نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نواز شریف کو کس بات کا انتظار ہے؟۔۔۔|| عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاحایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلفٹی ویچینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

عمار مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسلم لیگ ن  کے لیڈر ہوں یا پی ڈی ایم کے رہنما، سیاسی جماعتوں کے کارکن ہوں یا سیاسی تجزیہ کار، سب یہ بات جانتے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ نواز شریف کو واپس آ جانا چاہیے۔ جس رہنمائی اور قیادت کی اس وقت ملک کو تلاش ہے،  وہ آج کل  لندن میں مقیم  ہے۔

ن لیگ کے رہنما اکثر کسی پریس کانفرنس میں آکر یا جلسے میں یہ نعرہ ضرور لگاتے ہیں کہ نواز شریف اسی مہینے یا اگلے ہفتے واپس آ رہے ہیں لیکن اس بات کو اب بہت وقت گزر گیا ہے، کئی مہینے بیت چکے ہیں، نواز شریف کی راہ تکتے تکتے ن لیگ کے کارکنوں کی آنکھیں تھک گئیں مگر ابھی تک نواز شریف کی وطن واپسی کا حتمی پلان کسی کے پاس نہیں ہے۔

 اس موضوع پر بحث کرنے سے پہلے اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ ایک عام کارکن سے لے کر پی ڈی ایم کے ہر سیاسی قائد کو علم ہے کہ عمران خان کا اصل توڑ نواز شریف کی واپسی میں پوشیدہ ہے۔ یہ بات سب کو سمجھ آ رہی ہے تو کیا نواز شریف یہ حقیقت نہیں جانتے؟

میاں صاحب کو بھی خوب علم ہے کہ الیکشن کمپین میں ن لیگ کی کامیابی ان کی  مدد کی مرہون منت ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود لیت و لعل سے کام لیا جا رہا ہے تو اس کے پیچھے کیا مصلحت چھپی ہوئی ہے؟ کون سی حکمت اور کون سے رموز ہیں جو نواز شریف کی وطن واپسی میں رکاوٹ ہیں؟

اس حوالے سے بھانت بھانت کی آرا ہیں۔ ان آرا کو سننے، سوچنے، سمجھنے کے بعد ہی نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے۔ اس تحقیق میں ایک خبر بھی پوشیدہ ہے  لیکن اس کا تذکرہ آنے والی سطور میں کرتے ہیں۔

ایک قیاس کے مطابق نواز شریف اس وقت تک واپس نہیں آئیں گے جب تک چیف جسٹس ریٹائر نہیں ہوتے اور ان کی جگہ نئے چیف جسٹس اپنا عہدہ سنبھال نہیں لیتے۔ وہی وقت ہوگا جب نواز شریف کی تاحیات نااہلی ختم ہو گی اور وہ سیاست میں پورے زورو شور سے حصہ لے سکیں گے۔

موجودہ صورتحال میں واپسی میں یہ امر بھی مانع ہے کہ جس بساط کو ہائی برڈ نظام کے نام پر بچھایا گیا تھا، اب بھی اس شطرنج پر کچھ مہرے عمران خان کے مفاد میں چلائے جا رہے ہیں۔ اگر نواز شریف موجودہ عدالتی دور میں واپس آتے ہیں تو ان مہروں کی مدد سے کوئی ایسی چال چلی جا سکتی ہے جو بڑے نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔ اس نقصان سے بچنے کا طریقہ انتظار اور مزید انتظار ہے۔

صدر مملکت ملک کے آئینی سربراہ ہیں۔ اگرچہ ان کا عہدہ سیاسی معاملات میں مداخلت کا متقاضی نہیں ہے مگر اس کے باوجود وہ کسی سیاسی کارکن کی طرح اپنے عہدے کی حرمت داؤ پر لگانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ان کے جانے کے دن بھی قریب ہیں۔ ستمبر میں ان کی آئینی مدت بھی ختم ہو رہی ہے اور ایک نئے صدر کا انتخاب ہوگا۔

ایک اندازے کے مطابق اس دفعہ صدر کا عہدہ نواز شریف کے حوالے بھی کیا جا سکتا ہے۔ 3دفعہ وہ وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ اب وہ نئے  لوگوں کی رہنمائی میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ اگر انتخابات شفاف ہوتے ہیں اور ن لیگ بڑی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو وزارت عظمی کا عہدہ کسی نوجوان کے حوالے کرکے نواز شریف صدارت کے عہدے پر براجمان ہو سکتے ہیں۔ اگر وزارت عظمی مریم نواز کا مقدر بنتی ہے تو صدر اور وزیر اعظم کا یہ رشتہ بے مثال تعلق بن سکتا ہے۔ لیکن یہ صرف ایک تھیوری ہے اس کی بارے میں حقائق مفقود ہیں۔

