وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گیارہ جولائی انیس سو ستاسی کو جب دنیا کی آبادی پانچ ارب نفوس کے ہندسے پر پہنچ گئی تو اس دن کو اقوامِ متحدہ نے سالانہ یومِ آبادی قرار دے دیا تاکہ ریاستوں، سماج اور افراد کو آگہی ہو کہ ایک حد سے زیادہ بوجھ شاید یہ زمین بھی نہ اٹھا سکے کیونکہ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے خود زمین کا سینہ چیر کے سالانہ نوے ارب ٹن وسائل کھینچے جا رہے ہیں۔
بہت جلد یہ سینہ بھی کھکھل ہو جائے گا اور پھر ان وسائل کے بل بوتے پر پھلنے اور اترانے والی انسانی تہذیب بھی روئی کے گالوں کی طرح اڑنے لگے گی۔
باقی جانداروں کی تعداد فطری دائرے میں گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔ مگر انسان نے پچھلی دو صدیوں میں بالخصوص اپنی سائنس لڑا کے اوسط عمر کے فطری دائرے کو بڑھانے کی مسلسل کوشش کی اور اس میں مزید تیزی آ رہی ہے۔ مثلاً دو ہزار میں عالمی اوسط عمر سڑسٹھ برس تھی جو دو ہزار بیس میں بہتر برس تک پہنچ گئی۔
عمر بڑھا لی گئی ہے تو ایک اور معاملہ سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں غربت کے سائے میں آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے جب کہ ترقی یافتہ ممالک میں شرح پیدائش میں کمی کے سبب بوڑھوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یعنی ترقی پذیر ممالک میں بڑھتی ہوئی جواں سال آبادی کی بے روزگاری ترقی کے وسائل کھا رہی ہے اور ترقی یافتہ ممالک میں کام نہ کرنے کے قابل آبادی میں اضافہ وسائل پر بوجھ بن رہا ہے۔
ایک جانب انسان نے دیگر مخلوقات کے مقابلے میں اپنی تعداد بڑھانے کے نئے سانچے وضع کر لیے ہیں تو دوسری جانب بڑھتی ہوئی تعداد کا پیٹ اور نیت بھرنے کے لیے کرہ ارض کی دیگر مخلوقات، جمادات و نباتات بشمول بحر و فضا کی بقا خطرے میں ہے۔ وسائل کے بے تحاشا ریپ کے باوجود فوائد محض چند اقوام کے چند انسانوں کے قبضے میں آتے جا رہے جب کہ باقی محروم انسان کمانے والے ہاتھوں میں اضافے کی ہوس میں اپنی آبادی بے تحاشا بڑھاتے جا رہے ہیں۔ یوں بقا کی کشتی پر ہر طرف سے بوجھ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
اپنی آغوش میں مخلوقِ کفن پوش لیے
یہ زمیں ہے یا خلا میں کوئی تابوت رواں
(احمد نوید)
جب انسان آٹھ ہزار برس قبل زرعی دور میں داخل ہوا تو ایک اندازے کے مطابق اس کرہِ ارض پر پچاس لاکھ انسان بستے تھے۔ اس آبادی کو سن اٹھارہ سو چار عیسوی تک ایک ارب کا ہندسہ چھونے میں کم و بیش پانچ ہزار برس لگے۔ مگر اس ایک ارب آبادی کو دو ارب ہونے میں صرف ایک سو تئیس برس (انیس سو ستائیس) لگے۔ دو ارب کو تین ارب ہونے میں محض تینتیس برس (انیس سو ساٹھ) جب کہ تین ارب کو پانچ ارب ہونے میں محض ستائیس برس (انیس سو ستاسی) اور پانچ ارب کو چھ ارب ہونے میں صرف تیرہ برس (سن دو ہزار) اور چھ ارب کو آٹھ ارب ہونے میں اگلے تئیس برس (اکتوبر دو ہزار تئیس) لگے۔ آٹھ ارب میں سے ایک چوتھائی یعنی دو ارب انسان وہ ہیں جو اکیسویں صدی میں پیدا ہوئے ہیں۔ اس رفتار سے دو ہزار ستاون تک یہ آبادی دس ارب تک پہنچ جائے گی۔
