وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی بھی انسان پر کسی بھی جواز کے تحت جسمانی و ذہنی ٹارچر انسانی وقار کے منافی ایک تسلیم شدہ بین الاقوامی جرم ہے۔اسی لیے اقوامِ متحدہ نے ہر سال چھبیس جون ٹارچر کے شکار شہریوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے مختص کیا ہے۔
قطع نظر اس کے کہ کسی بھی ریاست نے ٹارچر کو ممنوع قرار دینے والے کنونشنز ، قوانین یا معاہدوں پر دستخط کیے یا نہیں کیے ٹارچر کہیں بھی ہو وہ انسانیت کے خلاف قابلِ سزا جرم ہی تصور کیا جائے گا۔
اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق سے متعلق جنیوا کونسل کے تحت ٹارچر کے متاثرین اور ان کے خاندانوں کی امداد کے لیے انیس سو اکیاسی سے قائم خصوصی فنڈ میں ہر کوئی چندہ دے سکتا ہے۔یہ فنڈ نہ صرف متاثرین اور ان کے اہلِ خانہ کی مالی ، اخلاقی و قانونی و طبی معاونت و مدد کرتا ہے بلکہ اس فنڈ کے تحت سو سے زائد ممالک میں متاثرین کی جسمانی و نفسیاتی بحالی کے مراکز بھی قائم کیے گئے ہیں۔متاثرین کی تعریف میں انسانی حقوق کے کارکن ، سیاسی قیدی اور ان کے بال بچے ، جبری اغوا شدہ لوگ ، پناہ گزین ، تشدد کا شکار فرزندانِ زمین اور جنسی و صنفی تشدد کے شکار شامل ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے انیس سو اڑتالیس کے انسانی حقوق چارٹر اور انیس سو پچھتر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے جس اعلامیے کی منظوری دی۔اس کے تحت ہر طرح کے ریاستی و غیر ریاستی ذہنی و جسمانی ٹارچر اور انسانی وقار سے ماورا ناروا سلوک سے محفوظ رہنا ہر انسان کا ناقابل ِ تنسیخ حق ہے۔ انیس سو ستاسی میں ٹارچر اور انسانی وقار کے منافی سلوک کے انسداد سے متعلق جس بین الاقوامی کنونشن کا نفاذ ہوا اس پر ایک سو تہتر ممالک دستخط کر چکے ہیں۔
دو ہزار دو میں ٹارچر کے خلاف اقوامِ متحدہ کے کنونشن میں ایک اور ضمیمے کا اضافہ کیا گیا جس کے تحت کنونشن پر دستخط کرنے والے ممالک پر لازم ہے کہ وہ ٹارچر کی چھان پھٹک کے لیے بین الاقوامی معائنہ کاری کی اجازت دیں اور اپنے ہاں ایسا غیر جانبدار نگراں ڈھانچہ قائم کریں جس کی رسائی نہ صرف ٹارچر متاثرین تک ہو بلکہ اس رجحان کی روک تھام کے لیے موثر قانون سازی اور موثر نگرانی کے لیے مشورے دے سکے۔اس ضمیمے پر اکیانوے ممالک دستخط کر چکے ہیں۔
انسانی حقوق کی سرکردہ تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی کنونشن پر دستخط کے باوجود لگ بھگ ایک سو پینتالیس ممالک میں ٹارچر کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔اور اس کے ذمے دار باز پرس کی فکر سے بھی آزاد ہیں۔
یہ ریاستیں ٹارچر کو قومی سلامتی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ایک ناپسندیدہ مگر لازمی جزو قرار دیتی ہیں۔ تاہم مشاہدے اور تحقیق سے متعدد بار ثابت ہو چکا ہے کہ ٹارچر کا تعلق قومی سلامتی یا دہشت گردی کی روک تھام سے کم اور طاقتور کی جانب سے کمزور پر اپنی دھاک بٹھانے کی جبلی خواہش سے زیادہ رہا ہے۔
