وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اعداد و شمار کی شعبدے بازی اور تکنیکی اصطلاحات کے گھنے جنگل میں گھسے بغیر یہ سمجھنا ہو کہ ہماری معاشی چادر کبھی بھی اتنی بڑی کیوں نہیں ہو سکتی کہ سر اور پاﺅں بیک وقت ڈھانپے جا سکیں تو اس کا جواب بس ایک لفظ میں پوشیدہ ہے ” آبادی۔“امیر ممالک کم شرح پیدائش کے سبب پریشان ہیں اور ہم جیسے ممالک کا مسئلہ یہ ہے کہ کھانے والے منہ اور روزگار کے متلاشی دستیاب وسائل سے کہیں زیادہ ہیں اور وسائل روز بروز تقسیم در تقسیم ہونے کے سبب کم سے کم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
ویسے تو ہمیں آبادی کا کثیر جہتی بحران اکثر یاد نہیں آتا اور جب باہر سے ہماری خدمات کے عوض ڈالرز آرہے ہوں تب تو بالکل یاد نہیں آتا۔ جیسے ہی ڈالر آنے بند ہوتے ہیں تو اچانک اوپر تلے اک شور برپا ہو جاتا ہے کہ ہم کتنی بھی آمدنی و شرح پیداوار بڑھا لیں جب تک آبادی کے مسئلے کو کنٹرول نہیں کریں گے کچھ بھی نہ ہو گا۔ہم بھلے زرِ مبادلہ بچانے کے لیے سامانِ تعیش کی درآمد ترک کردیں ، ٹیکس وصولی کا نیٹ دگنا کر لیں ، بجلی بچانے کے لیے رات آٹھ بجے کاروبار بند کروا دیں ، اندرونی و بیرونی سرمایہ کاروں کو کسی نہ کسی طور راغب کر لیں ، موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والی تباہ کاریوں سے نپٹنے کے لیے بیرونی ممالک کو خود پر مالی ترس کھانے پر مجبور کر دیں۔بھلے گندم اور چاول کی پیداوار دگنی کر لیں ، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسے فلاحی منصوبوں کا بجٹ دگنا کر لیں۔صحت اور تعلیم کی سہولتیں سہ گنا بڑھا لیں۔ کچھ نہ ہوگا جب تک آبادی پر قابو نہ ہو گا۔
وفاق و صوبوں کے مشترکہ پالیسی ساز آئینی ادارے قومی اقتصادی کونسل ( این ای سی ) کے اجلاس میں بھی یہ کھل کے اعتراف کیا گیا کہ ترقیاتی بجٹ میں چوبیس فیصد اضافہ اپنی جگہ مگر افراطِ زر اور مہنگائی کی شرح اور ڈالر کے روبرو روپے کی ناقدری کا مطلب یہ ہے کہ چوبیس فیصد اضافے کے باوجود ترقیاتی بجٹ میں عملی اضافہ منفی چودہ فیصد کے برابر ہے۔ بھلے سالانہ اقتصادی ترقی کی شرح آپ ساڑھے تین فیصد مقرر کر دیں۔بھلے تمام انڈیکیٹرز بھی درست رہیں اور قدرتی آفات بھی اس برس اپنی آمد ملتوی کر دیں۔ تب کہیں جا کے عالمی بینک کا اندازہ ہے کہ پاکستان کی معیشت اگلے مالی سال میں بمشکل دو فیصد ترقی کر پائے گی۔اور اگر حالات آج جیسے ہی رہے تو بمشکل اعشاریہ صفر چھ فیصد ترقی ہو پائے گی۔ حکومتِ پاکستان نے سالِ گزشتہ میں بھی ترقی کا ہدف پانچ فیصد مقرر کیا تھا مگر سیاسی بے یقینی و قدرتی آفات کے جھٹکے سے عملاً سالِ گزشتہ شرحِ نمو صفر اعشاریہ انتیس فیصد پر آ کے اٹک گئی۔پھر بھی فرض کر لیتے ہیں کہ اگلے سال ترقی میں اضافے کا جو سرکاری ہدف ( ساڑھے تین فیصد ) رکھا گیا ہے وہ پورا ہو جائے گا۔تو کیا ہمیں خوش ہونا چاہیے ؟ شاید نہیں۔کیونکہ عین اگلے ایک برس کے دوران آبادی میں بھی دو فیصد اضافہ ہو چکا ہوگا۔یعنی پاکستان میں خواتین کی تولیدی شرحِ زرخیزی تین اعشاریہ چھ فیصد رہے گی۔