وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی بھی معمولی واقعہ کس تحریک کی کب بنیاد بن جائے کوئی نہیں جانتا۔ جیسے تئیس جون انیس سو چون کو بھارتی پنجاب میں کسی شریمتی پشپا وتی لومبا کے شوہر سورگباش ہو گئے اور پشپا جی نے بیوگی کی نشانی سفید ساڑھی پہن لی۔ ان کا ایک بیٹا تھا راجندر پال لومبا۔ اس نے کپڑے کا کاروبار شروع کیا۔پھر وہ سمندر پار چلا گیا۔بہت ترقی کی اور ایک دن برطانوی دارالامرا کا رکن بن گیا اور لارڈ لومبا کہلانے لگا۔ لارڈ لومبا نے ایک فلاحی ادارہ لومبا فاﺅنڈیشن کے نام سے قائم کیا۔چونکہ وہ اپنی یتیمی اور ماں کی بیوگی کے بعد خاندان ، سماج اور سرکار کی بے اعتنائی دیکھ چکا تھا لہٰذا لومبا فاﺅنڈیشن کو بیوہ خواتین اور ان کے بچوں کی فلاح کے لیے وقف کر دیا گیا۔یوں دو ہزار پانچ سے پشپا وتی لومبا کا جنم دن تئیس جون بطور یومِ بیوگان منایا جانے لگا اور پھر لومبا فاﺅنڈیشن کی مسلسل مہم کے سبب اقوامِ متحدہ نے بھی اس دن کو دو ہزار گیارہ سے عالمگیر سطح پر بیواﺅں کے نام کر دیا۔اگرچہ بیواﺅں کی تعداد کے بارے میں درست آنکڑے کسی کے پاس نہیں۔البتہ ” پوشیدہ اور نظرانداز مصیبت زدگان : بیواﺅں کی عالمی داستانِ الم “ کے عنوان سے دو ہزار دس میں لومبا فاﺅنڈیشن نے ایک تحقیق کتابی شکل میں شایع کی۔ اس کے مطابق تب تک دنیا میں اندازاً دو سو پینتالیس ملین بیوائیں تھیں اور ان میں سے ایک سو پندرہ ملین غربت و سماجی حقارت کے ماحول میں رہ رہی تھیں۔
بیواﺅں کا عالمی دن اقوامِ متحدہ نے کیوں اپنایا ؟ اس بارے میں تنظیمی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ بیوائیں وہ کروڑوں جیتی جاگتی روحیں ہیں جو بیشتر شمار کنندگان ، محقققین ، مقامی و مرکزی حکومتوں اور شہری حقوق کی علمبردار تنظیموں کے دائرے سے باہر پوشیدگی کی موٹی چادر میں لپٹی ہیں۔کتنے لوگ جانتے ہیں کہ کتنی بیوائیں اور ان کے بچے انتہائی غربت ، جنسی تشدد ، بے گھری یا سماجی و قانونی امتیازی سلوک کا نشانہ ہیں۔کئی معاشروں میں شوہر کے مرتے ہی سسرال اور میکے والے ان سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ان کے سامنے ایک ہی راستہ ہوتا ہے کہ اپنے شوہر کے کسی قریبی عزیز سے بلا تمیز و مزاج و عمر شادی کر لیں یا پھر سماجی اچھوت بن جائیں۔کئی سماجوں میں تو بیوہ شادی بھی نہیں کر سکتی۔اسے منحوس سمجھ کے قطع تعلق کر لیا جاتا ہے یا پھر کسی قحبہ خانے ، فلاحی مرکز یا آشرم کی راہ دکھا دی جاتی ہے اور اس کے بچے بھی ناکردہ گناہوں کے بھگتان کا حصہ بن جاتے ہیں۔اکثر کی تعلیم ادھوری رہ جاتی ہے اور وہ مزدوری کا ایندھن بن جاتے ہیں۔بیوہ کی کم عمر بچیاں جنسی عدم تحفظ سمیت ہر طرح کی زیادتی کے خدشات سے مسلسل دوچار رہتی ہیں۔
ہیلپ ایج نامی ایک این جی او کی تحقیق کے مطابق تنزانیہ میں سیکڑوں عمر رسیدہ بیوہ خواتین چڑیل قرار دے کے مار دی جاتی ہیں۔بیواﺅں پر زیادتی کو قانون کی نگاہ میں بھی جرم کم ہی سمجھا جاتا ہے اور اگر کوئی مجرم پکڑا بھی جاتا ہے تو وہ سماجی پشت پناہی کے سہارے چھوٹ جاتا ہے۔جن ممالک میں اس بارے میں موثر قانون سازی کی گئی ہے وہاں بھی سماجی عدم تعاون کے سبب یہ قوانین محض کاغذ پر پڑے رہ جاتے ہیں۔اکثر سماجوں میں بیواﺅں کو ترکے میں حصہ نہیں ملتا۔اگر قانون انھیں اس بارے میں کوئی تحفظ بھی دیتا ہے تو ورثا ڈرا دھمکا کے خاموش کر دیتے ہیں۔خود ان بیواﺅں میں اتنی معاشی سکت نہیں ہوتی کہ اپنے ترکہ جاتی حقوق کے حصول کے لیے قانونی چارہ جوئی کا راستہ اختیار کر سکیں۔اکثر بیوائیں ناخواندہ یا غیر ہنرمند ہوتی ہیں۔ان کا اپنا معاشی دار و مدار کسی نہ کسی جانب سے ملنے والی مشروط مالی امداد پر ہوتا ہے۔لہٰذا وہ خاموشی سے اپنے قانونی حقوق غصب ہوتے دیکھتی رہتی ہیں۔
