نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کراچی کا کنگ کون؟۔۔۔||محمد حنیف

پھر کہتے ہیں عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر جانا ہے۔ وہاں سلام کرتے ہیں، دعا مانگتے ہیں اور جاتے جاتے یہ کہہ جاتے ہیں کہ ’پتہ نہیں تم اس فضول شہر میں کیسے رہ لیتے ہو بس تمہاری خوش قسمتی ہے کہ تمہارے سر پر عبد اللہ شاہ غازی جیسے بزرگ کا سایہ ہے۔‘

محمد حنیف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انہی صفحات پر چھپے ایک انٹرویو میں الطاف بھائی نے فرمایا ہے کہ کراچی کے دلوں پر آج بھی اُن کا راج ہے اور اگر انھیں عوام سے خطاب کی اجازت دی جائے تو وہ یہ ثابت کر دیں گے۔

گذشتہ ایک سال میں ہونے والے ضمنی اور بلدیاتی انتخابات نے صرف یہ ثابت کیا ہے کہ کراچی والے فی الحال اپنے دل کی بات دل ہی میں رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

ایم کیو ایم کے بائیکاٹ اور پی ٹی آئی پر پڑی آفت کے بعد پی پی پی نے کراچی میں اپنا میئر منتخب کروا لیا ہے۔ دلوں پر چاہے کسی اور کا راج ہو پاکستان کے سب سے بڑے اور دنیا کے دس بڑے شہروں میں سے ایک یعنی کراچی کا مئیر پی پی پی کا ہے۔

یہ پارٹی کا بھی پرانا خواب تھا اور منتخب میئر مرتضیٰ وہاب کا بھی پچبن کا خواب۔

ان کے اس بچپن کے خواب کا تذکرہ جب وہ ایڈمنسٹریٹر بنے تھے تو ان صفحات پر کر بیٹھا تھا۔ میں اپنی طرف سے موٹیویشنل انکل بننے کی کوشش کر رہا تھا کہ دیکھو بچو اگر دل میں کچھ ٹھان لو تو ناممکن بھی ممکن ہو سکتا ہے۔

بکنے کے بعد پچھتایا کیونکہ عزیز رشتہ داروں کے فون آنے شروع ہو گئے کہ مرتضیٰ وہاب کو آپ بچپن سے جانتے ہیں ہمارا کام کروا دیں۔ ہاتھ باندھ کر بتاتا رہا کہ ان کے بچپن میں کہیں چلتے چلتے ملاقات ہو گئی تھی، نہ میں ان کو جانتا ہوں نہ میرا ان سے کوئی رابطہ ہے۔

ویسے بھی جو کام آپ بتا رہے ہیں وہ تو پولیس کا اور کورٹ کچہری کا کام ہے جو میئر کے ماتحت نہیں ہیں۔ اور جو کام کی نوعیت ہے تو کسی کو کہوں گا تو وہ آگے سے پوچھے گا کہ کیا آپ کے سب جاننے والے جرائم پیشہ ہیں؟

باقی کام لوگوں کو ڈی ایچ اے اور کنٹونمنٹ بورڈز سے پڑتے ہیں وہ تو کراچی کے میئر تو کیا کسی کے نیچے بھی نہیں آتے۔

صدر عارف علوی جب ہمارے ایم این اے تھے تو ڈی ایچ اے میں اپنے حلقے والوں کے لیے پانی کا مطالبہ لے کر کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ پہنچ گئے تھے۔ وہاں سے انھیں دھکے دے کر نکال دیا گیا۔ ریاست کا ڈھانچہ سب پر عیاں ہو گیا کہ آپ چاہیں تو ملک کے صدر بن جائیں لیکن پانی کس کو دینا ہے اور دھکے کس کو دینے ہیں یہ فیصلہ کنٹومنٹ بورڈ ہی کرے گا۔

پانی کا رونا چند ہفتے پہلے وزیر خارجہ اور منتخب میئر کے لیڈر بلاول بھٹو نے بھی کیا اور وزیراعظم کی موجودگی میں فرمایا کہ ’میں ملک کا وزیر خارجہ ہوں لیکن مجھے کراچی والے گھر میں پانی کا ٹینکر خریدنا پڑتا ہے۔‘

کراچی کے کسی دل جلے نے کہا کہ ’والد محترم سے سیاست کے سارے گُر سیکھ لیے یہ بھی پوچھ لیتے کہ ابو صوبے میں اتنے عرصے سے ہماری حکومت ہے ہمارے حصے کا پانی کسی ملک صاحب کو تو نہیں دے بیٹھے۔‘

پانی
کراچی کے اور بھی بڑے مسئلے ہیں لیکن بنیادی مسئلہ پانی کا ہی ہے

تو شاید عوام سے کچھ ہمدردی چاہتے ہیں لیکن یہ ایسا ہی ہے کہ ایئڑ کنڈیشنڈ پراڈو میں بیٹھا کسی فٹ پاتھ پر چلتے مزدور سے کہے کہ دیکھو ہم ایک ہی سڑک کے مسافر ہیں۔

