نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کالاشی کہتے ہیں ”جنت جانے کا کوئی اور راستہ ڈھونڈیں“||خلیل کنبھار

بمبور وادی کی طرف جاتے ہوئے راستے میں ٹریفک جام ہو گیا۔ ہم گاڑی اور ڈرائیور کو چھوڑ کر دو کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کر کے وہاں پہنچے۔ رنگ برنگی کپڑوں میں ملبوس حسین و جمیل لڑکیاں اپنے روایتی رقص میں رقصاں تھیں۔

خلیل کنبھار

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج سے بیس پچیس سال قبل میں نے شیخ ایاز صاحب کی کتاب ’جے کاک ککوریا کاپڑی‘ میں پڑھا تھا کہ ’میں پہاڑ پر چڑھ رہا تھا تو اچانک میرے سامنے وہ لڑکی آ گئی اور میں نے سوچا اے بھگوان، اے بھگوان! تمہارا جلوہ میرا پیشہ کر رہا ہے‘ ۔ ان کی مشہور زمانہ نظم

دور ہیمنت میں چاند کیلاش کا
میرے دل کو بلاتا رہا

پڑھنے کے بعد میرے دل میں یہ خواہش جاگی تھی کہ میں زندگی میں کیلاش ضرور جاؤں گا۔ گزشتہ سال ہم نے (علی دوست عاجز، اسحاق سمیجو اور ایاز بجیر) کیلاش جانے کا پروگرام بنایا۔ ہم نے کیلاش کے راستے میں پہلی رات اپر دیر کے علاقے میں ایک پہاڑ کی چوٹی پر انگوروں کی بیل اور سر سبز درختوں میں گھرے ایک بے حد حسین گھر میں گزاری اور دوسری رات چترال میں پر شور دریاہ کے کنارے پر قائم ایک گیسٹ ہاؤس میں بتائی۔ اگلے دن ہم صبح سویرے کیلاش کی طرف روانہ ہوئے۔ کیلاش جاتے ہوئے میری کیفیت اس بچے جیسی تھی جس کی ایک ان ہونی خواہش پوری ہونے جا رہی ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ سوچ کر میرے پورے بدن میں سرشاری کی لہر پیدا ہو رہی تھی کہ بالآخر میں کیلاش پہنچ گیا ہوں۔ انتہائی مشکل اور پر خطر راستوں سے ہوتے ہوئے ہم وادی بمبور میں پہنچے۔

کیلاشی اپنے روایتی لباس میں چلم جوشی کا جشن منا رہے تھے۔ کسی زمانے میں سکندر یونانی کی فوج کا حصہ رہنے والے اور ان وادیوں پر حکمرانی کرنے والے کیلاشی موجودہ وقت میں انتہائی معصوم، بے ضرر اور اپنی ریت، رواج، رسم اور ثقافت کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ایک الگ جہان بسائے ہوئے ہیں۔ چند ہزار کیلاشی صرف اپنی منفرد ثقافت اور رسم و رواج کی وجہ سے پوری دنیا کی نگاہوں کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ ہم نے کیلاش کے پل صراط جیسے راستوں پر تقریبا ’پوری دنیا سے آئے ہوئے لوگوں میں عجیب اشتیاق اور سر مستی دیکھی۔ وہاں موجود تقریباً تمام گورے جوڑوں کی صورت میں تھے اور عمر رسیدہ جوڑوں کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔ میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ انہیں اس عمر میں بھی ایک تو سیر و سیاحت کا شوق ہے تو دوسرا ان کے ہمسفر بھی ساتھ ہیں۔ ہم کس ہجر کا شکار ہو گئے ہیں۔

بمبور وادی کی طرف جاتے ہوئے راستے میں ٹریفک جام ہو گیا۔ ہم گاڑی اور ڈرائیور کو چھوڑ کر دو کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کر کے وہاں پہنچے۔ رنگ برنگی کپڑوں میں ملبوس حسین و جمیل لڑکیاں اپنے روایتی رقص میں رقصاں تھیں۔

موت ڪتھاہیں ڈردی ہے تاں
رنگیں ڪولوں ڈردی

میں دوستوں کو رنگ برنگی آنکھوں، چہروں اور لباسوں کے پاس چھوڑ کر ماسی ایران بیبی کے پاس پہنچا جس کے انگوروں کے رس کی گونج دور دراز تک پھیلی ہے۔ بادلوں بھرے موسم میں ان کے گھر کے صحن میں بیٹھ کر میں نے انگوروں کا رس پیا اور اس کے ساتھ حال احوال کیے ۔ بظاہر دنیا کو خوبصورت نظر آنے والی زندگی بہت دشوار اور جیون کے معیار سے کم تر تھی۔ وہاں سے نکل کر میں کیلاش کے شاعر رحمت کیلاش سے ملنے گیا لیکن چلم جوشی میلے کی وجہ سے وہ اپنے ہوٹل کے کام میں بہت مصروف تھے۔

