دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایران-سعودی تنازعے میں امریکی بالادستی کا اختتام||اسلم اعوان

اسلم اعوان سرائیکی وسیب کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھتے ہیں ،وہ ایک عرصے سے ملک کے سیاسی ، سماجی اور معاشی مسائل پر لکھتے چلے آرہے ہیں ، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

اسلم اعوان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جرمنی نے ایران کے ساتھ توانائی کی مصنوعات کی تجارت پر امریکی پابندیوں کے باوجود اس سال کے شروع میں ایران سے پیٹرولیم کی درآمد دوبارہ شروع کردی۔ یورو سٹیٹ کی رپورٹ میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق جرمنی نے مارچ میں ایران سے تقریباً 70,000 میٹرک ٹن خام تیل کی بڑی کھیپ منگوائی۔ قبل ازیں 2018 میں جرمنی نے امریکہ کی جانب سے ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق بین الاقوامی معاہدے سے دستبرداری کے بعد تیل کی برآمدات پر پابندیاں عائد ہونے کی وجہ سے ایران سے پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد روک دی تھی لیکن تازہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ یورپی یونین کی ریاستیں ایران پر امریکی پابندیوں کی تعمیل کرنے میں تیزی سے ہچکچاہٹ کا شکار ہو رہی ہیں، جس کی بنیادی وجہ یوکرین جنگ کے باعث بین الاقوامی توانائی کی منڈیوں میں پیدا ہونے والا وہ بحران ہے جو اس وقت سامنے آیا، جب یورپی یونین کی کچھ ریاستوں نے یوکرین کی جنگ کی وجہ سے روس پر عائد مغربی پابندیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ماسکو سے خام تیل اور گیس کی درآمد جاری رکھی، چنانچہ اس سال یورپی یونین کے ممالک کی طرف سے ایران سے پیٹرولیم کی درآمدات 66,884 ملین میٹرک ٹن تک پہنچ گئیں۔

مغربی تجزیہ کار چین، ایران اور روس کی طرف بڑھتی ہوئی اقتصادی سرگرمیوں کو ”بدلتے ہوئے عالمی نظام“ کی وسیع تر علامت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد عالمی طاقتوں نے مڈل ایسٹ میں نمودار ہونے والی قومی ریاستوں کو اپنی متعین پالیسی کے تحت باہم متحارب بنا کر یہاں کے قدرتی وسائل، اقتصادی عوامل اور داخلی خود مختیاری کو کنٹرول کر کے انہیں مغربی مفادات کی منڈیوں کے تابع رکھا، اس وقت مڈل ایسٹ کی 70 فیصد تجارت یورپ و امریکہ، 20 فیصد جاپان اور 10 فیصد باقی دنیا کے ساتھ منسلک ہے، گلف کے تیل کی سب سے بڑی مارکیٹ ہونے کے ناتے چین اور بھارت قدرتی طور پہ مڈل ایسٹ کی 70 فیصد تجارت کے متقاضی تھے لیکن تراشیدہ باہمی تنازعات خاص کر عرب، اسرائیل تنازعہ کے علاوہ ایران اور سعودی عرب کے مابین دشمنی کو اس تغیر کی راہ میں حائل رکھا گیا۔

تاہم عراق اور شام کی جنگجووں میں سر کھپانے کے بعد جب حالات نے امریکہ کو تیزی کے ساتھ میدان جنگ سے قدم نکال کر مڈل ایسٹ کو اسرائیل کے سپرد کرنے پہ مجبور کیا تو اسی گیپ سے راہ نکال کر عرب ریاستوں نے تل ابیب سے تعلقات استوار کرنے کے بعد ایران کے ساتھ دیرینہ تنازعات کو نمٹا کر خطہ میں سیکیورٹی کا نیا توازن پیدا کر لیا۔ علاقائی دشمنوں کے مابین دیرینہ مسائل کے حل میں ثالث کے طور پر چین کا کردار امریکہ کے لئے ایک غیر متوقع جھٹکا ثابت ہوا، دونوں ممالک میں سفارتی تعلقات کی بحالی کو حتمی اعلان سے قبل عام نہیں کیا گیا، مغربی ماہرین معاہدہ کو مڈل ایسٹ میں چینیوں کی بڑھتی ہوئی موجودگی اور خطے میں بڑا کردار ادا کرنے میں ان کی دلچسپی کے ثبوت کے طور پہ دیکھتے ہیں کیونکہ خلیجی ممالک بیجنگ کے لیے توانائی کا ایک اہم ذریعہ ہونے کے علاوہ بنیادی ڈھانچہ کے بڑے منصوبوں میں سرمایہ کاری اور چینی مصنوعات کی وسیع مارکیٹ بن سکتے ہیں۔

