکوانی لاہور میں مقیم سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں،ان کے موضوعات میں سیاست ، حالات حاضرہ ،سوشل ایشوز،عسکریت پسندی اورادب شامل ہیں۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آخر کار جہانگیر ترین صاحب اور عبدالعلیم خان کی پچھلے چند ہفتوں کی مشاورت اور ملاقاتیں رنگ لے آئیں۔ جہانگیر ترین نے اپنی نئی سیاسی جماعت کا اعلان کر دیا۔ اس کے اجزائے ترکیبی دلچسپ ہیں ہی ، مگر نام بھی خوب ہے۔ استحکام پاکستان پارٹی۔ یار لوگوں نے اس کا مخفف آئی پی پی رکھ دیا۔

یاد رکھے کہ آئی پی پی (IPP)نجی شعبے میں چلنے والے بجلی گھروں (Independent Power Plants)کو کہا جاتا ہے۔ وہ بجلی گھر جو مہنگی بجلی بناتے ہیں اور مختلف حیلے بہانوں سے پیداوار کم کر کے ریاست سے زیادہ پیسے اینٹھنے کے چکر میں رہتے ہیں۔ ا مید کرنی چاہیے کہ جہانگیر ترین کی پارٹی ایسا نہیں کرے گی اور یہ صرف نام بلکہ مخفف کی مشابہت ہے۔

پریس کانفرنس خوب تھی، جہانگیر ترین کے پہلو میں علیم خان صاحب براجمان تھے،ترین کے دیرینہ ساتھی اسحاق خاکوانی بھی بیٹھے مسکرا رہے تھے، جبکہ حال ہی میں سیاست سے تنگ آ کر ریٹائر ہونے والے عمران اسماعیل، علی زیدی، عامر کیانی وغیرہ بھی مزے سے بیٹھے تھے ۔ لگتا ہے چند دنوں کے آرام نے ان کی تھکن اتار دی اور وہ اپنا ریٹائرمنٹ کا پلان موخر کر کے پھر سے کھڑے ہوگئے، ایک نئی پارٹی میں جا کر مرکزی سیٹوں پر قبضہ کرنے۔

دلچسپ قصہ فواد چودھری کا بنا۔ وہ سٹیج پر موجود نہیں تھے، مگر ٹی وی چینلز کے ٹِکرز میں مسلسل ان کا نام بتایا جا رہا تھا۔ آخر کیمرہ ان کے اوپر گیا، چودھری صاحب نے دونوں ہتھیلیوں کے پیالے میں چہرہ چھپایا ہوا سا تھا۔ صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں والا ماجرا۔ لگتا ہے فواد چودھری صاحب کے اندر کوئی گلٹ ہے یا وہ کسی اور وجہ سے شرمائے لجائے ہوئے تھے۔ پارٹیاں بدلنا تو ان کا پرانا وتیرہ ہے۔

مشرف لیگ، پیپلزپارٹی ، تحریک انصاف…. چند برسوں میں تین پارٹیاں بھگتا چکے ہیں۔کہتے ہیں کہ ن لیگ میں جانے کی بھی ٹرائی مار چکے ہیں، مگر وہاں دال نہیں گلی۔ خیر انہیں اس بار کسی پارٹی کے بانی رکن ہونے کا اعزاز بھی مل گیا، ورنہ ہمیشہ انہوں نے بعد میں جا کر بھریا میلہ لوٹنے کی کوشش کی ۔

ترین صاحب نے پارٹی کے عہدوں کا اعلان نہیں کیا، یہ کام ہوتا رہے گا۔ ویسے بھی بظاہر پارٹی میں لیڈروں کی بہتات ہے ، البتہ ورکرز اور ووٹرز کی تلاش جاری ہے۔ دیکھیں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں؟
پریس کانفرس دیکھتے ہوئے اور بعد میں اس پر غور کرتے میرے ذہن میں تین چار سوالا ت پیدا ہوئے۔

کیا یہ کنگز پارٹی ہے ؟
کنگز پارٹی کی مثال پوچھیں تو ہم ق لیگ کی مثال دیں گے، جنرل مشرف کے دور میں اس پارٹی کو بنایا اور سپورٹ کیا گیا، ن لیگ کے بیشتر ارکان اسمبلی اور لیڈر اس میں شامل ہوگئے اور پھر دو ہزار دو سے سات تک پانچ سال اسی نے ملک بھر میں حکومت کی۔ جہانگیر ترین کی جماعت ان معنوںمیں تو شائد کنگز پارٹی نہیں کہ اس بارمقابلہ سخت ہے۔ ن لیگ، پیپلزپارٹی اور مولانا کی جے یوآئی تینوں ہی اسٹیبلشمنٹ کی فیورٹ پارٹی بننے کی کوشش میں ہیںاور کسی حد تک سب کو آشیرباد حاصل ہے۔

جہانگیر ترین اور ان کی پارٹی کے بارے میں البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کے لئے مقتدر حلقوں میں نرم گوشہ ہے اور کسی حد تک سپورٹ بھی کیا جا رہا ہے۔ شنید ہے کہ جنوبی پنجاب کے بعض الیکٹ ایبلز کوترین کی طرف جانے کا اشارہ ملا۔ لاہور میں بھی پی ٹی آئی چھوڑنے والے بعض ارکان نے ڈیمو کریٹک گروپ بنانے کا اعلان کیا تھا، مراد راس، کرنل ریٹائر ہاشم ڈوگر وغیرہ۔اچانک ہی یہ پلان تلپٹ ہوگیا ۔ مراد راس تو ترین کی پارٹی میں شامل ہوچکے، ڈوگر بھی لگتا ہے ادھر ہی جائیں گے۔ ہمارے ہاں ایسے کام خاص حلقوں سے اشارے پر ہوتے ہیں، واللہ اعلم ۔

ایک اہم سوال یہ ہے کہ اس وقت تک پارٹی میں لیڈر تو بہت سے ہیں، مگر ان میں حقیقی سیاسی پوزیشن رکھنے والے لوگ کم ہیں۔ علی زیدی کراچی سے ایم این اے بنے تھے، مگر ان کی جیت سو فی صد تحریک انصاف کی مرہون منت تھی ، ورنہ ان کے اپنے حلقے کے لوگ کہتے تھے کہ زیدی صاحب اپنے طور پر کونسلر نہ بن پاتے۔ عمران اسماعیل کی پوزیشن تو زیدی سے بھی گئی گزری ہے۔ عمران خان نے انہیں گورنر جیسا بڑا منصب دیا۔وہ الیکشن لڑنے اور جیتنے والی شخصیت نہیں۔

عون چودھری پہلے غیر منتخب حکومتی مشیر تھے، آئندہ بھی لگتا ہے انہیں کوئی منصب ملا تو ایسے ہی ملے گا۔ پریس کانفرنس میں وہ ترین کے پیچھے کسی پھرتیلے اے ڈی سی کی طرح مستعد کھڑے تھے۔ ان کے بھائی چودھری امین تحریک انصاف کے ٹکٹ پر ایم پی اے بنے، منحرف ہوئے، سیٹ ختم ہوئی۔ ضمنی الیکشن ن لیگ کے ٹکٹ پر لڑا اور بری طرح ہار گئے۔ اسحاق خاکوانی کا تعلق وہاڑی سے ہے، خیر سے پچھلے تینوں الیکشن ہار چکے ہیں۔

علیم خان گڑھی شاہو لاہور سے ایم پی اے رہے ہیں، سیٹ چھوڑی تو ضمنی الیکشن پر ن لیگی امیدوار کی بھرپور حمایت کی، مگر وہ خاصے مارجن سے ہار گیا۔ عامر کیانی تحریک انصاف میں ستائیس سال رہے ، مگر الیکشن وہ عمران خان کی وجہ سے ہی جیتے، اپنی سیاسی پوزیشن خاص نہیں۔ قبلہ جہانگیر ترین خود تاحیات نااہل ہیں، الیکشن نہیں لڑ سکتے۔ نااہلی کے بعد ان کی سیٹ خالی ہوئی تھی، اپنے بیٹے کو الیکشن لڑایا، مگر تمام تر کوشش کے باوجود بیٹے علی ترین کو نہیں جتوا سکے۔ وہ غریب ایسا دلبرداشتہ ہوا کہ آئندہ کے لئے سیاست ہی سے توبہ کر لی۔

ان سب میں نسبتاً بہتر پوزیشن فواد چودھری کی ہے، تاہم ان کی جیت میں بھی انصافین ووٹ بینک کا بڑا حصہ ہے۔ چند ایک سابق ارکان اسمبلی شامل ہوئے ہیں، زیادہ تر وہ جو ضمنی الیکشن تحریک انصاف سے ہار گئے، جیسے نعمان لنگڑیال۔ ملتان سے ظہیر علیزئی بھی شامل ہوئے، انہیںشاہ محمود قریشی نے تحریک انصاف کا ٹکٹ نہیں دلوایا، بے چارے مایوس ہو کر سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر بیٹھے۔ اب اچانک ہی ان میں جان پڑ گئی، اٹھ کر ترین کے ساتھ شامل ہوگئے۔

سوال یہ ہے کہ کیا یہ لیڈر پارٹی کو نشستیں دلا پائیں گے یا یہ ذمہ داری یار لوگوں کو اٹھانا پڑے گی ؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ الیکشن میں جہانگیر ترین اور ہمنوا پارٹی کے پاس ایجنڈا اور نعرہ کیا ہوگا؟

تیسرا سوال یہ بنتا ہے کہ اس وقت پارٹی میں کے پی سے کوئی بھی شامل نہیں ہوا۔ اتنے اہم بڑے صوبے کو نظرانداز کیوں کیا گیا؟ وہاں کوئی اور منصوبہ زیرغورہے؟ پرویز خٹک یا کسی اور کی صورت میں الگ سے لانچنگ یا پھر آگے جا کربندے شامل کرائے جائیں گے۔

کراچی سے تو چند لوگ شامل ہوئے، مگر اندرون سندھ سے کوئی بھی نہیں آیا۔ بلوچستان کی موجودگی بھی صفر تھی۔ جنوبی پنجاب کے اہم الیکٹ ایبلز میں سے کوئی بھی نہیں آیا۔دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے والے ہارے ہوئے امیدوار شامل کرنے سے الیکشن تو لڑا جا سکتا ہے ، مگر جیت کی ضمانت نہیں ہوتی۔

آخری سوال ہے کہ کسی طرح جہانگیر ترین کی پارٹی نے رنگ جما لیا، اپنی سیاسی پوزیشن مضبوط بنا لی تو ایسے میں پھر مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کا کیا ردعمل ہوگا؟ فطری طور پر دونوں نہیں چاہیں گے کہ ان کے کیک سے کوئی اور حصہ دار بنے۔ ن لیگ سنٹرل پنجاب اور ناردرن پنجاب کے حوالے سے حساس رہی ہے، خاص کر لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد، ساہی وال ڈویژن۔

پیپلزپارٹی اپنا تمام تر فوکس جنوبی پنجاب کو بنائے ہوئے ہے، اس امید میں کہ چند سیٹیں نکال کر الیکشن کے بعد حکومت میں شیئر لینے کے لئے بہتر بارگینگ ہوسکے۔ پی پی ہرگز نہیں چاہے گی کہ اس کے حصے کی ملائی کوئی اور ہڑپ کر جائے۔

 

جہانگیر ترین صاحب نے پارٹی تو بنا لی ہے، مگر انہیں بہت زیادہ محنت اور پلاننگ سے چلنا ہوگا۔ خیر یہ ان کے کرنے کا کام ہے، ہم اخبارنویس تو تماشا ہی دیکھ سکتے ہیں ، زیادہ سے زیادہ تبصرہ جڑ دیا۔ اللہ اللہ خیر صلا۔

۔

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

محمد عامر خاکوانی کے مزید کالم پڑھیں

About The Author