اس کا نشانہ عموماً سماج کے کمزور طبقات ہی کسی نہ کسی بہانے بنتے رہتے ہیں۔ان طبقات میں نسلی و مذہبی اقلیتیں، سڑک چھاپ مجرم، حکومت مخالف کارکن، مختلف جنسی رجحانات کے حامل گروہ، غلط شناخت کے مارے بے گناہ لوگ یا کسی ملزم کے اہلِ خانہ و قریبی رشتے دار جو اصل ملزم کے ہاتھ نہ آنے تک جسمانی و ذہنی ٹارچر کا سامنا کرتے ہیں۔
ٹارچر محض برقی جھٹکے ، برف پر لٹانا ، نازک اعضا پر ضربات لگانا اور مسخ کرنا، الٹا یا سیدھا معلق کر دینا، ناخن اور بال کھینچنا ، جسم کے مختلف حصوں کو داغنا ، کانوں میں ہیڈ فون لگا کے خوفناک شور دماغ میں انڈیلنا ، غلاظت کی بالٹی یا ٹب میں سر کو ڈبکیاں دینا ، ریپ کرنا یا قیدیوں کو ایک دوسرے کے ریپ پر مجبور کرنا یا درجنوں دیگر طریقوں سے جسمانی تشدد کا نام نہیں بلکہ قیدِ تنہائی ، طبی امداد سے محرومی یا متعفن ماحول میں رکھنا، نیند سے محروم کرنا، مسلسل ناقص مضرِ صحت خوراک دینا یا انتہائی کم خوراک پر زندہ رکھنا۔حتیٰ کہ قیدی خود کو ذہنی طور پر کیڑا مکوڑا سمجھنے لگے یا ماؤف ہو جائے اور من مانی تحریر پر دستخط کر دے یا خود کو عذاب سے بچانے کے لیے جھوٹا اعتراف کر لے۔
بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں ایسے اعترافات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں مگر بیشتر ریاستیں ان جبری اعترافات کو بھی مقامی عدالتی نظام کی عریانی چھپانے کے لیے بطور برگِ انجیر استعمال کرنے میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرتیں۔
اس وقت ڈیڑھ سو سے زائد کمپنیاں برقی جھٹکے دینے والے آلات ، وقتی طور پر مفلوج کرنے والے گیسیں ، کیمیکلز ، روایتی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں تیار کر رہی ہیں۔بظاہر یہ آلات ایسے ممالک کو فروخت نہیں کیے جا سکتے جن کا انسانی حقوق کا ریکارڈ مسلسل ابتر ہے۔مگر قوانین میں جان بوجھ کر ایسے چور دروازے رکھے جاتے ہیں کہ کسی بھی کمپنی پر قانونی گرفت بہت مشکل ہے۔ان آلات و کیمیکلز کی تیاری کرنے والے چوٹی کے دس ممالک میں امریکا سرِ فہرست ہے۔
بیالیس امریکی کمپنیاں ٹارچر کے جدید آلات ، گیسیں، کیمیکلز اور مجمع پر کنٹرول کرنے والے آلات تیار کرتی ہیں۔امریکا کے بعد علیٰ الترتیب تائیوان کی سترہ ، جرمنی کی گیارہ ، چین کی نو ، جنوبی کوریا کی آٹھ ، جنوبی افریقہ کی سات ، فرانس اور اسرائیل کی چھ چھ ، پولینڈ کی پانچ اور روس و برازیل کی تین تین کمپنیاں ازیتی آلات کی تیاری میں گلوبل لیڈر ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ایک قرار داد میں رکن ممالک کو ان الفاظ میں پابند کیا گیا ہے، ’’ تمام ریاستیں ان آلات اور مواد کی تیاری اور تجارت روکنے کے لیے ایسے ضروری انتظامی اور قانونی اقدامات کریں جن کا اذیت رسانی ، تشدد اور غیر انسانی سلوک کے علاوہ کوئی دوسرا مصرف ثابت نہیں کیا جاسکتا ‘‘۔
مگر یہ کام رکے بھی تو کیسے رکے جب خود اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل چوہدری ایسے آلات اور مواد کی تیاری و تجارت میں پوری طرح ملوث ہیں۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