وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تو آپ جانتے ہیں کہ پلاسٹک سنتھیٹک پولیمر سے بنتا ہے اور پولیمر پٹرولیم اور گیس کی ذیلی پروڈکٹ ہے۔نہ معدنی ایندھن ہوتا نہ پلاسٹک ہوتا۔دونوں کی داستان ایک صدی سے اوپر کی نہیں ہے۔بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ دوسری عالمی جنگ کے پھیلاﺅ اور تباہ کاری میں پٹرول اور ڈیزل نے جو کردار ادا کیا۔ماحولیات کی تباہی میں اس سے کہیں منفی کردار پٹرولیم مصنوعات بالخصوص پلاسٹک کا ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد پلاسٹک راتوں رات ہر شعبے کی آنکھ کا تارہ اور آہنی مصنوعات کا رقیب بن گیا۔زندگی بچانے والے طبی آلات لوہے کے بجائے پلاسٹک کے بننے لگے۔ اس کے استعمال سے گاڑیوں اور طیاروں کا وزن ہلکا ہو گیا۔یوں پٹرول کی بچت ہونے لگی۔ مصنوعی سیاروں اور خلائی ٹیکنالوجی میں پلاسٹک نے اپنی پائیداری کے کمالات دکھانے شروع کر دیے۔ ہلکے وزن کے سیفٹی ہیلمٹ بننے لگے۔زنگ خوردہ آہنی پائپوں کو پلاسٹک پائپ نے معزول کرنا شروع کر دیا۔ مگر ہر روشن پہلو کے پہلو بہ پہلو ایک تاریک پہلو بھی تو ہوتا ہے اور بروقت دھیان نہ دیا جائے تو رحمت کو زحمت بنتے زیادہ دیر نہیں لگتی۔آج یہ بحث ہو رہی ہے کہ پلاسٹک سے پہلے کی دنیا اچھی تھی یا پلاسٹک والی دنیا زیادہ بہتر ہے۔ مصیبت کا دروازہ ایک ہی بار استعمال ہونے والی ڈسپوزایبل پلاسٹک مصنوعات (بیگ، کپ، پانی کی بوتل پیکیجنگ مٹیریل) نے کھولا۔ کیونکہ دنیا میں جتنا بھی پلاسٹک بنتا ہے اس کا نصف ایک ہی بار چند منٹ ، گھنٹے یا دن بھر کے لیے استعمال ہوتا ہے اور پھر اسے پھینک دیا جاتا ہے۔ یہ رل ضرور جاتا ہے مرتا نہیں۔ یہ پانچ سو برس تک اپنی شناخت برقرار رکھ سکتا ہے اور کاغذ کی طرح بائیو ڈی گریڈ ایبل نہیں۔چنانچہ پلاسٹک ماحولیات کا حصہ بننے کے بجائے ماحولیات کو یرغمال بنا لیتا ہے۔ یہ وہ پھندہ ہے جسے انسان نے نا صرف اپنے گلے میں ڈالا بلکہ ماﺅنٹ ایورسٹ سے بحرالکاہل کی گہری ترین کھائی ماریانا ٹرنچ کی تہہ تک پھیلا دیا۔
اس وقت دنیا میں جتنا بھی پلاسٹک موجود ہے اس کا نصف سن دو ہزار کے بعد تیار ہوا ہے۔انیس سو پچاس کی دہائی میں تئیس لاکھ ٹن پلاسٹک تیار ہوا تھا۔آج سالانہ پچاس کروڑ ٹن تیار ہو رہا ہے۔اور اگر اس کا ہاتھ نہ پکڑا گیا تو دو ہزار پچاس تک اس کی سالانہ پیداوار سو کروڑ ٹن تک پہنچ جائے گی۔ ہر سال اسی لاکھ سے ایک کروڑ ٹن پلاسٹک ، دریاﺅں ، بحری ٹرانسپورٹ اور انسانوں کے توسط سے سمندر میں اتر جاتا ہے۔زیادہ تر پلاسٹک ساحل کے آس پاس ہی تیرتا رہتا ہے۔ لیکن ایک بڑی مقدار بحری کرنٹس کے ذریعے کرہِ ارض کے دوسری جانب تک پہنچ سکتی ہے۔ مثلاً جنوبی بحرالکاہل کے وسط میں چلی اور نیوزی لینڈ سے مساوی فاصلے پر واقع جزیرہ ہنڈرسن کے پانیوں میں روس ، چین ، امریکا ، جاپان اور بیسیوں دیگر ممالک کا بنا ہوا پلاسٹک تیرتا ہوا پایا گیا۔
