اسلم اعوان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قومی سیاست میں عمران خان کی انٹری انتشار انگیز رجحان سے شروع ہو کر ایسے عمیق تشدد پہ منتج ہوئی جس نے ریاستی اتھارٹی کی چولیں ہلا ڈالیں، اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ خان نے مقتدرہ کی ہمنوائی میں نیا پاکستان بنانے کی مبینہ سکیم کے تحت ملک کو بالترتیب 2014 کے پرتشدد دھرنوں، 2017 کی تباہ کن عدالتی فعالیت، 2022 میں اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک روکنے کے لئے آئین سے فراڈ اور پھر 9 مئی 2023 کو فوج کے قلب پر حملے کرا کے سسٹم کو تارپیڈو کرنے کے ساتھ اپنی سیاست کے افسانے کو بھی انجام تک پہنچا دیا۔
گزشتہ دس سالوں سے وہ ملک میں برپا ہر بحران کے محرک نظر آئے اور اب خان کا دہائیوں پہ محیط فوج کے ساتھ محبت و نفرت کا رشتہ ایسے بے مقصد تصادم پہ منتج ہوا، جس کی تفہیم آسان نہیں۔ سیزر نے کہا تھا ”انسان مختلف طریقے اپنانے کے باوجود ایک جیسے انجام سے دو چار ہوتے ہیں“ ۔ علی ہذا القیاس، ان کی پی ٹی آئی 2011 تک کوئی قابل ذکر جماعت نہیں تھی، پھر ”نیا پاکستان“ بنانے کے شوق میں نادیدہ قوتوں نے خوف و ترغیب کے ہتھکنڈے استعمال کر کے ایلکٹیبلز کو خان کی مہمات میں شامل کرا کے پارٹی کو مضبوط بنایا۔
سیاسی حریفوں نے اسٹبلشمنٹ پر 2018 کے عام انتخابات میں خان کے حق میں دھاندلی کے الزامات بھی لگائے تاہم سیاست کے رومانوی نعروں کے ساتھ ایوان اقتدار تک پہنچنے والے عمران خان کی گورنمنٹ کی معاشی مسائل سے نمٹنے میں ناکامی اور حکومتی نظام میں اصلاحات کے وعدوں پورے نہ کرنے سمیت بدترین کارکردگی کے باعث بالآخر فوج نے خود کو ”غیر جانبدار“ قرار دے کر پی ٹی آئی حکومت کی پشت پناہی چھوڑ دی تو خان بھڑک اٹھے۔ غلطیوں کو سدھارنے اور تلخ تجربات کو اپنی سیاسی مہارت کا حصہ بنانے کی بجائے انہوں نے سابق آرمی چیف جنرل باجوہ پر غداری کی تہمت لگانے کے علاوہ امریکیوں پہ رجیم چینج کا الزام عائد کرنے سمیت سازشی تھیوری کی گونج میں ایسی ٹامک ٹوئیاں ماریں، جو اسے بتدریج سیاسی تنہائی کی طرف دھکیلتی گئیں۔
انہوں نے سیاسی شکست کے صدمات سے نمٹنے اور اپنی ناکامیوں کو نقاب ابہام میں رکھنے کے علاوہ صداقت و امانت کے مہمل اعزازات کے دفاع کے لئے اپنے خلاف کرپشن کے الزامات کی تحقیقات سے بچنے کی خاطر قبل از وقت انتخابات کے لئے عجلت میں ایسے قدم اٹھائے جو ان کے سیاسی مستقبل کے لئے مہلک ثابت ہوئے۔ پہلے قومی اسمبلی توڑنے کی ناکام کوشش کی، پھر پارلیمنٹ سے مستقل بائیکاٹ کر کے حکمراں اتحاد کے لئے میدان خالی چھوڑ آئے، صرف اسی پہ اکتفا نہیں کیا، پنجاب اور خیبر پختون خوا صوبوں کی اسمبلیاں توڑ کے موجود بندوبست کو ڈی ریل کرنے کی کوشش میں اپنا سارا سیاسی سرمایہ گنوا دیا، آخر کار پارٹی میں داخلی اختلافات کی بدولت پہلے آزاد کشمیر اور اب انہیں گلگت بلتستان حکومت سے بھی ہاتھ دھونا پڑے، وہ لمحہ موجود تک اپنی طبع زاد حکمت عملی کو موثر بنانے پہ مصر ہیں۔