یہ شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ گزشتہ پندرہ برس کی طرح اگلی ایک دہائی میں بھی تولیدی نمو کی یہ شرح برقرار رہتی ہے تو پاکستان کی موجودہ (چوبیس کروڑ ) آبادی اگلے دس برس میں چونتیس کروڑ تک پہنچ جائے گی۔اس کا مطلب ہے کہ اگلے ایک عشرے میں پاکستان میں جنوبی کوریا کی موجودہ آبادی کے برابر نئی آبادی سما جائے گی۔جب کہ انسانی ترقی کے اشاریے میں اس وقت جنوبی کوریا چوٹی کے بیس ممالک میں اور پاکستان ایک سو بتیسویں نمبر پر آتا ہے۔
اس کا یہ مطلب ہوا کہ اب سے دس برس بعد بھی پاکستان میں غربت کی شرح چالیس فیصد کے آس پاس ہی رہے گی۔ یعنی ہم آج کی طرح دائرے میں ہی سفر کرتے رہیں گے۔اگر ہم اس منحوس چکر سے نکلنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں عارضی امدادی ٹیکوں اور سود کی ادائی کے لیے مزید قرضوں کے پین کلرز لینے کی عادت سے نجات حاصل کر کے شرح نمو کم ازکم اگلے ایک عشرے تک پانچ تا چھ فیصد سالانہ تک برقرار رکھنا پڑے گی۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کچھ بھی کر کے تولیدی صلاحیت کی شرح اوسطاً تین اعشاریہ چھ بچے فی جوڑے سے کم کر کے دو بچے فی جوڑے تک گھٹانا پڑے گی۔
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں پہلا ملک تھا جس نے انیس سو ساٹھ کے عشرے میں خاندانی منصوبہ بندی کا پروگرام شروع کیا اور انیس سو ستتر تک اس پروگرام نے کسی حد تک آبادی کے کنٹرول میں موثر کردار بھی ادا کیا۔ پھر ہم اس الجھن میں پھنسا دیے گئے کہ خاندانی منصوبہ بندی اسلامی ہے یا غیر اسلامی۔دوسری جانب دو دیگر مسلمان ممالک یعنی بنگلہ دیش اور ایران اپنے وسائل اور آبادی کی ضرب و تقسیم کر کے اس نتیجے تک پہنچ گئے کہ سماج معاشی طور پر مستحکم تب ہی ہوگا جب آبادی میں اضافے کی شرح بھی اس استحکام کا ساتھ دے۔
چنانچہ اسلامی جمہوریہ ایران اور عوامی جمہوریہ بنگلہ دیش نے قومی صحت و ترقی کی ایک بنیادی شرط کے طور پر خاندانی منصوبہ بندی کو بھی اپنے معاشی منشور کا لازمی حصہ بنا لیا اور آج دو عشروں کے بعد وہ اس محنت کا پھل سمیٹ رہے ہیں۔دنیا میں جہاں جہاں آبادی میں اضافے کو آپے میں لایا گیا۔وہاں یہ کارِ خیر فروغِ تعلیم کے سبب ہی ممکن ہو پایا۔پڑھی لکھی ماﺅں کو دو بچوں کی صحت مند پرورش پر قائل کرنا نسبتاً آسان ہے اور ناخواندہ مائیں اس بابت اپنی رائے ظاہر کرنے یا اپنے شوہروں کو آگہی دینے سے آج بھی ڈرتی ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ اب ایران اور بنگلہ دیش میں خواندہ خواتین کی تعداد ناخواندہ سے زیادہ ہے۔
پاکستان کو بھی بس یہی کرنا ہے کہ تعلیمی نصاب میں اگرچہ مگرچہ کے بغیر آبادی منصوبہ بندی کی اہمیت اجاگر کرنی ہے۔ لڑکیوں میں تعلیم کا تناسب بڑھانا ہے۔یہ کام آج سے شروع کر دیا جائے تو دس برس بعد آبادی میں بے تحاشا اضافے کی لہر کا رخ مڑنا شروع ہو جائے گا۔ورنہ جہاں اونٹ کی دیگر کلیں سیدھی نہیں وہاں ایک اور سہی۔
(بشکریہ روزنامہ ایکسپریس)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