انتخابات کی تاریخ کا بھی نواز شریف کی واپسی اور مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم سے گہرا تعلق ہے۔ ن لیگ کی خواہش ہے کہ انتخابات کم از کم نومبر تک آگے لے جائے جائیں تاکہ نواز شریف کے خلاف بنے بے بنیاد مقدمات ختم ہوں اور وہ آزادانہ طور پر انتخابی مہم میں حصہ لے سکیں۔ مولانا فضل الرحمن کا استدلال ہے کہ انتخابات مارچ میں ہوں تاکہ حکومت کی کارکردگی میں کچھ بہتری آ سکے۔ پیپلز پارٹی کے مطابق انتخابات اکتوبر میں آئینی مدت پوری ہونے پر ہونے چاہئیں۔

نواز شریف کے بعض قریبی ذرائع سے بات ہوئی تو اندازہ ہوا کہ نواز شریف کس بات کا انتظار کر رہے ہیں اور واپسی میں کیا امر مانع ہے؟

پتہ چلا کہ  4نکات ایسے ہیں جن کا انتظار نواز شریف کو ہے۔  ایک بات تو بہت واضح ہے کہ نواز شریف اداروں اور عوام سے اسی توقیر کے متقاضی ہیں جس کے وہ حقدار ہیں۔ ان کے خیال میں ان کی شخصیت، خاندان، پارٹی اور کارکنوں کے خلاف جو گھناؤنے الزامات گزشتہ دور میں لگائے گئے وہ سب کے سب واپس ہونے چاہئیں۔ وہ 3دفعہ اس ملک کے وزیر اعظم رہے ہیں اور ان کے خاندان نے اس ملک کی ترقی میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے، اس کے بدلے میں وہ کسی عہدے کے نہیں بلکہ احترام کے متقاضی ہیں۔

دوسرا وہ ان تمام بے بنیاد مقدمات کا خاتمہ چاہتے ہیں جن کی وجہ سے وہ خود، ان کی پارٹی اور ان کے کارکنوں کو عتاب سے گزارا گیا۔

تیسری ان کی خواہش ہے ان کا استقبال فقید المثال ہو۔ مسلم لیگ ن اور اس کی ذیلی جماعتوں نے مدتوں سے اس کی تیاری بھی کر رکھی ہے کہ جب نواز شریف اس دھرتی پر قدم رکھیں تو وہ تاریخ کے سب سے بڑے جلسے سے خطاب کریں۔ ایسا جلسہ جو  بے نظیر شہید کے 1986 کے جلسے کی یاد بھلا دے۔

آخری بات جس کا نواز شریف کو انتظار ہے وہ چند معاہدے ہیں ۔ یہ معاہدے ملکی نہیں بین الاقوامی ہیں۔ نواز شریف کی یہ خواہش ہے کہ جب وہ واپس آئیں تو عوام کے لیے کوئی خوشخبری بھی ان کے ہمراہ ہو۔ عرب ممالک سے ان کے  ذاتی تعلقات ہمشہ قابل رشک رہے ہیں، چین کی قیادت بھی انہیں احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ نواز شریف کی خواہش ہے کہ جب وہ پاکستان آئیں تو کوئی ایک ایسا معاہدہ ان کے ہمراہ ہو جس سے پاکستان کے دلدر دور ہو جائیں ۔

بہت سے لوگ ان باتوں سے شاید اتفاق نہ کریں اور ان کا خیال ہو کہ نواز شریف اب اس ملک کی سیاست میں بااثر نہیں رہے۔ اس کا جواب چاہتے ہیں تو  ملکی سیاسی منظر نامے پر نگاہ ڈالیں، اب تک ہوا وہی ہے جو نواز شریف نے چاہا ہے، اگر اس بات کا یقین نہ آئے تو ایک دفعہ نواز شریف کی گوجرانوالہ والی تقریر دوبارہ سن لیں۔

بشکریہ وی نیوز ڈاٹ پی کے

یہ بھی پڑھیے:

بندہ ایماندار ہے ۔۔۔عمار مسعود

حکومت کی عجلت اور غفلت ۔۔۔عمار مسعود

پانچ دن، سات دن یا دس دن؟ ۔۔۔عمار مسعود

نواز شریف کی اگلی تقریر سے بات کہاں جائے گی؟ ۔۔۔ عمار مسعود

عمار مسعود کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author