روایتی دعا سلام کے بعد ہم نے اپنے میزبان مولوی کے گھر کھانا کھایا۔ وہ ایسا اچھا مولوی تھا کہ اس نے کھانے سے پہلے انگور اور شہتوت کے الگ الگ ذائقے والے رس پلائے اور ہماری تواضع وہاں کے روایتی کھانوں کے ساتھ کی۔ کیلاشی لڑکیوں کے مسلمان ہونے کے بارے میں اس مولوی کے خیالات بھی ہماری مولویوں والے تھے۔ البتہ یہاں حکومت کی جانب سے تبلیغ جماعت کے آنے پر پابندی کی اطلاعات ہیں۔

انگور اور شہتوت کا رس پلانے والے اس خوش خیال مولوی کے ساتھ دوبارہ ملنے کا وعدہ کر کے رخصت ہوئے۔ اس کے بعد ہم کیلاش کی مرکزی وادی بمبوریت کی طرف روانہ ہوئے۔ پر شور دریا کے کنارے کے ساتھ ساتھ برستی بارش میں پھسلتی ہوئی گاڑیوں میں ہم زندگی اور موت کے بیچ میں سے گزرتے ہوئے رات کو دس بجے وادی بمبوریت میں پہنچے۔ ہوٹل کی طرف جاتے اور انار کا رس پیئے ہوئے ایک کیلاشی آتی جاتی گاڑیوں کے شیشوں پر زور زور سے ہاتھ مار کر کہ رہا تھا کہ ہر سال اس ٹوٹے پھوٹے راستے سے ادھر آتے ہوئے آپ کو شرم نہیں آتی کہ روڈ بنوا دیں؟

ہوٹل پر ہم سے پہلے ہی سندھ سے آئے ہوئے ایک اور قافلے کے ساتھی محفل جمائے ہوئے تھے۔ ہم بھی اس محفل میں شامل ہو گئے۔ وہاں کئی جوڑے خوبصورت درختوں کے نیچے خیمے لگائے ٹھہرے ہوئے تھے۔ آدھی رات کو چاند کیلاش کی وادی کے حسین پہاڑوں کے اوپر وارے جا رہا تھا۔ چاندنی نے کیلاش کی رات کو مزید سحر انگیز بنا دیا تھا۔ پر شور دریا، پہاڑوں کے اوپر چاند اور کیلاش کے حسن کے ساتھ بھرپور وہ رات ہماری یادوں میں ہمیشہ کے لیے مہک اٹھی۔

صبح تیار ہو کر ہم ہوٹل سے چلم جوشی کی مرکزی محفل کی جانب پیدل روانہ ہوئے۔ راستے میں ہر نسل، زبان اور ملک کے لوگ نظر آئے۔ کیلاش نے اپنی حسین ثقافت اور منفرد ریت رواج اور رسومات کی وجہ سے پوری کائنات کو ایک جگہ اکٹھا کر رکھا تھا۔ یہ کیلاشی کسی زمانے میں ان وادیوں کے حکمران تھے لیکن اب ان ہی وادیوں کے چھوٹے سے گوشے میں اپنے وجود کی بقاء کے لئے پریشان ہیں۔ خوبصورت نقش و نگار، نیلی آنکھوں اور سنہری بالوں والی کیلاشی لڑکیاں اپنا جیون ساتھی ڈھونڈھنے میں خود مختار ہوتی ہیں اور طلاق لینے میں بھی آزاد ہوتی ہیں۔

میلے کے دنوں میں جس لڑکی کی ٹوپی میں سرخ پر لگا ہوا ہو تو اس کا مطلب ہے کہ اس کی نظر میں کوئی لڑکا ہے۔ ان کے گھروں کے بیچ میں ’بھشالی‘ نام کی ایک جگہ بنی ہوتی ہے جہاں کنواری لڑکیاں اور شادی شدہ عورتیں ماہواری کے دن گزارتی ہیں۔ کیلاشی عقیدے کے مطابق ماہواری کے دنوں میں عورتیں ناپاک ہوتی ہیں اور انہیں چھونا منع ہے۔ ’بھشالی‘ کی طرف مردوں کے آنے جانے پر بھی پابندی ہوتی ہے۔ وہاں موجود عورتوں کو بڑی عمر کی شادی شدہ لڑکیاں کھانا پہنچاتی ہیں۔ بچے کی پیدائش بھی ’بھشالی‘ میں ہی ہوتی ہے۔ ’بھشالی‘ سے فارغ ہونے والی عورتیں نہا دھو کر نئے کپڑے پہن کر گھروں کو لوٹتی ہیں۔

کیلاشیوں کا عقیدہ ہے کہ انسان فطرت کی جانب سے اس دنیا میں بھیجا گیا ہے اور واپس بھی فطرت کی جانب جاتا ہے۔ وہ موت پر غم و سوز کے بجائے ایسا ہی جشن مناتے ہیں جیسا پیدا ہونے پر منایا جاتا ہے۔ موسیقی، رقص و شراب ان کے عقیدے کا حصہ ہیں۔ ستاروں کے علم پر یقین رکھتے ہیں اور سورج، چاند اور ستاروں کی گردش سے وقت و حالات کا اندازہ لگاتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ میلے کے دنوں میں وہاں سے دیویوں اور دیوتاؤں کا گزر ہوتا ہے جو انہیں حوصلہ اور امید دلاتے ہیں۔