چین کی مڈل ایسٹ کے پرانے تنازعات کو عمدہ طریقہ سے نمٹانے میں کامیابی کو امریکہ کے عالمی سپر پاور ہونے، خاص طور پر سرد جنگ کے مابعد عہد کا خاتمہ سمجھا جا رہا ہے۔ پچھلی سات دہائیوں میں سعودی عرب جیسے ممالک کے لیے، امریکہ واحد قابل عمل شراکت دار تھا لیکن اب ان ممالک کے پاس دوسرے آپشنز موجود ہیں، چین اور روس انہیں اقتصادی، سیاسی اور فوجی معاونت دے سکتے ہیں اور یہ بھی ان کے مفاد میں ہے کہ وہ ایران کے علاوہ اسرائیل کے ساتھ بقاء باہمی کے اصولوں کے مطابق مل کر رہیں۔

یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی کہ اسرائیل اور سعودی عرب دونوں کے قریب رہ کر امریکہ نے ان ممالک کے مابین تنازعات کو پیچیدہ بنایا، چنانچہ آج بھی مغربی قوتیں ایران کے ساتھ سعودیوں کے تنازعات کو گہرا کرنے میں مفاد تلاش کرتی ہیں، چین نے مغرب کی اسی فکری خیانت کا فائدہ اٹھایا۔ ایران اور سعودی عرب نے کئی دہائیوں تک خطہ میں پراکسی جنگیں لڑیں جس سے شام، عراق، لبنان اور یمن سمیت پورا گلف متاثر ہوا، دونوں کے درمیان پائیدار بات چیت خطہ کے ممالک کے لئے خوبصورت موقع ثابت ہوئی جو دیرینہ مسائل کو تحلیل کرنے کا وسیلہ بنے گی۔

سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی اور سفارتخانوں کو دوبارہ کھولنے کے سات سال سے منقطع تعلقات بحال کرنے کی اچانک ڈیل نے واشنگٹن کو چکرا دیا، چین نے اس معاہدے کی ثالثی کر کے امریکی خارجہ پالیسی کو پریشان کر دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران کے جوہری پروگرام کے مستقبل سے لے کر خطے میں امریکہ کے اقتصادی مفادات متاثر ہونے کے علاوہ نرم طاقت کے ذریعے چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے حامل اس معاہدے کے عالمی نظام پہ وسیع پالیسی اثرات مرتب ہوئے۔

چین نے خطہ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی خاطر اقتصادی اور نرم طاقت کا استعمال کر کے قدم جما لئے، صدر شی جن پنگ کا گزشتہ دسمبر میں سعودی عرب کا دورہ سربراہ مملکت کی حیثیت سے خطے کا تیسرا دورہ تھا، اپنے سفر کے دوران اس نے ریاض کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے پر توجہ مرکوز رکھی، چینی کمپنیوں نے کم از کم چونتیس معاہدوں پر دستخط کر کے اپنی قوم کی اقتصادی طاقت کا لوہا منوایا۔ عام خیال یہی کہ ولی عہد محمد بن سلمان سعودی عرب کو عالمی طاقت بنانا چاہتے ہیں، اسی مقصد کے حصول میں وہ چین کو اہم حامی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

مغربی ماہرین کا خیال ہے کہ سعودی ایران کشیدگی میں کمی دراصل امریکی ”قومی مفاد“ کو متاثر کر گئی۔ واشنگٹن میں بہت سے لوگ اسے عالمی منظرنامہ پہ چین کے بڑھتی ہوئی بالادستی کے طور پہ دیکھنے لگے اور چین کی ثالثی میں سعودی عرب کا ایران کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کو امریکہ پہ عدم اعتماد کا ڈرامائی اظہار سمجھا گیا، امریکی ماہرین کہتے ہیں کہ واشنگٹن کو ریاض کے چین کی طرف رخ کو امریکہ کے لیے مشرق وسطیٰ کی بنیادی ترجیحات پر نظر ثانی کرنے کے چیلنج کے طور پر دیکھنا ہو گا۔

تاہم مائیکل سنگھ کا خیال ہے کہ امریکہ کو گھبرانا نہیں چاہیے، سعودی ایران کشیدگی میں کمی دراصل امریکی قومی مفاد میں ہے، مشرق وسطیٰ کے امور میں مہارت رکھنے والے کچھ ماہرین نے یہ دلیل بھی دی کہ امریکی اتحادیوں کے ساتھ چین کے تعلقات نئی عالمی حقیقت ہیں، پالیسی سازوں کو اسے قبول کرلینا چاہیے۔ تاہم امریکیوں کے لئے یہ سوال اب بھی جواب طلب ہے کہ سعودی عرب ایران تعلقات کی بحالی کے خواہاں کیوں ہوا؟ سائمن ہینڈرسن نے لکھا ”ایسا لگتا ہے کہ ریاض نے تہران کے ساتھ کام کرنے کا فیصلہ اس لئے کیا کہ بائیڈن انتظامیہ اور کانگریس میں ڈیموکریٹس کی جانب سے سعودی عرب کو ملنے والی دشمنی اور امریکی حمایت میں بتدریج کمی ہے۔

اسی طرح، رابرٹ سیٹلوف نے لکھا کہ ایران کی حالیہ جوہری پیشرفت کے جواب میں امریکی کارروائی کا فقدان اونٹ کی کمر پہ آخری تنکا ثابت ہوا جس نے ریاض کو اس بات پر قائل کیا کہ فیصلہ کن قدم اٹھائے۔ بہرحال، سعودی عرب کے لئے اس معاہدے کا مقصد محض معاشی نہیں بلکہ سیکورٹی کے ذرائع کو متنوع بنانا ہے، ریاض نے حوثی میزائل اور ڈرون حملوں کے خلاف اپنی سرزمین کے دفاع پہ لاکھوں ڈالر خرچ کیے ، اس لئے یمنی خانہ جنگی کو ٹھنڈا کرنا سعودی عرب کے لیے نہایت اہم محرک تھا۔

ایران بھی اس معاہدے کو اپنی موجودہ جوہری پالیسی کی خاموش توثیق سمجھتا ہے، بلاشبہ ایرانیوں کو سعودی عرب کے ساتھ معاہدے سے بہت کچھ حاصل ہوا، امریکی ماہرین اس معاہدے کو تہران کی جیت کے طور پر نشان زد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ مشرق وسطیٰ میں ایرانی پوزیشن کے لیے بڑا قدم ہے اور یہ معاہدہ اسے عالمی تنہائی سے نکالنے کا وسیلہ بن گیا، دوسری جانب معاہدے میں ثالثی کر کے چین نے واضح کیا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں حقیقی معنوں میں بڑا کھلاڑی بن چکا ہے۔

چنانچہ بیجنگ خطہ میں دیگر طریقوں کے علاوہ خلیجی ممالک کے سربراہی اجلاس کی میزبانی اور شرکت کو یقینی بنانے کے لیے اپنی اقتصادی طاقت کے استعمال کا دائرہ بڑھاتا رہے گا۔ چینیوں نے نہ صرف سعودی عرب اور ایران کی صورت میں مضبوط اتحادی تلاش کر لئے بلکہ وہ واشنگٹن کو کمزور کرنے میں بھی کامیاب رہے۔ رابرٹ سیٹلوف نے لکھا کہ“ چینی معاہدہ واشنگٹن کے لیے اضافی تھپڑ کی حیثیت رکھتا ہے، چین کی ثالثی کا معاہدہ دراصل مشرق وسطیٰ میں بیجنگ کی قیادت میں ایک نئے ورلڈ آرڈر کا اشارہ بھی ہے ”۔

 یہ بھی پڑھیے:

کشمیریوں کا مستقبل۔۔۔اسلم اعوان

اپوزیشن جماعتوں کی آزمائش۔۔۔اسلم اعوان

پیراڈائم شفٹ میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟۔۔اسلم اعوان

افغانستان کا بحران عالمی ایشو نہیں رہا۔۔۔اسلم اعوان

عورتوں میں ہم جنس پرستی پر یہ مشہور کہانی لکھنے والی عصمت چغتائی۔۔۔اسلم ملک

اسلم اعوان کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author