نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کراچی کیا چاہتا ہے؟ر ۔۔۔|| عادل علی

پہلی بار کراچی کی شہری سیاست میں پیپلزپارٹی کو اقتدار ملنے کی صدائوں سے ہوا گونج رہی ہے۔ اس سے قبل پیپلزپارٹی کے ایڈمنسٹریٹر مختصر دورانیے میں اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کر چکے ہیں جس میں انفرااسٹرکچر سمیت شہر میں سیر و تفریح اور کھیل کے میدان میں بھی اقدامات لیے گئے۔ گو کہ کراچی کی عوام کے لیے اتنا کافی نہیں ہے۔

عادل علی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کراچی انصاف چاہتا ہے! جی ہاں کراچی انصاف چاہتا ہے۔

وہ شہر جو ملک بھر سے آئے ہوئے انسانوں کی قسمتیں بدلنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہوتا ہے وہ شومئی قسمت اپنی بدنصیبی پہ ڈیڑھ دہائی سے نوحہ کناں ہے۔

اختیارات نہ ہونے کا شکوہ سن 2008 سے جاری ہے کہ صوبے میں حکومت ہماری نہیں ہے ہم تک وسائل و اختیار منتقل نہیں کیے جا رہے اس لیے ہم شہر کے لیے کام نہیں کر پا رہے۔

شہر قائد میں ایم کیو ایم کو بلاشرکت غیرے اقتدار حاصل رہا مگر آج دہائیاں گزرنے کے بعد بھی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ شہر بھر سے قومی و صوبائی ایوانوں میں نمائندگی ہونے کے باوجود نائن زیرو کے آس پاس کی گلیاں جو کہ کبھی عوام الناس کے لیے بند ہوا کرتی تھیں اب تک خستہ حالت میں ہیں۔

جنرل مشرف کے دور میں ناظم شہر مصطفیٰ کمال نے شہر میں انڈر پاسز اور فلائی اوورز پر ڈھیروں داد سمیٹی مگر شہر کا ڈھانچہ تباہ ہوتا چلا گیا۔

بات اگر شہر کے انفراسٹرکچر کی نکل ہی چلی ہے تو آئیے ماضی کو تھوڑا مزید ٹٹولتے ہیں۔

اب ہم موجود ہیں جماعت اسلامى کے شہری دور اقتدار میں اور نعمت الله خان صاحب شہر کے ناظم ہیں۔

جماعت اسلامی نے بنیادی طور پر شہر کے انفراسٹرکچر کو تہس نہس کیا۔ ہائی رائز بلڈنگز کے سلسلے کے آغاز سمیت ہر گلی محلے میں گھروں کو کمشلائز کرنا ہر مکان کے نیچے تین دوکانین اور اوپر دو پورشن کرائے پر دینے کا سلسہ عام ہوا۔ ناظم وقت نے سیاسی محاذ جیتنے کے چکر میں یہ نہ سوچا کہ ایک سوسائٹی میں اگر چار سو مکان ہیں تو سہولیات بھی اسی تناسب سے ہونگی اور اگر اسی سوسائٹی میں پورشنز و دکانیں بھی الاو کردیں تو پھر سڑکوں پر آمد رفت کا حجم نکاسی آب کے معاملات بجلی پانی گیس کی ضروریات جو کہ پلان میں شامل محض چار سو مکانوں کے لیے ہیں انہیں اب زیر استعمال اس سے دگنی تعداد میں لوگ لائیں گے تو سوسائٹی کا حال کیا ہوگا؟

یہ ایک بنیادی غلطی جو شہر کے ڈھانچے کی دشمن ثابت ہوئی جماعت اسلامی کے دور میں سرزد ہوئی۔

ایم کیو ایم شہری نظام پر حکومت پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں بھی کرتی رہی اور نون لیگ کے بھی مگر اختیارات نہ ہونے کا دکھڑا ہی عوام کے حصے میں آتا رہا جبکہ گر شہری حکومت کے پاس اختیار نہیں بھی تھا تو ایم کیو ایم کے پاس صوبائی و قومی اسمبلی میں واضح نمائندگی ہونے کے سبب اراکین ایوان کو ملنے والے ترقیاتی فنڈز سے بھی کوئی خاطر خواہ کارکردگی نظر نہیں آتی۔

شہر کراچی جو چندہ لینے والوں سے لے کر جرائم پیشہ لوگوں تک کو مایوس نہیں کرتا اسے بار بار اپنی ملکیت جتانے والوں کے ہاتھوں مایوسی کا سامنا رہا ہے۔

سونے پہ سہاگہ تحریک انصاف نے بھی کراچی کے لیے سوائے اعلانات کے اور کچھ نہ کیا۔

پہلی بار کراچی کی شہری سیاست میں پیپلزپارٹی کو اقتدار ملنے کی صدائوں سے ہوا گونج رہی ہے۔ اس سے قبل پیپلزپارٹی کے ایڈمنسٹریٹر مختصر دورانیے میں اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کر چکے ہیں جس میں انفرااسٹرکچر سمیت شہر میں سیر و تفریح اور کھیل کے میدان میں بھی اقدامات لیے گئے۔ گو کہ کراچی کی عوام کے لیے اتنا کافی نہیں ہے۔

یہ شہر سب کا وارث ہے اور بدقسمتی سے شہر کو اپنے حقیقی ورثاء کی تلاش ہے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین کے انتخاب پر مرتضیٰ وہاب کو بطور میئر کراچی نامزد کیا گیا ہے ۔ شہری امید کرتے ہیں کہ اس دفع شہری و صوبائی حکومت کے مابین اختیارات کا جھگڑا نہ ہوگا بلکہ صوبائی حکومت اپنے فخریہ نامزد کردہ میئر کو کامیاب بنانے کے لیے شہر کی خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑے گی۔

یہ بھی پڑھیے

About The Author