اس کے برعکس ان کے مدمقابل کہنہ مشق سیاستدانوں نے ذہنی لچک اور اجتماعی مساعی کو بروئے کار لا کر عالمی قوتوں اور طاقت کے مراکز کو قدرے بہتر انداز میں مینیج کر کے مملکت اور سیاست پہ بتدریج اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ اپریل 2022 میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے الگ کیے جانے کے بعد خان نے اپنی ذمہ دارانہ سیاسی حیثیت کا درست ادراک کرنے کی بجائے تصادم اور تشدد کی راہوں پہ گام فرسائی کر کے اگست 2014 کی سیاسی بیخودی میں واپس پلٹنے کی جسارت کر ڈالی۔
اس وقت عمران خان کے پاس کھونے کے لئے کچھ نہیں تھا اس لئے انہیں ہر اتھارٹی سے ٹکرانے اور ہر جماعت کو دھکا دینے کی سہولت فائدہ پہنچاتی تھی لیکن اب سابق وزیراعظم اور اقتدار کی اسٹیک ہولڈر جماعت کے لیڈر کے طور پہ انہیں جو خاص مقام حاصل ہے، اسے برقرار رکھنے کے تقاضے کچھ اور ہیں، گویا وہ اپنے موجودہ مقام اور فرض کو پہچاننے میں ناکام رہے اور بالغ النظر سیاستدان کی طرح میسر عوامی حمایت پہ بھروسا رکھنے کی بجائے سیاسی یتیموں کی طرح آج بھی ایوان اقتدار تک پہنچنے کے لئے مقتدرہ سے ڈیل چاہتے ہیں، چنانچہ وہ سیاسی عوامل سے منسلک رہنے کی بجائے فوج سے لڑنے اور مفاہمت کرنے کی کوشش میں بھٹک گئے۔
عمران خان نے اپنی سیاسی جنگ کے دوران دو قوتوں بارے غلط تخمینے لگائے اول ملکی اسٹبلشمنٹ جسے وہ ملک میں حتمی اور فیصلہ کن قوت سمجھ کر اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھے کہ پاکستانی مقتدرہ نے ہمیشہ سیاسی قوتوں سے توانائی حاصل کر کے مملکت اور قومی سیاست پہ غلبہ پا کر عالمی سطح پہ اپنی سودا بازی کی پوزیشن بہتر بنائی، دوسرا امریکی مقتدرہ کی آشیرواد لینے کے لئے خان نے جن طریقوں کو آزمایا وہ بھی بیکار ثابت ہوئے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ پاور پالیٹکس میں مقتدرہ سیاستدانوں سے اور سیاستدان مقتدرہ سے توانائی لیتے ہیں، یہی دو طرفہ عمل کشمکش کے باوجود انہیں باہم مربوط رکھتا ہے، عوام پہ کنٹرول اور سماج سے مربوط رہنے کے لئے اسٹبلشمنٹ کو با اثر سیاستدانوں کے علاوہ مقبول سیاسی جماعتوں کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔ ذرا غور کیجئے اگر عمران خان کی شخصیت اور پی ٹی آئی کی تنظیم نہ ہوتی تو مقتدرہ نواز لیگ، پیپلز پارٹی یا جے یو آئی کا مقابلہ کیسے کر سکتی تھی؟
اسے روایتی سیاسی قوتوں کے خلاف کرپشن کے بیانیہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے متبادل سیاسی قوت کی ضرورت تھی جسے پی ٹی آئی کے ذریعے نتیجہ خیز بنایا گیا اور اب عمران خان کی شوریدگی کو کنٹرول کرنے کے لئے بھی انہیں پی ڈی ایم کا کندھا درکا تھا بصورت دیگر ٹینک، توپوں اور ملٹری کورٹس کے ذریعے سیاسی عوامل کو مسخر کرنا ممکن نہ ہوتا۔ عمران خان کے لئے اپنی موجودہ سیاسی حیثیت کو قائم اور پارٹی کے انسانی سرمایہ کو بچانے کے لئے لازم تھا کہ وہ دیگر سیاسی جماعتوں سے ہم آہنگ رہ کر خاموش مزاحمت (Passive resistance) کے ذریعے اپنے لئے محفوظ راہ عمل بناتے مگر افسوس کہ خان نے اپنی طویل سیاسی جدوجہد کے ثمرات کا درست تخمینہ لگائے بغیر تنہا پرواز کے شوق میں وہ سب کچھ گنوا دیا جو اچھی قسمت نے اسے مہیا کیا تھا۔