مسلمان سماجوں میں شریعت کے بموجب خواتین کو بظاہر بلا امتیاز ترکہ جاتی و املاکی حقوق حاصل ہیں مگر انھیں اکثر برادری یا قبیلے کے رسوم و رواج کے دباﺅ میں لا کے یا واسطہ و دھمکی دے کر ان حقوق سے باآسانی دستبردار کر لیا جاتا ہے اور پھر بھی وہ کھڑی رہیں تو بد چلنی سمیت کوئی بھی الزام لگا کے کونے میں بٹھانے کی کوشش ہوتی ہے۔
بیواﺅں سے زیادتی کسی ایک طبقے تک محدود نہیں ہے بلکہ بیشتر ایشیائی و افریقی معاشروں میں خوشحال گھروں سے لے کے غریب طبقات تک ناخواندہ برادریوں سے پڑھے لکھے کنبوں تک انھیں ایک ہی طرح کی رواجی لاٹھی سے ہانکا جاتا ہے۔کئی افریقی اور ایشیائی سماجوں میں بیوہ کا سر مونڈھ دیا جاتا ہے۔وہ رنگ دار کپڑے نہیں پہن سکتی ، بن سنور نہیں سکتی۔اسے اکثر گھر کے ایک کمرے ، کٹیا یا جھونپڑی تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ برتن الگ ہو جاتے ہیں۔جسم پر موقع ملتے ہی ہر کوئی اپنا حق جتانے کی کوشش کرتا ہے۔تمام خاندانی فیصلوں اور جشن و سوگ کی مجلسوں سے باہر رکھا جاتا ہے۔اردگرد کے ہمسائے بھی فاصلہ کر لیتے ہیں۔بچوں کو اس کے سائے سے حتی الامکان دور رکھا جاتا ہے۔اور جب مر جائے تو اطمینان کا سانس لیا جاتا ہے۔یہ وہ سماجی رویے ہیں جنھیں کسی بھی طرح کی قانون سازی سے فوری طور پر نہیں بدلا جا سکتا۔جب تک کہ قانون اور سماجی آگہی کی مہم ہاتھ میں ہاتھ ڈال کے نہ چلیں یا اسی سماج میں کچھ سرپھرے اس ماحول کو چیلنج کرنے کا حوصلہ نہ دکھائیں۔
سب سے زیادہ بیوائیں جنگیں اور خانہ جنگیاں پیدا کرتی ہیں۔مثلاً افریقہ کی طویل ترین اور سب سے زیادہ نظرانداز خانہ جنگی کم ازکم تین عشروں سے کانگو میں جاری ہے اور وہاں کے کئی علاقوں میں تو خواتین کی نصف آبادی بیوگی بھوگ رہی ہے۔
عراق پر پچھلے تین عشروں میں جو بیتی اس کے نتیجے میں وہاں تیس لاکھ خواتین بیوگی سے گزر چکی ہیں۔جب کہ افغانستان میں اگرچہ بیواﺅں کو الگ تھلگ رکھنے کے بجائے خاندان کے اندر ہی ان کی دوسری شادی کے امکانات زیادہ ہیں۔ پھر بھی کابل میں ستر ہزار کے لگ بھگ بیوائیں اپنے خاندانوں کے رحم و کرم پر زندہ ہیں۔وہ خود بھی خانہ جنگی میں جنسی و جانی ایندھن بن جاتی ہیں۔ بہت سی معذور ہو جاتی ہیں اور معذوری کا مطلب اکثر زندہ درگوری ہے۔ مسئلہ محض بیوگی کا نہیں۔ اکثر ان کے بچے بھی گیہوں کے ساتھ گھن کی طرح پستے ہیں اور سماج ہرگز نہیں سوچتا کہ ایک بیوہ سے ناروا سلوک ایک پوری نسل کی نفسیات زخمانے جیسا ہے۔جب یہی بچے چند برس بعد ایک مجروح نفسیات کے ساتھ بالغ ہوتے ہیں تو وہ مزید سماجی خرابی اور اقداری زوال کا سبب بنتے ہیں۔
لہٰذا بیواﺅں کو انسان سمجھنا، انھیں برابری کا درجہ دینا اور انھیں اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنا اور اپنی زندگی کے فیصلے خود سے کرنے کا اختیار دینا دراصل ان پر نہیں بلکہ خود پر اور اپنی ہی آیندہ نسلوں پر احسان ہے۔
(بشکریہ روزنامہ ایکسپریس)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