رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں کیونکہ آپ نالائق لوگ ہیں جو اکانومی چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ نہ ہی یہاں ایسی سیاسی یا بیوروکریٹک قیادت ہے جو ملک کو اس حالت تک نہ پہنچنے دیتی۔ حکمران جانتے ہیں کہ اگر مشکل فیصلے نہ کیے تو معیشت بیٹھ جائے گی لیکن وہ جان بوجھ کر اقدامات نہیں کرتے۔ ڈرتے ہیں کہ میڈیا پیچھے پڑ جائے گا۔ عوام گالیاں دینا شروع کر دیں گے۔ سیاسی مخالفین ٹی وی چینلز پر اور پارلیمنٹ کے اندر عزت کا جنازہ نکال دیں گے۔ ووٹ بینک خراب ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایسے فیصلے نہیں کرتے جو تلخ لیکن ملک چلانے کیلئے ضروری ہوتے ہیں۔ ہمارے اینکر دوست کاشف عباسی ایک وزیر کے حوالے سے واقعہ سناتے ہیں کہ وہ تین دفعہ وزیراعظم نواز شریف سے ملے کہ گیس کی قیمتیں بڑھانا بہت ضروری ہے‘ ورنہ بہت مسئلہ ہوگا۔ تینوں دفعہ انہوں نے کہا کہ صبر کرو‘ دیکھتے ہیں۔
یوں جب مہنگی گیس خرید کر سستی بیچی جائے تو پھر اربوں روپوں کا سرکلر ڈیٹ چڑھتا ہے اور آپ بینکوں سے قرضہ لے کر وہ گیپ پورا کرتے ہیں اور ان قرضوں پر سود در سود دیتے چلے جاتے ہیں لیکن گیس کی دو تین روپے قیمت نہیں بڑھاتے کہ آپ کا ووٹر خراب ہوگا۔ آپ اگلا الیکشن ہار جائیں گے۔ اگر کوئی پارٹی پچھلے چالیس برسوں میں حکومت میں رہ کر بھی اگلا الیکشن نہیں جیت سکی‘ وہ پھر بھی کوشش کرتی ہے کہ بجلی‘ گیس و پٹرول پر سبسڈی دے‘ بے شک ملک قرضوں میں ڈوب جائے۔ یہ سب چیزیں حکومت عالمی ریٹ پر خرید رہی ہوتی ہے خصوصاً گیس اور پٹرول لہٰذا جب آپ اس کی اصل قیمت چارج نہیں کرتے تو پھرآپ اپنے لیے لانگ ٹرم مسائل پیدا کرتے ہیں۔ اس وقت آپ نے صرف بجلی کمپنیوں کا اندازاً تین ہزار ارب سرکلر ڈیٹ ادا کرنا ہے۔ یہ تین ہزار ارب روپے صرف پچھلے دس بارہ سال کے ہیں۔ اگر آپ کو یاد ہو کہ اسحاق ڈار نے 2013ء میں 480ارب روپے کا سرکلر ڈیٹ ایک ہی دن میں ادا کر دیا تھا جس پر خاصا سکینڈل بنا تھا کہ بغیر آڈٹ کمپنیوں کو فوٹو سٹیٹ بلوں پر ہی اربوں کی ادائیگیاں کی گئی تھیں۔ دس سال پہلے آئی پی پیز کا بل زیرو ہو گیا تھا لیکن ان دس سالوں میں تین ہزار ارب کے قریب دوبارہ قرضہ چڑھ گیا ہے کیونکہ بجلی کی قیمتیں نہیں بڑھائی گئیں۔
آپ کہیں گے قیمت کیوں بڑھائیں؟ وجہ سن لیں۔ بینظیر بھٹو کے دوسرے دور میں بجلی گھروں کیساتھ فرنس آئل سے بجلی پیدا کرنے کے معاہدے ہوئے تھے۔ آبادی بڑھنے سے پانی سے پیدا ہونے والی بجلی ناکافی تھی جس سے لوڈشیڈنگ بڑھ گئی تھی۔ ان کمپنیوں کیساتھ معاہدے کیے گئے کہ انہیں بجلی کی قیمت ڈالروں میں ادا کی جائے گئی۔ بجلی کا فی یونٹ ریٹ بھی ڈالروں میں طے ہوا۔ ان بجلی گھروں نے باہر سے فیول منگوا کر بجلی پیدا کرنا شروع کی تو ڈیم کی بجلی‘ جو پچاس پیسے فی یونٹ پڑتی تھی‘ اچانک چار پانچ روپے فی یونٹ تک پہنچ گئی۔ اس ملک کو ڈیموں کی ضرورت تھی تاکہ ایک طرف پانی کو ذخیرہ کیا جا سکتا تو دوسری طرف اس سے ہزاروں میگا واٹ سستی بجلی پیدا کی جاتی۔ لیکن پورا ملک کھڑا ہوگیا کہ نہیں جناب! ڈیم تو ہماری لاشوں پر بنیں گے۔ یوں ڈیم سیاست کی نذر ہوئے تو آپشن یہی بچا کہ فرنس آئل سے بجلی بنائیں جس کے نرخ براہِ راست ڈالرز سے جڑے تھے۔ دنیا بھر میں تیل کی قیمت بڑھتی تو حکومت ڈر کے مارے بجلی کا ریٹ نہ بڑھاتی اور یوں سرکلر ڈیٹ بڑھتا چلا گیا۔
آپ کیا کریں کہ آپ کے سیاستدان‘ ذرائع ابلاغ اور دانشور ڈیمز کے خلاف تحریکیں چلائے ہوئے ہیں اور دوسری طرف انہیں سستی بجلی بھی چاہیے۔ اب بتائیں تیل پر چلنے والے بجلی گھر آپ کو کیسے سستی بجلی پیدا کرکے دیں کہ یہ فیول ڈالرز میں خریدا جاتا ہے۔ خدا نے آپ کو سستی بجلی کا موقع دیا تھا لیکن آپ نے ڈیمز نہیں بنائے یا بننے نہیں دیے۔ آپ چاہتے ہیں کہ ڈیم بھی نہ بنائو اور جو بجلی پیدا کی جائے وہ بھی ہمیں ڈیم کی طرح پچاس پیسے فی یونٹ پر فراہم کرو؟اس کا حل حکومتوں اور حکمرانوں نے یہی نکالا کہ سرکلر ڈیٹ بڑھنے دو۔ دنیا بھر اور بینکوں سے مہنگا کمرشل قرضہ لے کر بجلی گھروں کو ادائیگیاں کرتے رہو لیکن بجلی کی قیمت نہ بڑھائو‘ ورنہ لوگ ناراض ہوں گے۔ کسی کو کبھی سمجھ نہ آئی لیکن ہم پر یہ بوجھ بڑھ رہا تھا۔ بجلی گھروں کو ادائیگی کرنے کیلئے بینکوں سے جو قرضہ لیا گیا تھا‘ ان پر اربوں کا سود الگ سے جمع ہوا جو عوام کی جیب سے ادا ہو گا۔ اس کی ایک مثال دیکھ لیں۔ عوام خوش تھے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے آخری دنوں میں پٹرول کی قیمت دس روپے کم کر دی۔ سب نے واہ‘ واہ کے نعرے مارے۔ اب یہ بات کسی کو نہیں معلوم کہ پٹرول پر دی گئی اس ایک دو ماہ کی سبسڈی پر ڈھائی سو ارب روپے خرچ ہوئے اور ترقیاتی فنڈز کا پیسہ پٹرول سستا کرنے پر اڑا دیا گیا۔ مزے کی بات ہے کہ یہ ترقیاتی فنڈ پٹرول پر ٹیکس لگا کر ہی اکٹھا ہوا تھا۔
پھر ہمیں کہا گیا کہ یہ بجلی گھر چونکہ فرنس آئل سے بجلی بناتے ہیں اور عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں بڑھنے سے بجلی مہنگی ہو جاتی ہے لہٰذا اب ہم سستی گیس سے سستی بجلی پیدا کریں گے۔ یوں ڈالروں میں گیس کے سودے ہونے لگے۔ جب قطر سے نواز شریف دور میں گیس کی ڈیل کی گئی تو اس پر بڑا رولا پڑا کہ یہ بہت مہنگے ریٹ پر خریدی گئی۔ شریف خاندان قطریوں کے بزنس پارٹنر تھے۔ اب وہاں سیف الرحمن‘ جو شریف برادران کے رشتہ دار ہیں‘ وہ کاروباری سودے دیکھتے ہیں۔ اب فوکس بجلی گھروں سے ایل این جی سے پیدا کی گئی بجلی پر ہوا۔ عمران خان دور میں گیس سے پیدا ہونے والی بجلی کا ریٹ 15روپے فی یونٹ تک پہنچ چکا تھا جو اب مزید بڑھ گیا ہے جبکہ فرنس آئل سے پیدا کی گئی بجلی کا یونٹ چالیس پچاس روپے تک چلا گیا ہے۔ لیکن داد دیں ان حکمرانوں کو‘ جو ڈالروں میں قرضے لے کر بجلی گیس سستی کرتے رہے تاکہ لوگ ناراض نہ ہوں۔ گیس کی قیمتیں بھی نہ بڑھائی گئیں کہ لوگ ناراض ہوں گے۔ اب پہلی دفعہ پتا چلا کہ تین سو ارب روپے سے زائد تو گیس بلوں کا قرضہ چڑھ گیا تھا جو اب بینکوں سے قرضہ لے کر ادا کیا جائے گا جس کا سود الگ سے ہوگا۔ لیکن گیس کی قیمت بڑھائی یا ڈیم بنا دیا تو پوری قوم ناراض ہو جائے گی۔
اس دوران قطر سے لائی گئی گیس کے لیے کراچی کی ایک پارٹی کیساتھ معاہدہ کیا گیا کہ وہ ٹرمینل لگائے۔ 2013ء میں اس ٹرمینل کی لاگت تین ارب روپے لگائی گئی‘ پھر لمبا ہاتھ مارنے کا فیصلہ ہوا۔ یہ تخمینہ اچانک تین سے 13ارب ہو گیا۔ پھر130ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری دکھا کر پندرہ سالوں کے لیے ٹرمینل کا روزانہ پونے تین لاکھ ڈالرز کرایہ ادا کرنے پر ڈیل کی گئی۔ یوں پندرہ سالوں میں اس کمپنی کو ڈیڑھ ارب ڈالرز کی ادائیگی ہو گی۔ 130ملین ڈالرز کے نام پر ڈیڑھ ارب ڈالرز کا منافع۔ کبھی آپ نے سنا تھا؟پھر ایک اور ٹرمینل کھولا گیا۔ جس سے سوا دو لاکھ ڈالرز روزانہ کی ڈیل کی گئی۔ یہ دونوں پاکستانی کمپنیاں تھیں لیکن انہیں ادائیگی روپوں کے بجائے ڈالروں میں کرنے کا معاہدہ ہوا۔ یوں 2014ء سے ان دونوں کمپنیوں کو روزانہ پانچ لاکھ ڈالرز ادا کیے جا رہے ہیں۔ آپ ڈالرز قرض لیں‘ بھیک مانگیں لیکن ان دونوں کمپنیوں کو پانچ لاکھ ڈالرز روزانہ دیں۔ خود حساب کر لیں کہ 2014ء سے اب تک روزانہ پانچ لاکھ ڈالرز کے حساب سے قرض مانگ کر کتنے ڈالرز صرف ان دو کمپنیوں کو ادا کر چکے ہیں؟
آپ ڈیم بننے دیتے تو فیول اور گیس سے چلنے والے بجلی گھروں کی ضرورت نہ پڑتی۔ پچاس پیسے کا یونٹ آج پچاس روپے تک پہنچ گیا ہے۔ یہ تباہی نہ ہوتی۔ اب بتائیں‘ اب بھی آپ کا دشمن آئی ایم ایف ہے؟ (جاری)
یوں جب مہنگی گیس خرید کر سستی بیچی جائے تو پھر اربوں روپوں کا سرکلر ڈیٹ چڑھتا ہے اور آپ بینکوں سے قرضہ لے کر وہ گیپ پورا کرتے ہیں اور ان قرضوں پر سود در سود دیتے چلے جاتے ہیں لیکن گیس کی دو تین روپے قیمت نہیں بڑھاتے کہ آپ کا ووٹر خراب ہوگا۔ آپ اگلا الیکشن ہار جائیں گے۔ اگر کوئی پارٹی پچھلے چالیس برسوں میں حکومت میں رہ کر بھی اگلا الیکشن نہیں جیت سکی‘ وہ پھر بھی کوشش کرتی ہے کہ بجلی‘ گیس و پٹرول پر سبسڈی دے‘ بے شک ملک قرضوں میں ڈوب جائے۔ یہ سب چیزیں حکومت عالمی ریٹ پر خرید رہی ہوتی ہے خصوصاً گیس اور پٹرول لہٰذا جب آپ اس کی اصل قیمت چارج نہیں کرتے تو پھرآپ اپنے لیے لانگ ٹرم مسائل پیدا کرتے ہیں۔ اس وقت آپ نے صرف بجلی کمپنیوں کا اندازاً تین ہزار ارب سرکلر ڈیٹ ادا کرنا ہے۔ یہ تین ہزار ارب روپے صرف پچھلے دس بارہ سال کے ہیں۔ اگر آپ کو یاد ہو کہ اسحاق ڈار نے 2013ء میں 480ارب روپے کا سرکلر ڈیٹ ایک ہی دن میں ادا کر دیا تھا جس پر خاصا سکینڈل بنا تھا کہ بغیر آڈٹ کمپنیوں کو فوٹو سٹیٹ بلوں پر ہی اربوں کی ادائیگیاں کی گئی تھیں۔ دس سال پہلے آئی پی پیز کا بل زیرو ہو گیا تھا لیکن ان دس سالوں میں تین ہزار ارب کے قریب دوبارہ قرضہ چڑھ گیا ہے کیونکہ بجلی کی قیمتیں نہیں بڑھائی گئیں۔
