وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سینیٹ کے سابق چیئرمین رضا ربانی کا شمار ان گنے چنے عزت دار سیاستدانوں میں ہوتا ہے جو پارٹی لائن پر چلتے چلتے اپنے دل کی بات بھی کہہ جاتے ہیں۔
جیسے انھوں نے آئی ایم ایف کے نمائندوں کی سیاسی رہنماؤں سے حالیہ ملاقات اور آئی ایم ایف کے تازہ مالیاتی پیکیج کی حمایت کے تناظر میں فرمایا کہ ’مالی اختیار تو پہلے ہی چلا گیا اب سیاسی خودمختاری بھی خطرے میں ہے۔ آئی ایم ایف والوں کی پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کی قیادت سے ملاقات ایسٹ انڈیا کمپنی کی یاد دلاتی ہے۔ جب مقامی معززین کو کمپنی اپنی پالیسیوں کی حمایت پر مجبور کرتی تھی۔‘
اب جب ربانی صاحب نے غریب کی جورو کا زخم کرید ہی دیا ہے تو پھر تھوڑی سی اور کھرنڈ اتارنے میں بھی کیا مضائقہ ہے۔
رضا ربانی کے والدِ محترم میاں عطا ربانی گورنر جنرل محمد علی جناح کے اے ڈی سی تھے۔ آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ پاکستان بننے کے محض ڈھائی ماہ بعد اکتوبر 1947 میں ایم اے ایچ اصفہانی کی قیادت میں ایک وفد نے واشنگٹن کا دورہ کیا۔ ٹرومین انتظامیہ کو پیش کش کی گئی کہ مارشل پلان کی طرز پر اگر امریکہ اگلے پانچ برس کے لیے پاکستان کو دو ارب تیس کروڑ ڈالر کی اقتصادی و دفاعی امداد دے تو پاکستان سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ میں صفِ اول کا امریکی اتحادی بننے کو تیار ہے۔
امریکہ اس وقت نہرو جی کو رام کرنے کے چکر میں تھا لہٰذا وفاداری بشرطِ استواری کی پیش کش مسترد ہو گئی اور پاکستان کو ساڑھے چار کروڑ ڈالر کا قرض عالمی بینک سے دلوانے کے لیے امریکی تعاون کی پیش کش کی گئی۔
یعنی ہم پیدا ہوتے ہی کسی نہ کسی کا سہارا لینے پر مجبور تھے۔
معروف ہندی فلم لکھاری سلیم خان کی ایک لائن ہے ’اپنے آنسو خود پونچھنا۔ لوگ پونچھنے آئیں گے تو قیمت لگائیں گے‘۔
معیشت و سماجیات و سیاسیات کا اصول یہ ہے کہ جب آپ خود نیلامی میں پیش ہوتے ہیں تو پچاس فیصد قدر بولی شروع ہونے سے پہلے ہی گھٹ چکی ہوتی ہے۔ جب آپ دوسروں کی مجبوری یا ضرورت بن جاتے ہیں تو آپ کی پچاس فیصد قدر بولی لگنے سے پہلے ہی بڑھ جاتی ہے۔
پاکستان کے ساتھ یہی ہوا کہ اس نے اپنی ضروریات کو ابتدا سے ہی سستے میں برائے فروخت پیش کر دیا۔ چنانچہ ایک طاقتور دفاع کی تلاش میں اسے اپنی خود مختاری سیٹو اور سینٹو جیسے بیگانے اتحادوں کے پاس رہن رکھنا پڑی۔
امداد اور خوشنودی کی مجبوری میں امریکہ نے جب چاہا اس ریاست کو اپنے اڈے کے طور پر پچاس کی دہائی، اسی اور نوے کی دہائی اور نائن الیون کے بعد کی دہائی میں استعمال کیا۔ اس کے بدلے گذشتہ سات عشروں میں جو ستر ارب ڈالر امریکہ سے اور جو ایک سو چھبیس ارب ڈالر عالمی مالیاتی اداروں اور دو چار دوست ممالک سے بطور قرض ملے۔ اس بوجھ کے بعد کون سا اختیار اور کیا اقتدارِ اعلی؟