بمبوریت میں گھومتے پھرتے ہمیں پشاور میں محکمہ آثار قدیمہ میں ملازمت کرنے والی اور ٹیکسلا میں بدھ مت کے آثاروں پر گائیڈ کا کام کرنے والی کیلاشی لڑکی سید گل کیلاشی ملی۔ سید گل ان دو چار کیلاشی لڑکیوں میں سے ایک ہے جو ملازمت کرتی ہیں۔ گل نے گپ شپ کے دوران بتایا کہ یہاں کے بارے میں ایک ایسا تاثر بنایا گیا ہے کہ دنیا سمجھتی ہے کہ وہاں جائیں گے، شراب پیئیں گے اور کوئی نہ کوئی لڑکی بھگا کر واپس جائیں گے لیکن در اصل ایسا کچھ نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ یہ رقص تفریح نہیں بلکہ ہماری روایتوں اور عقیدے کا حصہ ہے۔ ہم فطرت کو ماننے اور اس کا احترام کرنے والے لوگ ہیں۔ کبھی کوئی طوفان یا کوئی آفت آتی ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ قدرت ہم سے ناراض ہوئی ہے۔ ہم اس کو منانے کے لئے رقص کرتے ہیں اور معافی مانگتے ہیں۔ ہم مسلمانوں یا ہندؤں کی طرح روزانہ عبادت نہیں کرتے، لیکن سال میں ہمارے چار میلے ہوتے ہیں۔ یہ میلے ہماری عبادت بھی ہیں اور ثقافت بھی۔ یہی میلے ہماری عید ہیں۔

کیلاش میں نئے پیدا ہونے والے بچے کو پیوریفکیشن کے مختلف مراحل سے گزارا جاتا ہے۔ بچے کو پیدا ہوتے ہی پانی سے نہلایا جاتا ہے، اس کے بعد چند مہینوں میں آنے والے میلے میں اسے دودھ کے ساتھ دھویا جاتا ہے۔ اس کے بعد اگر لڑکا ہے تو پانچ چھ سال کی عمر میں بکرے یا دنبے کے خون سے نہلایا جاتا ہے۔ موسم بہار کی آمد پر ایک رسم ہوتی ہے جس کو کیلاشی ’گندولی‘ کہتے ہیں۔ اس رسم میں کسی غیر کیلاشی کو شرکت کی اجازت نہیں۔

اس رسم میں کیلاشی زمانوں سے سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والے خفیہ گیت گاتے ہیں۔ ان گیتوں کے لئے گل کیلاشی کا کہنا تھا کہ وہ گیت نہ ہم کسی کو سنا سکتے ہیں نہ ان کو شائع کر سکتے ہیں اور نہ انہیں اس مخصوص میلے کے سوا کہیں گا سکتے ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ ایسا کرنے سے ان کی اصلیت اور روحانی طاقت دونوں متاثر ہوں گی۔ اس کا کہنا تھا کہ ہمارے عقیدے کے مطابق جو چیر عام ہو جاتی ہے وہ اصل اور شفاف نہیں رہتی۔ مذہب کی تبدیلی کے بارے میں گل کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ موجود ہے لیکن ایسا نہیں جیسا سندھ میں ہے۔

گل ان لوگوں سے بیزار تھی جو کیلاشی لڑکیوں کے ساتھ فوٹو یا ویڈیو بنا کر تبلیغیوں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں پھر یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ یہاں ہر کسی کو لڑکیاں مل جاتی ہیں۔ ایسی پروپیگنڈا سے متاثر ہو کر یہاں آنے والے لوگوں سے ہم بہت تنگ ہیں۔ کیلاشیوں کا کہنا ہے کہ ہمارے لباس، کلچر اور رواج سے متاثر ہو کر دنیا بھر کے لوگ مشکل راستوں سے گزر کر یہاں آتے ہیں۔ ان سیاحوں کے لباس اور خاص طور پر عورتوں کے میک اپ اور ان کے پاس موجود پرس یا جوتوں وغیرہ سے متاثر ہو کر ہماری نوجوان نسل احساس محرومی کا شکار ہوتی ہے۔ زیادہ سیاحوں کی آمد کی وجہ سے ہماری ثقافت، لباس، عقیدہ کئی طرح کی یلغار کی زد میں ہے۔ ہم شاید اپنی نئی نسل کو زیادہ دیر تک روک نہ سکیں۔

کیلاشیوں نے اس بات کا کھلا اظہار تو نہیں کیا لیکن ان کی بلا واسطہ گفتگو کا مطلب میں نے یہ نکالا کہ یہ بہتر ہو گا کا جنت جانے کا کوئی اور راستہ تلاش کیا جائے اور ہمارے خطے اور رقص کو سلامت رہنے دیا جائے۔

About The Author