نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

غریب فنکاروں کی عید !!۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی بات کرنے سے پہلے شکر گزار ہوں اسلامیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب کا کہ میری درخواست پر انہوں نے سرائیکی زبان کے عظیم شاعر شاکر شجاع آبادی کو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی طرف سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطاء کی ہے اور اب وہ شاکر شجاع آبادی سے ڈاکٹر شاکر شجاع آبادی بن گئے ہیں۔ وسیب کے فنکار فون کر کے پوچھتے ہیں کہ آرٹسٹ سپورٹ فنڈز سے فنکاروں کو امداد ملے گی کہ نہیں؟ آرٹس کونسل کے دوستوں سے فون کر کے پوچھا تو انہوں نے نفی میں جواب دیا حالانکہ امداد کی سب سے زیادہ ضرورت عید کے موقع پر ہوتی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت عید سے پہلے مستحقین کو امداد دینے کا عمل جاری رہا ، بہت سی خواتین کو دعائیں دیتے ہوئے سنا ہے جو اچھا عمل بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ہوا ہے یہی اچھا عمل آرٹسٹ سپورٹ فنڈز کے حوالے سے نہ ہونا زیادتی ہے ۔ سابقہ اور موجودہ حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے لاکھوں فنکار بیروزگار ہو چکے ہیں ۔ساؤنڈ ایکٹ کی وجہ سے پہلے ہی فنکار بہت پریشان تھے ،ہوشربا مہنگائی نے رہی سہی کسر پوری کر دی ۔ فنکار ایک طرح سے دیہاڑی دار ہوتے ہیں اور کرائے کے مکانوں میں رہتے ہیں ، چار ماہ سے چولہے ٹھنڈے ہیں ، نوبت فاقوں تک پہنچ چکی ہے ، ان کا کہنا ہے کہ اپنے فن کے علاوہ ہم کوئی کام نہیں کر سکتے ،مزدور ی یا ملازمت کرنے کو بھی تیار ہیں مگر کام بند ہونے کی وجہ سے مزدوری بھی نہیں مل رہی ۔ ذاتی تعلق کی بنا پر صاحب ثروت افراد سے ادھار لیتے رہے ، نوبت بھیک تک بھی آئی مگر کون کسی کو آئے روز دیتا ہے۔ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے بہت سے فنکاروں کو پرنم آنکھوں کے ساتھ ہاتھ جوڑتے میں نے دیکھا ہے ۔ حکومت نے اعلان کیا ہے تو اسے اپنے اعلان کا بھرم رکھنا چاہئے اور غریب فنکاروں کی مدد کیلئے لیت و لعل سے کام نہیں لینا چاہئے ۔ فنکاروں نے یہ بھی کہا کہ دیگر کام کھل گئے مگر فنون لطیفہ ، فلم ، تھیٹر ،موسیقی اور شادی بیاہ کے پروگراموں پر ابھی تک پابندی ہے ۔ مہنگائی کی وجہ سے لوگ مایوسیوں کا شکار ہیں ،ضرورت اس بات کی تھی کہ تفریح طبع کے بصری اور سماعتی ادارے کھلنے چاہئیں تھے تاکہ لوگ مایوسیوں سے نکل سکیں ۔ حکومت فنکاروں سے فنکاری نہ کرے اور ان کو کام کی اجازت دے تاکہ وہ اپنے بچوں کا پیٹ پال سکیں ، شوبز کی دنیا سے تعلق رکھنے والے ایک فنکار کا کہنا ہے کہ شوبز پر عریانی اور فحاشی کا الزام پہلے سے بھی ہے ، اب جس طرح حکومت نے سب کچھ بند کر دیا ہے تو کیا حکومت یہ چاہتی ہے کہ ہم عریانی اور فحاشی کے نام پر بچوں کا پیٹ پالیں ۔ فنکاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ دیگر ممالک میں فلم کو انڈسٹری کا درجہ حاصل ہے مگر پاکستان میں ابھی تک ثقافتی پالیسی بھی نہیں بن سکی ۔ سونیا گاندھی نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ہم نے ثقافتی میدان میں پاکستان پر فتح حاصل کر لی ہے کہ پورے پاکستان میں ہندی فلم اور ہندی ثقافت راج کر رہی ہے ۔ سونیا گاندھی کا بیان معمولی نہیں ، کیا ہمارے حکمرانوں نے کبھی اس پر غور کیا ۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ اب تک ثقافتی پالیسی کیوں نہیں بن سکی؟ اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ حکمرانوں کو جب ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں سے فرصت نہیں تو وہ مستقل پالیسیاں کیسے بنائیں ، ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ برگر نسل کے سیاستدان کلچر سے آگاہ نہیں ،کچھ لوگ صرف جھومر اور ناچ گانے کو کلچر کا نام دیتے ہیں جبکہ کلچر کی وسعت اتنی زیادہ ہے کہ یہ ہر شعبہ ہائے زندگی کا احاطہ کرتا ہے، کلچر کل ہے، باقی سب اس کے اجزا ہیں ۔ فنون لطیفہ ، دستکاریاں، ڈرامہ، فلمز، کہاوتیں، سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی روایات، مذہبی ، سماجی رسومات ، لوک کہانیاں ، لوک قصے ،شعری و نثری و رومانوی قصے ،بہادری کی داستانیں ، موسموں کے گیت ، فصلوں کے گیت ، ثقافتی میلے ، تہوار ، بزرگوں کے عرس ، بچوں کے گیت ،کھیل ، بچوں بچیوں کے کھیل ، نوجوانوں بزرگوں کے مشاغل ، پیدائش و موت کی رسمیں ،عقائد و عبادات، لوک تماشے ، لوک تھیٹر، زبان ، بولیاں ، کہاوتیں ، ضرب الامثال ، لباس، کھانے ، عقائد ، رہن سہن یہ سب کچھ ثقافت کا حصہ ہیں ۔ بلاشبہ مسائل ٹھیکہ داری اور اجارہ داری سے جنم لیتے ہیں جس طرح مذہبی ٹھیکیداری غلط ہے ، اسی طرح ثقافتی اجارہ داری بھی درست نہیں ، کلچر فطرت اور خوبصورتی کا نام ہے ، کوئی بھی غلط عمل کلچر کی بدنامی کا باعث تو ہو سکتا ہے، اسے ثقافتی عمل قرار نہیں دیا جا سکتا، جسم فروشی اور انسانوں کی خرید و فروخت ، ونی ، وٹہ سٹہ ،کالا کالی یا عرب روایات کے مطابق بچیوں کو زندہ درگور کرنے کے عمل کو کلچر کے فطری عمل کے خلاف بغاوت قرار دیا جا سکتا ہے، کلچر نہیں کہا جا سکتا۔ کسی بھی مثبت عمل کی آڑ میں کوئی دھندہ کرتا ہے ، اسے ہوس زر کیلئے استعمال کرتا ہے تو یہ اس کا ذاتی قصور ہے ،مذہب یا ثقافت کا اس میں کوئی قصور نہیں ۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ زمینی سرحدیں اپنی جگہ لیکن ثقافت کی اپنی حدود ہوتی ہیں ، ہر طرح کی انتہا پسندی اور دہشت گردی کا مقابلہ صرف ثقافت کے ذریعے کیا جا سکتا ہے مگر وسیب سے فن اور فنکار ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے کسی طرح کی کوئی سرپرستی نہیں ہے ۔ البتہ وسیب کے فنکاروں اور گلوکاروں نے اپنی مدد آپ کے تحت فن کو زندہ رکھا ہوا ہے ۔ گوالیار خاندان حیدر آباد ، استاد مبارک خاندان بہاولپور اور استاد بلے خان طلبہ نواز ملتان کا خاندان اب فن سے پیچھے ہٹ چکا ہے ، اس کی واحد وجہ حکومت کی بے توجہی اور سخت مالی مشکلات ہیں ، حکومت کو بلا تاخیر ایسی ثقافتی پالیسی ترتیب دینا ہوگی جس سے فن اور فنکار مرنے سے بچ سکیں ۔موجودہ حکومت کو اس اہم مسئلے کی طرف توجہ دینے کی زیادہ ضرورت ہے کہ میاں شہباز شریف کے گزشتہ دور حکومت میں سائونڈ ایکٹ نافذ ہوا ، فنکار مشکلات کا شکار ہوئے ، فنکاروں اور حکومت کے درمیان فاصلے اور دوریاں پیدا ہوئیں ، اب ان فاصلوں کو کم کرنا اور فنکاروں کی حوصلہ افزائی کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے اور یہ حکومت کے لئے مفید اور مستحسن اقدام بھی ہوگا۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author