چین کی آبادی اس وقت ایک ارب چوالیس کروڑ ہے۔ اندازہ ہے کہ بھارت اس سال کے آخر تک اس معاملے میں چین کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ کیونکہ چین میں سخت سرکاری پالیسیوں کے سبب پچھلے چالیس برس میں آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے خاصا کام ہوا اور چند سال پہلے ہی ’’فی جوڑا ایک بچہ‘‘ کی پالیسی نرم کی گئی ہے۔
پاکستان نے اگرچہ جنوبی ایشیا میں آبادی کنٹرول کرنے کا سب سے پہلا پروگرام سن ساٹھ کے عشرے میں امریکی امداد سے شروع کیا۔ مگر امتِ مسلمہ بڑھانے کے جوش میں یہ پروگرام تنکے کی طرح بہہ گیا اور آج ماشااﷲ پاکستان رفتار کی اس دوڑ میں چوٹی کے پانچ ممالک میں اگر پہلے نہیں تو دوسرے پائیدان پر ضرور کھڑا ہے۔ جب کہ انسانی معیارِ زندگی کی ایک سو نوے ممالک کی قطار میں پاکستان کا نمبر ایک سو تیس اور بتیس کے درمیان جھولتا رہتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق متحدہ ہندوستان کی آبادی سن اٹھارہ سو میں سترہ کروڑ تھی۔ سن انیس سو میں انیس کروڑ تھی۔آزادی کے بعد انیس سو اکیاون کی پہلی مردم شماری کے مطابق بھارت کی آبادی چھتیس کروڑ دس لاکھ تھی جو اگلے بہتر برس میں ایک ارب چالیس کروڑ کا ہندسہ پار کر گئی۔
برطانوی ہند میں پہلی جزوی مردم شماری اٹھارہ سو بہتر میں اور پہلی مکمل مردم شماری اٹھارہ سو اکیاسی میں ہوئی۔سن انیس سو میں موجودہ پاکستان کی آبادی ایک کروڑ بیس لاکھ کے لگ بھگ تھی۔
پاکستان بننے کے بعد پہلی مردم شماری (انیس سو اکیاون ) کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی ساڑھے سات کروڑ تھی۔ یعنی چار کروڑ بیس لاکھ لوگ مشرقی پاکستان میں اور تین کروڑ تیس لاکھ مغربی پاکستان میں تھے۔ غیر مسلم اقلیت کا تناسب ساڑھے چودہ فیصد تھا۔
انیس سو ستر میں مشرقی پاکستان کی آبادی بڑھ کے ساڑھے چھ کروڑ اور مغربی پاکستان کی آبادی پانچ کروڑ اسی لاکھ ہو گئی۔آج بنگلہ دیش کی آبادی سولہ کروڑ اور ہماری آبادی چوبیس کروڑ ہے۔ جب کہ اقلیتوں کا تناسب پاکستان میں انیس سو اکہتر کے بعد ساڑھے چودہ فیصد سے کم ہو کر دو سے ڈھائی فیصد کے درمیان رہ گیا ہے اور عدم رواداری کا تناسب کئی گنا بڑھ گیا ہے۔
عالمی بینک کے آنکڑوں کے مطابق بھارت کی آبادی میں سالانہ اضافہ صفر اعشاریہ سات فیصد اور بنگلہ دیش میں یہ تناسب ایک اعشاریہ ایک فیصد ہے۔ جب کہ افغانستان میں ڈھائی فیصد سالانہ کے بعد پاکستان ایک اعشاریہ نو فیصد کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر ہے۔ باقی آپ سمجھ دار ہیں۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