رومی کہتے ہیں ”تمام رحمتوں سے بڑی رحمت اچھی قسمت اور اس کے بعد اچھا مشورہ ہے، جو کسی بھی طرح کم اہم نہیں کیونکہ اس کے بغیر وہ سب کچھ برباد ہو جاتا ہے جو اچھی قسمت سے حاصل ہوتا ہے“ ۔ 1977 کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے نتیجہ میں پی پی پی کو تحریک انصاف سے کہیں زیادہ بدترین صورت حال کا سامنا تھا، ان کے پاس سوشل میڈیا کے لامحدود ابلاغی وسائل تھے نہ عالمی برادری کی اس قدر حمایت میسر تھی، جتنی خان کو ملی۔
اس وقت ضیا الحق کی مقدس آمریت کے تحت پنپنے والی مذہبی فعالیت کو لگام دینے کی خاطر امریکہ کو متبادل سیاسی قوت کی ضرورت پڑی تو بھٹو خاندان کے مغربی دوستوں نے بیگم نصرت بھٹو کو ایم آر ڈی بنانے کا مشورہ دیا، بعد میں بحالی جمہوریت کا یہی اتحاد پی پی پی کی سیاسی بقا کے لئے نہایت مفید ثابت ہوا۔ ضیا آمریت کی طرف سے بے پناہ مظالم کے باوجود ایم آر ڈی میں شامل سیاسی جماعتوں کی اخلاقی حمایت نے پیپلز پارٹی کے جمہوری تشخص اور انسانی سرمایہ کو بچانے میں مدد دی۔
1986 میں امریکیوں کی مداخلت پہ جب بے نظیر بھٹو کو لاہور میں اتارا گیا تو عوامی قوت کے فقیدالمثال مظاہروں نے مارشل لا کے تحت قائم سیاسی بندوبست کے تار و پود بکھیر کر 1988 میں فوجی آمر کو جماعتی بنیادوں پہ عام انتخابات کرانے پہ مجبور کر دیا، یہ پیپلز پارٹی تھی جس نے ضیاءالحق کے موت کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی خلا کو پر کر کے مقتدرہ کو سہارا اور مملکت کو انتشار سے بچایا۔ 1997 میں دو تہائی اکثریت کے باوجود صرف ڈھائی سالوں میں اسٹبلشمنٹ نے ملک کی تمام سیاسی قوتوں کو صف آرا کر کے نواز شریف کو تنہا کر کے نکالا تو کوئی ان کی مظلومیت کا دم بھرنے والا نہ تھا لیکن نواز شریف اور بے نظیر نے غلطیوں سے سیکھا اور تجربات کو اپنی سیاسی بصیرت کا حصہ بنایا، دونوں نے جلا وطنی میں میثاق جمہوریت کر کے مشرف کو دفاعی پوزیشن پہ ڈالنے کے علاوہ اپنا سیاسی مستقبل محفوظ بنا لیا، اگر میثاق جمہوریت نہ ہوتا تو پیپلز پارٹی اقتدار حاصل کر سکتی نہ مسلم لیگ کو تیسری بار ایوان اقتدار تک رسائی ملتی، یہ مقبول سیاسی جماعتوں کی اجتماعی مساعی تھی جس نے ایم ایم اے (ملا ملٹری الائنس) کو بیکار بنا دیا تھا۔
ارسطو نے کہا تھا کہ سیاست معاشرے کو متشکل کرنے والے طبقات کے مابین مفاہمت کا آرٹ ہے ”۔ بے نظیر بھٹو کی ناگہانی موت کے بعد ہماری قومی سیاست کے اضافی کردار آصف علی زرداری نے جس وسیع النظری کے مطابق سیاسی قوتوں کی تلویث کے ذریعے خود اپنے لئے جگہ بنانے کے علاوہ پیپلز پارٹی کے مستقبل کو بچایا ان کی یہ نادر مساعی سیاست کے طالب علموں کے لئے مشعل راہ رہے گی۔
یہ بھی پڑھیے:
کشمیریوں کا مستقبل۔۔۔اسلم اعوان
اپوزیشن جماعتوں کی آزمائش۔۔۔اسلم اعوان
پیراڈائم شفٹ میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟۔۔اسلم اعوان
افغانستان کا بحران عالمی ایشو نہیں رہا۔۔۔اسلم اعوان
عورتوں میں ہم جنس پرستی پر یہ مشہور کہانی لکھنے والی عصمت چغتائی۔۔۔اسلم ملک
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