جب پلاسٹک سمندر میں اتر جاتا ہے تو لہریں ، سورج کی گرمی اور ہوا اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے (ایک انچ کے پانچویں حصے کے برابر ) کر دیتی ہے اور پھر یہ مائیکرو پلاسٹک سمندری حیات کے پیٹ میں چلا جاتا ہے اور وہاں سے دوبارہ ہمارے دستر خوان پر پہنچ کے جسم میں داخل ہو کر بیسیوں طرح کے سرطان اور معدے ، جگر ، آنت ، دل اور پھیپھڑوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ جو پلاسٹک آپ کو سطحِ آب پر تیرتا نظر آتا ہے یہ محض اس پلاسٹک کا ایک فیصد ہے جو زیرِ آب تہہ تک پہنچ چکا ہے اور بحری جانور اسے خوراک سمجھ کے نگل رہے ہیں۔مائیکرو پلاسٹک کے مزید ٹکڑے مائیکرو فائبر کی شکل میں لگ بھگ ہر طرح کی بحری مخلوق کے معدوں میں پہنچ جاتے ہیں اور پانی اور ہوا کے ذریعے ہمارے کھانوں اور سانس کی نالیوں میں بھی اتر جاتے ہیں۔
زمین پر رہنے والے سات سو سے زائد اقسام کے چرند پرند یہ مائیکرو فائبر کھا لیتے ہیں۔آپ نے مچھلیوں ، کچھوﺅں ، آکٹوپس اور بحری پرندوں کی لاتعداد تصاویر دیکھی ہوں گی۔جن کے منہ پر پلاسٹک لپٹنے سے دم گھٹ جاتا ہے۔ پلاسٹک کے ناکارہ جال گچھوں کی شکل میں جانوروں کی گردن اور منہ سے لپٹ کر ان کی موت کا سبب بن جاتے ہیں۔
کیا دریاﺅں اور سمندروں کو پلاسٹک سے پاک کیا جا سکتا ہے ؟ جب تک پلاسٹک مصنوعات ساحل کے قریب تیرتی رہتی ہیں اور ٹوٹ کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں نہیں بدل جاتیں تب تک ان کی صفائی ممکن ہے۔لیکن مائیکرو پلاسٹک کے لگ بھگ پچاس سے پچھتر کھرب ٹکڑوں سے سمندر کی نجات اب تقریباً ناممکن ہے۔جب تک کچرے کی ری سائیکلنگ یا طریقے سے ٹھکانے لگانے کا موثر عالمگیر نظام نہیں بن جاتا تب تک کوئی امید نہ رکھی جائے۔ویسے بھی انسان پہلے اپنی تباہی کا انتظام اور پھر اس تباہی کا توڑ کرنے کا نظام وضع کرنے میں تمام جانوروں سے کوسوں آگے ہے۔
دو ہزار اکیس میں سائنس ایڈوانسز ریسرچ کے تحت جاری ہونے والی تحقیقی رپورٹ سے پتہ چلا کہ سمندر کی اسی فیصد آلودگی کی ذمے دار پلاسٹک مصنوعات ہیں۔ ستر فیصد سے زائد پلاسٹک آلودگی کے ذمے دار پانچ ایشیائی ممالک ہیں۔ان میں فلپینز کا حصہ ساڑھے چھتیس فیصد، بھارت کا تیرہ فیصد ، ملائشیا اور چین کا علی الترتیب ساڑھے سات فیصد اور انڈونیشیا کا حصہ چھ فیصد ہے۔
پاکستان کے کسی نہ کسی صوبے میں پلاسٹک کی تھیلیوں پر ہر برس دو برس میں پابندی کا اعلان ہو جاتا ہے اور پھر زور دیا جاتا ہے کہ شاپنگ کے لیے کاغذ کی تھیلیوں کا استعمال کیا جائے جو ضایع ہونے کی صلاحیت ( بائیو ڈی گریڈ ایبل ) رکھتے ہیں۔مگر اتنی ہی آلودگی ڈسپوز ایبل پانی کی بوتلیں بھی پھیلا رہی ہیں۔ان پر کسی پابندی کی بات کرتے ہوئے اس لیے پر جلتے ہیں کیونکہ ان بوتلوں کو بارسوخ بین الاقوامی و مقامی کمپنیاں بنا رہی ہیں۔ایک دوکان دار پلاسٹک شاپنگ بیگ پابندی کے باوجود استعمال کرے تو یہ جرم ہے۔ یہی شاپنگ بیگ بنانا اور دوکان دار کو سپلائی یا فروخت کرنا جرم نہیں۔
عجب ہے تیری سیاست عجب ہے تیرا نظام۔
(بشکریہ روزنامہ ایکسپریس)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