اسلم اعوان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایران اور افغانستان کے مابین دریائے ہلمند کے تنازع پر سرحدی جھڑپوں کے بعد بات چیت کے ذریعے مسئلے کا حل نکلنے کی مساعی بارآور ہو سکے گی؟ ایران اور افغانستان کے درمیان کوئی بڑا علاقائی تنازع تو موجود نہیں لیکن دریائے ہلمند کے پانی کی تقسیم پہ تنازع باہمی تعلقات کو متاثر کر سکتا ہے‘ کیونکہ فریقین خشک سالی‘ موسمیاتی تبدیلی اور پانی کے مناسب انتظام کے فقدان کا شکار ہیں؛چنانچہ پانی ذخیرہ کرنے کے بہتر انتظام کے بغیر بحرانوں پہ قابو پانا ممکن نہیں گا‘ اور تعلقات میں بہتری لانے کیلئے موجودہ معاہدات کی ازسر نو وضاحت بھی ضروری ہو گی۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ حسین عبداللہیاں نے کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں مثبت پیش رفت ہوئی‘افغان نائب وزیرخارجہ امیر متقی نے بھی کہاکہ طالبان1973ء کے معاہدہ کا احترام کریں گے۔محتاط اندازے کے مطابق سالانہ 75 ارب کیوبک میٹر بارشوں کی وجہ سے افغانستان پانی کے اعتبار سے دنیا کا خود کفیل ملک ہے لیکن پانی ذخیرہ کرنے کی کم ترین صلاحیت نے ہمیشہ اسے مسائل سے دوچار رکھا۔اس کے بڑے دریائی طاسوں‘ جیسے آمو‘ ہلمند‘ ہریرود مرغاب اور دریائے کابل کا زیادہ تر پانی پڑوسی ممالک ایران‘ پاکستان‘ ازبکستان اور ترکمانستان کی طرف بہہ جاتا ہے۔ آبی وسائل کے بنیادی ڈھانچے کی عدم موجودگی کے علاوہ زرعی پیداوار پر موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات گندم سمیت دیگر اجناس کے حصول اور بجلی کی ضروریات پورا کرنے کی خاطر انہیں پڑوسی ممالک پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔افغانستان کے چند بڑے دریاؤں میں‘ایران کی جانب بہنے والے دریائے ہلمندکو افغانوں کی لائف لائن سمجھا جاتا ہے‘ اس کا طاس ملک کے کم و بیش 40 فیصد رقبہ پر محیط ہے۔
گزشتہ دنوں ایران اور طالبان کے درمیان کشیدگی اس وقت بڑھ گئی جب ایران نے افغانستان کی طالبان حکومت پر ایران کی طرف پانی کے بہاؤ کو محدود کرنے کا الزام لگایا‘جس کے بعد شروع ہونے والی سرحدی جھڑپوں میں ایرانی سکیورٹی فورسز کے دو جوان اور ایک طالبان سپاہی مارا گیا۔ 1973ء میں‘ ایران اور افغانستان نے پانی کے معاہدے پر دستخط کیے تھے‘ جس میں طے پایا کہ دریائے ہلمند سے ایران کو ہر سال 850 ملین کیوبک میٹر پانی فراہم کیا جائے گا۔ایران کا کہنا ہے کہ معاہدے کے باوجود انہیں اپنے حصے کا صرف چار فیصد پانی ملا۔کوہ ہندو کش سے نکلنے والا دریائے ہلمند‘ افغانستان کا سب سے طویل‘ تقریباً 1,150 کلومیٹر لمبا دریا ہے اور ملک کے جنوبی اور جنوب مغربی صوبوں کیلئے آبپاشی کے وسائل مہیا کرنے کا اہم وسیلہ ہے۔