جب نوبت سوا ارب ڈالر کی قسط کے عوض پورا قومی بجٹ اور سٹیٹ بینک کا اختیار آئی ایم ایف کی انگلیوں پر ناچے تو پھر سیاسی خود مختاری کی بحث اٹھانا بنتا نہیں۔ کسی نے کنپٹی پر گن تھوڑا رکھی تھی کہ آپ ستر برس میں آئی ایم ایف کا تئیس بار طواف کریں اور اپنی خود مختاری اور اقتدارِ اعلی کے لیے ٹسوے بھی بہاتے جائیں۔
ویسے خود مختاری اور اقتدارِ اعلی خود پاکستان کے اندر کہاں کہاں پائے جاتے ہیں ؟
کیا سلیکٹڈ الیکٹ ایبلز پر مشتمل پارلیمنٹ میں بااختیاری ڈھونڈی جائے؟
کوئی ایسی سرکردہ جرات مند جماعت جو آج بھی یہ نعرہ لگانے کا خطرہ مول لے سکے کہ ’جمہوریت کا مطلب عوام کی حکومت ، عوام کی مرضی سے عوام کی خاطر‘۔
ریاستی بااختیاری کے تحفظ کی آخری امید عدلیہ ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف تو خیر ایک با رسوخ عالمی ادارہ ہے۔ عدلیہ لاپتہ شہریوں کو غائب کرنے والے کسی مقامی عہدیدار پر ہی اپنا لامحدود اختیار استعمال کر کے نئی مثال قائم کر دے۔
چلیے کسی ایسے سردار کو ہی عمر قید سنا دے جو نجی جیل کے قیام اور جرگہ لگا کہ خواتین کی زندگی و موت کے فیصلے کے عوض آئینِ سے بغاوت کا مرتکب ہو۔
فوجی عدالتوں کے بارے میں آئین کیا کہتا ہے؟ ان عدالتوں میں کن شہریوں پر، کن حالات میں کن شرائط پر مقدمہ چل سکتا ہے؟ آئینِ پاکستان تو کسی بھی اچھے بک اسٹال سے مل جاتا ہے۔ آرمی ایکٹ کی کاپی بھی کسی دوکان پر دستیاب ہے؟
جس پارلیمنٹ نے آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں مقدمے بھجوانے کے اقدام کی توثیق کی ہے کیا اس پارلیمنٹ نے آرمی ایکٹ بچشم پڑھا ہے؟
چلیں یہی کوئی رہنمائی کر دے کہ وزیرِ اعظم زیادہ طاقت ور ہے یا ملک ریاض؟ حکومت زیادہ بااختیار ہے یا لال مسجد والے مولانا عبدالعزیز؟
آئی ایم ایف پر نہ سہی فی الحال ریاستی با اختیاری اور سرکاری رٹ میرے محلے کے دودھ فروش پر ہی لاگو کر دیں جو کل ایک سو اسی روپے لیٹر دودھ دے رہا تھا اور آج دو سو بیس روپے لیٹر دے رہا ہے۔
آئی ایم ایف ایسٹ انڈیا کمپنی نہیں ہے۔ کمپنی بہادر خود تشریف لائی تھی۔ آئی ایم ایف کو کمپنی بہادر کے وفادار دیسیوں کے نسبی، نسلی، عسکری، ذہنی ورثا نے با ہوش و حواس خوشی خوشی مدعو کیا اور درجنوں بار کیا۔
یقیناً یہ صدمے کی بات ہے کہ کوئی بین الاقوامی ادارہ حکومتِ وقت کے وعدوں پر اعتبار کرنے کے بجائے بالا بالا سیاسی جماعتوں سے وعدہ لے کہ اقتدار میں جو بھی آئے، طے شدہ معاہدے سے مکرنا نہیں ہے۔ کیونکہ آپ اس سے پہلے تیئس میں سے بائیس بار مکر چکے ہیں۔
کاش مجھے کوئی وہ خود مختاری اور اقتدارِ اعلی ڈھونڈھ دے جو آئین کے صفحہِ اول سے باہر بھی کہیں پایا جاتا ہو۔ تاکہ آئی ایم ایف جیسے اداروں کے سامنے بروقت ایک رسمی سرخ لکیر کھینچنے میں آسانی ہو۔
کہاں کے نام و نسب علم کیا فضیلت کیا
جہانِ رزق میں توقیرِ اہلِ حاجت کیا
( افتخار عارف )
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