آپ کہیں گے قیمت کیوں بڑھائیں؟ وجہ سن لیں۔ بینظیر بھٹو کے دوسرے دور میں بجلی گھروں کیساتھ فرنس آئل سے بجلی پیدا کرنے کے معاہدے ہوئے تھے۔ آبادی بڑھنے سے پانی سے پیدا ہونے والی بجلی ناکافی تھی جس سے لوڈشیڈنگ بڑھ گئی تھی۔ ان کمپنیوں کیساتھ معاہدے کیے گئے کہ انہیں بجلی کی قیمت ڈالروں میں ادا کی جائے گئی۔ بجلی کا فی یونٹ ریٹ بھی ڈالروں میں طے ہوا۔ ان بجلی گھروں نے باہر سے فیول منگوا کر بجلی پیدا کرنا شروع کی تو ڈیم کی بجلی‘ جو پچاس پیسے فی یونٹ پڑتی تھی‘ اچانک چار پانچ روپے فی یونٹ تک پہنچ گئی۔ اس ملک کو ڈیموں کی ضرورت تھی تاکہ ایک طرف پانی کو ذخیرہ کیا جا سکتا تو دوسری طرف اس سے ہزاروں میگا واٹ سستی بجلی پیدا کی جاتی۔ لیکن پورا ملک کھڑا ہوگیا کہ نہیں جناب! ڈیم تو ہماری لاشوں پر بنیں گے۔ یوں ڈیم سیاست کی نذر ہوئے تو آپشن یہی بچا کہ فرنس آئل سے بجلی بنائیں جس کے نرخ براہِ راست ڈالرز سے جڑے تھے۔ دنیا بھر میں تیل کی قیمت بڑھتی تو حکومت ڈر کے مارے بجلی کا ریٹ نہ بڑھاتی اور یوں سرکلر ڈیٹ بڑھتا چلا گیا۔
آپ کیا کریں کہ آپ کے سیاستدان‘ ذرائع ابلاغ اور دانشور ڈیمز کے خلاف تحریکیں چلائے ہوئے ہیں اور دوسری طرف انہیں سستی بجلی بھی چاہیے۔ اب بتائیں تیل پر چلنے والے بجلی گھر آپ کو کیسے سستی بجلی پیدا کرکے دیں کہ یہ فیول ڈالرز میں خریدا جاتا ہے۔ خدا نے آپ کو سستی بجلی کا موقع دیا تھا لیکن آپ نے ڈیمز نہیں بنائے یا بننے نہیں دیے۔ آپ چاہتے ہیں کہ ڈیم بھی نہ بنائو اور جو بجلی پیدا کی جائے وہ بھی ہمیں ڈیم کی طرح پچاس پیسے فی یونٹ پر فراہم کرو؟اس کا حل حکومتوں اور حکمرانوں نے یہی نکالا کہ سرکلر ڈیٹ بڑھنے دو۔ دنیا بھر اور بینکوں سے مہنگا کمرشل قرضہ لے کر بجلی گھروں کو ادائیگیاں کرتے رہو لیکن بجلی کی قیمت نہ بڑھائو‘ ورنہ لوگ ناراض ہوں گے۔ کسی کو کبھی سمجھ نہ آئی لیکن ہم پر یہ بوجھ بڑھ رہا تھا۔ بجلی گھروں کو ادائیگی کرنے کیلئے بینکوں سے جو قرضہ لیا گیا تھا‘ ان پر اربوں کا سود الگ سے جمع ہوا جو عوام کی جیب سے ادا ہو گا۔ اس کی ایک مثال دیکھ لیں۔ عوام خوش تھے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے آخری دنوں میں پٹرول کی قیمت دس روپے کم کر دی۔ سب نے واہ‘ واہ کے نعرے مارے۔ اب یہ بات کسی کو نہیں معلوم کہ پٹرول پر دی گئی اس ایک دو ماہ کی سبسڈی پر ڈھائی سو ارب روپے خرچ ہوئے اور ترقیاتی فنڈز کا پیسہ پٹرول سستا کرنے پر اڑا دیا گیا۔ مزے کی بات ہے کہ یہ ترقیاتی فنڈ پٹرول پر ٹیکس لگا کر ہی اکٹھا ہوا تھا۔