کراچی سے باہر رہنے والے شاید کراچی کے باسیوں کی بے بسی اور لاچارگی نہیں سمجھ سکتے۔ آبائی گاؤں سے کبھی کوئی یار دوست ہمت کر کے کراچی آ جاتا ہے تو صرف دو فرمائیشیں ہی کرتا ہے کہ قائداعظم کے مزار پر جانا ہے، وہاں جا کر مزار کے گرد پھیلے سبزہ زار کو اور مزار کے گرد کھڑے نیوی کے سفید وردیوں والے چست جوان دیکھ کر انھیں اپنے پاکستانی ہونے پر تھوڑا فخر ہوتا ہے۔

پھر کہتے ہیں عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر جانا ہے۔ وہاں سلام کرتے ہیں، دعا مانگتے ہیں اور جاتے جاتے یہ کہہ جاتے ہیں کہ ’پتہ نہیں تم اس فضول شہر میں کیسے رہ لیتے ہو بس تمہاری خوش قسمتی ہے کہ تمہارے سر پر عبد اللہ شاہ غازی جیسے بزرگ کا سایہ ہے۔‘

کراچی کے سنگی جواب دیتے ہیں کہ جو بزرگ اپنے مزار کے احاطے کو قبضہ گروپوں سے نہ بچا سکا وہ شہر کو کیا بچائے گا اور جو سمندری طوفانوں سے بچاؤ کا عبداللہ شاہ غازی کا نظام ہے وہ بھی ٹوٹ پھوٹ چکا ہے۔ سمندری طوفان دور سے کراچی کو دیکھتا ہے اور سوچتا ہے کہ یہاں تباہ کرنے کے لیے بچا کیا ہے، میرا کام تو کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ خود ہی کر رہا ہے۔

abdullah shah ghazi 

میں کراچی کے پرانے رہائشی کے طور پر باہر سے آنے والوں کے سامنے اکثر یہ واویلا مچاتا ہوں کہ یہ غریب پرور شہر ہے۔ شمال میں بمباری ہو، جنوب میں زمینیں بنجر ہو جائیں، مرکز میں کسی کا دل ٹوٹ جائے سب کو کراچی پناہ دیتا ہے۔

جواب میں کسی ستم ظریف نے طعنہ دیا کہ ’روٹی تمھیں چھیپا کھلاتا ہے، علاج ڈاکٹر ادیب رضوی کرتا ہے، لاشیں ایدھی والے اٹھاتے ہیں آخر تمہاری حکومت کیا کرتی ہے؟‘ میں پھر شاہ رخ خان بننے کی کوشش کرتا ہوں اور کہتا ہوں بڑے بڑے شہروں میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔

تو دوبارہ عرض کرتا ہوں کے میں منتخب میئر کو نہیں جانتا اور کوشش کریں کہ آپ کو ان سے کام نہ پڑے۔ ایک دفعہ گاؤں سے ایک بزرگ نے فون کر کے کہا تھا کہ بیٹا جی کراچی کا کور کمانڈر اپنا ایک برخوردار لگ گیا ہے کوئی کام ہو تو بتانا۔ میں نے عرض کیا کہ بزرگو دعا کریں کہ زندگی میں کوئی ایسے کام پڑیں ہی نہ جس کے لیے انسان کو کور کمانڈر کے پاس جانا پڑے۔

اور بھی بڑے مسئلے ہیں لیکن بنیادی مسئلہ پانی کا ہی ہے۔ اگر میئر کے پاس جائیں گے بھی تو شاید وہ آگے سے بلاول بھٹو کے ٹینکر والے کا نمبر ہی دے دیں۔ لیکن ایک دفعہ پھر موٹیویشنل انکل بنے کی کوشش کرتے ہوئے ایک قصہ سناتا جاؤں۔

دلوں کے راز اللہ ہی جانتا ہے لیکن سندھ کا اصلی بادشاہ سندھو دریا ہے۔ جو کبھی سوکھ جاتا ہے، کبھی بپھر جاتا ہے۔

یار طرح دار اور سندھ کے شاندار ادیب عبدالقادر جونیجو ایک قصہ سنایا کرتے تھے کہ پانی کے مسئلے پر تم جیسا ایک صحافی ایک مچھیرے کا انٹرویو لینے گیا اور کہا کہ ’آپکو پتا ہے کہ آپ کے بادشاہ نے سندھو کا پانی بیچ دیا ہے؟‘ مچھیرے نے کہا ’کیا بات کرتے ہوں ہمارا سندھو اب تک پتا نہیں کتنے بادشاہوں کے سودے کر چکا ہے۔‘

( بشکریہ : بی بی سی اردو )

 محمد حنیف کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author