یہی دریا ایران کے سیستان اور بلوچستان صوبوں میں واقع ہامون جھیل تک پہنچتا ہے‘ جو دونوں ایرانی صوبوں کا اہم آبی ذریعہ ہے‘ تاہم مسلسل خشک سالی‘ موسمیاتی تبدیلیوں اور پانی کے مناسب انتظام کی کمی نے دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان سرحدی پانیوں پر تناؤ پیدا کر دیا۔اس پس منظر میں ایران اور افغانستان دریائے ہلمند کے آبی وسائل کی تقسیم کے حوالے سے طویل عرصے سے تنازعات میں الجھے چلے آ رہے ہیں۔ہامون‘ جو کبھی ایران میں میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل سمجھی جاتی تھی‘کوگردش ایام نے بے پناہ نقصان پہنچایا۔ خشک سالی کے علاوہ ڈیموں اور پانی کو کنٹرول کرنے کے اثرات جیسے عوامل نے جھیل کو خشک کرکے ملحقہ ایریا کیلئے شدید ماحولیاتی اور اقتصادی مضمرات پیدا کر دیے۔دریائی پانی کی تقسیم کو منظم کرنے کیلئے‘ ایران اور افغانستان نے 1973ء میں جس معاہدے پر دستخط کئے تھے‘ بوجوہ اُس پر عمل نہ ہو سکا‘ جس سے تناؤ پیدا ہوتا گیا تاہم آبی تنازع کے پائیدار حل کیلئے دونوں ممالک کے حکام اور ماہرین کے درمیان قریبی تعاون اور معلومات کے تبادلے کی کوششیں جاری ہیں کیونکہ دریائے ہلمند افغانستان اور ایران کے درمیان پانی کے حقوق اور کمال خان ڈیم کی تعمیر پر بڑھتے ہوئے تنازع کا محور بن رہا تھا۔ ایرانی حکومت کا مؤقف ہے کہ ہلمند پر ڈیم کی تعمیر ماحولیاتی نقصان کا باعث بنے گی‘ خاص طور پر افغانستان کی سرحد سے متصل ایران کے جنوب مشرقی علاقے زیادہ متاثر ہوں گے۔ دوسری جانب افغان حکومت کا مؤقف ہے کہ اس کے ڈیموں کی تعمیر کا مقصد ایران کے ساتھ 1973ء کے پانی کے معاہدے کو مدنظر رکھتے ہوئے پانی کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اس معاہدے پر دستخط کے بعد سے‘ افغانستان اس کے کامیاب نفاذ کی نگرانی کرنے سے قاصر ہونے کی وجہ سے کئی دہائیوں سے تنازعات کا سامنا کرتا رہا ہے‘ خاص طور پر حالیہ برسوں میں‘ معاہدے کے باوجود‘پانی کے حقوق کے حوالے سے تنازع کافی بڑھ گیا‘جسے بھارتی اور عالمی میڈیا نے ہوا دے کر زیادہ پیچیدہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ایران کااصرار ہے کہ دریائے ہلمند پر پانی کے بہاؤ کو محدود کرنے سے ہامون ویٹ لینڈز کے مزید خشک ہونے کا خدشہ ہے لیکن افغان حکام کہتے ہیں کہ پانی کے بہاؤ میں کمی کی ایک وجہ افغانستان میں گزشتہ دہائیوں کے دوران آبی ذخائر میں جمع ہونے والی سلٹ ہے جو پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو کم کرتی ہے۔ دریائے ہلمند کے ہائیڈرولوجیکل جائزے کے مطابق اس علاقہ میں 1983ء‘2012ء کی خشک سالی کے باوجود 1943ء اور 2012ء کے درمیان اعداد و شمار پر مبنی بالائی ہلمند دریا کے سالانہ اوسط بہاؤ میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ دریں اثنا‘ پانی کے معاہدے کے مطابق‘افغانستان اس بات پہ قائم ہے کہ وہ ایران کو دریائے ہلمند سے پانی کے حق سے مکمل یا جزوی طور پر محروم کرنے کا کوئی اقدام نہیں کرے گا مگر وہ کہتے ہیں کہ ایران کو معاہدے پر دستخط کے بعد سے ہر سال متعین حق (26 مکعب میٹر فی سیکنڈ) سے 40 فیصد زیادہ پانی ملا‘ایران کہتا ہے کہ اب کمال خان ڈیم کی تعمیر‘ جو تکمیل کے قریب ہے‘ ایرانی علاقوں کو پانی کی فراہمی متاثر کر سکتی ہے‘ تاہم افغان حکام نے ڈیم کی تعمیر پر ایران کے خدشات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ 1970ء کی دہائی میں ایران نے پانی کے مزید حقوق خریدنے کی ضمانت کے بدلے افغانستان کو کمال خان ڈیم کی تعمیر کیلئے فنڈنگ کی پیشکش بھی کی تھی‘ چونکہ 1973ء کے معاہدے میں‘ ایران اضافی بہاؤ کیلئے پانی کی خریداری کے حقوق کی شق شامل کرانے میں ناکام رہا تھا۔ معاہدے کے آرٹیکل پانچ کے مطابق ایران اضافی پانی کی مقدار کا دعویٰ نہیں کرے گا۔ دریا میں پانی کے بہاؤ اور تقسیم کی نشاندہی 1973ء کے معاہدے میں ماہانہ بنیادوں پر کی گئی‘ عام طور پر موسم خزاں میں دریا کا اخراج کم ہوتا ہے‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ کم اخراج کے دوران معاہدے میں ایران کے سیراب علاقوں کو پانی کی فراہمی کی ضمانت نہیں دی گئی۔ دوسری طرف 1980ء کی دہائی سے‘ ایران زیادہ پانی ذخیرہ کرنے کیلئے چاہ نیمہ کے ذخائر تعمیر کر رہا ہے‘پانی کے ناقص انتظام اور آبپاشی کے بنیادی ڈھانچے کے مؤثر نظام کی کمی بعض صورتوں میں مجموعی طور پر ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو معاہدے میں طے حق سے تقریباً دو گنا کر دے گی مگر ایران کے چاہ نیمہ کے آبی ذخائر میں دستیاب پانی اب بھی مقامی آبادیوں کی طلب کو پورا نہیں کر پا رہا؛ چنانچہ یہ تنازع انتہائی خشک سالوں کے دوران مزید بڑھ سکتا ہے۔ایران کی شکایات کی ایک وجہ آبادی میں اضافے اور پانی کی ترسیل کے مؤثر نظام کی کمی کے باعث مانگ میں اضافہ بھی ہے‘ اس لیے دریائے ہلمند کے طاس میں افغانستان کی ترقیاتی سرگرمیوں کو دریا کے اخراج کو متناسب رکھنا اور ایران کے حقوق و ماحولیاتی پائیداری کے اصولوں کا احترام کرنا پڑے گا۔ بہرحال پڑوسی ممالک کو پانی پر ضروری تعاون کیلئے کھلے اور فعال رابطے کا طریقہ کار جلد قائم کر لینا چاہیے بصورت دیگر دونوں طرف کی ترقیاتی پیش رفت تعلقات کو مزید خراب کر سکتی ہے۔ بین الاقوامی آبی قانون کے مطابق افغانستان‘ ایرانیوں کو پانی تک رسائی کے حق سے محروم نہیں کر سکتا‘ تاہم ایران کو بھی چاہیے کہ وہ پائیدار امن اور سماجی و اقتصادی ترقی میں اپنا حصہ ڈال کر افغانستان کی مدد کرے۔
یہ بھی پڑھیے:
کشمیریوں کا مستقبل۔۔۔اسلم اعوان
اپوزیشن جماعتوں کی آزمائش۔۔۔اسلم اعوان
پیراڈائم شفٹ میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟۔۔اسلم اعوان
افغانستان کا بحران عالمی ایشو نہیں رہا۔۔۔اسلم اعوان
عورتوں میں ہم جنس پرستی پر یہ مشہور کہانی لکھنے والی عصمت چغتائی۔۔۔اسلم ملک
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