پھر ہمیں کہا گیا کہ یہ بجلی گھر چونکہ فرنس آئل سے بجلی بناتے ہیں اور عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں بڑھنے سے بجلی مہنگی ہو جاتی ہے لہٰذا اب ہم سستی گیس سے سستی بجلی پیدا کریں گے۔ یوں ڈالروں میں گیس کے سودے ہونے لگے۔ جب قطر سے نواز شریف دور میں گیس کی ڈیل کی گئی تو اس پر بڑا رولا پڑا کہ یہ بہت مہنگے ریٹ پر خریدی گئی۔ شریف خاندان قطریوں کے بزنس پارٹنر تھے۔ اب وہاں سیف الرحمن‘ جو شریف برادران کے رشتہ دار ہیں‘ وہ کاروباری سودے دیکھتے ہیں۔ اب فوکس بجلی گھروں سے ایل این جی سے پیدا کی گئی بجلی پر ہوا۔ عمران خان دور میں گیس سے پیدا ہونے والی بجلی کا ریٹ 15روپے فی یونٹ تک پہنچ چکا تھا جو اب مزید بڑھ گیا ہے جبکہ فرنس آئل سے پیدا کی گئی بجلی کا یونٹ چالیس پچاس روپے تک چلا گیا ہے۔ لیکن داد دیں ان حکمرانوں کو‘ جو ڈالروں میں قرضے لے کر بجلی گیس سستی کرتے رہے تاکہ لوگ ناراض نہ ہوں۔ گیس کی قیمتیں بھی نہ بڑھائی گئیں کہ لوگ ناراض ہوں گے۔ اب پہلی دفعہ پتا چلا کہ تین سو ارب روپے سے زائد تو گیس بلوں کا قرضہ چڑھ گیا تھا جو اب بینکوں سے قرضہ لے کر ادا کیا جائے گا جس کا سود الگ سے ہوگا۔ لیکن گیس کی قیمت بڑھائی یا ڈیم بنا دیا تو پوری قوم ناراض ہو جائے گی۔
اس دوران قطر سے لائی گئی گیس کے لیے کراچی کی ایک پارٹی کیساتھ معاہدہ کیا گیا کہ وہ ٹرمینل لگائے۔ 2013ء میں اس ٹرمینل کی لاگت تین ارب روپے لگائی گئی‘ پھر لمبا ہاتھ مارنے کا فیصلہ ہوا۔ یہ تخمینہ اچانک تین سے 13ارب ہو گیا۔ پھر130ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری دکھا کر پندرہ سالوں کے لیے ٹرمینل کا روزانہ پونے تین لاکھ ڈالرز کرایہ ادا کرنے پر ڈیل کی گئی۔ یوں پندرہ سالوں میں اس کمپنی کو ڈیڑھ ارب ڈالرز کی ادائیگی ہو گی۔ 130ملین ڈالرز کے نام پر ڈیڑھ ارب ڈالرز کا منافع۔ کبھی آپ نے سنا تھا؟پھر ایک اور ٹرمینل کھولا گیا۔ جس سے سوا دو لاکھ ڈالرز روزانہ کی ڈیل کی گئی۔ یہ دونوں پاکستانی کمپنیاں تھیں لیکن انہیں ادائیگی روپوں کے بجائے ڈالروں میں کرنے کا معاہدہ ہوا۔ یوں 2014ء سے ان دونوں کمپنیوں کو روزانہ پانچ لاکھ ڈالرز ادا کیے جا رہے ہیں۔ آپ ڈالرز قرض لیں‘ بھیک مانگیں لیکن ان دونوں کمپنیوں کو پانچ لاکھ ڈالرز روزانہ دیں۔ خود حساب کر لیں کہ 2014ء سے اب تک روزانہ پانچ لاکھ ڈالرز کے حساب سے قرض مانگ کر کتنے ڈالرز صرف ان دو کمپنیوں کو ادا کر چکے ہیں؟
آپ ڈیم بننے دیتے تو فیول اور گیس سے چلنے والے بجلی گھروں کی ضرورت نہ پڑتی۔ پچاس پیسے کا یونٹ آج پچاس روپے تک پہنچ گیا ہے۔ یہ تباہی نہ ہوتی۔ اب بتائیں‘ اب بھی آپ کا دشمن آئی ایم ایف ہے؟ (جاری)
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر