ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”کبھی ان شادی شدہ عورتوں کے بارے میں بھی لکھیے جن کی شادی میں جنسی تعلق کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔
کیوں کرتے ہیں ایسے مرد شادی؟ اپنی کمزوری کو جانتے بوجھتے ہوئے ایک عورت کو اپنی زندگی میں شامل کرنا اور پھر یہ سوچنا کہ ٹھیک تو ہے سب کچھ۔ کیا فرق پڑتا ہے اگر جنسی تعلق بہت پرجوش نہیں۔ بھلا عورت کو کیا فرق پڑتا ہے؟
وہ کیوں نہیں سمجھتے کہ فرق پڑتا ہے عورتوں کو۔ بیوہ نہ ہوتے ہوئے بھی بیوگی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور عورتیں۔ شوہر کے انکار پر جنسی خواہش کو قتل کرتی ہوئی عورتیں۔ عزت نفس اور ایمان کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنی ضرورت کے لیے کسی اور رستے پر نہ جانے والی عورتیں!
بہت سی راتیں ایسی بھی آتی ہیں جس میں وہ اپنے آپ کو سمجھا بجھا کر شوہر سے بھیک نہیں مانگتیں۔ مگر کبھی کبھار اپنے سے ہار کر شوہر کی طرف دیکھیں بھی اور سرد مہری کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے تو وہ کیسے کرچی کرچی ہوتی ہیں۔ کوئی نہیں جانتا۔
کیسے وہ ہر رات اپنے آپ کو یہ بہلا کر سلاتی ہیں کہ کہیں کوئی بیوہ بھی تو ایسے ہی اسی طرح اپنی آزمائش سے جنگ کرتے ہوئے سو گئی ہو گی۔ گناہ کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے، خدا کا خوف آڑے آتا ہے ورنہ اپنی پیاس بجھانے کے مواقع ہزار۔
ایسے شوہر کو چھوڑنا بھی مشکل کہ میکہ اجازت نہیں دیتا۔ پھر کیا کریں وہ سب؟ کیسے اپنی خواہش کو ہمیشہ کی نیند سلائیں؟
کیا کہیں ہے ایسی کوئی گولی؟ کوئی آپریشن؟ دماغ کا؟ اعصاب کا؟ ضرورت کا؟ ویجائنا کا؟ خواہش کا؟ جو عورت کے اندر سے سب ختم کر دے۔
آپ سینئر گائناکالوجسٹ ہیں، آپ تو جانتی ہوں گی کوئی حل؟ کیا آپ کے پاس کوئی ایسا علاج ہے؟ کیا کر سکتی ہیں عورت کا ایسا آپریشن جو خواہش کو جڑ سے اکھاڑ دے؟
علاج تو ایسی عورت کا ہی ہونا چاہیے نا جس کا شوہر یہ ماننے کو تیار ہی نہ ہو کہ کوئی مسئلہ ہے؟ اگر مسئلہ ہوتا تو شادی کے آغاز میں دو بچے کیسے ہو جاتے؟ کبھی کبھار کا جنسی تعلق دو بچوں کی صورت میں اس مرد کو ایک ایسے چبوترے پر کھڑا کر دیتا ہے جہاں وہ اپنی کمزوری کو کمزوری ہی نہیں سمجھتا۔
پلیز اس درد کے بارے میں لکھیے جو عورت محسوس کرتی ہے۔ اس کمی کو بیان کیجیے جو عورت کو نیم جاں کرتی ہے۔ جب اسے کوئی حل نظر نہیں آتا، بہتری کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی۔ مہینے گزر جاتے ہیں ایک دوسرے کی قربت کو ترستے۔ لگتا ہے عمر یونہی عمر گزر جائے گی۔
دعا ہے کہ میں جلد از جلد بوڑھی ہو جاؤں، میرا مینوپاز شروع ہو اور میرا جسم کا عذاب ختم ہو۔
( میری عمر بتیس برس اور شادی کو سات برس ہو گئے ) ”
دو عورتوں کے لکھے ہوئے دو خط۔ ایک آپ نے پڑھ لیا۔ دوسرا بھی پڑھ لیجیے۔
دونوں خط زندگی کا وہ رخ دکھاتے ہیں جو ہمیشہ اندھیرے میں رہتا ہے۔ ہنستے کھیلتے ساتھ رہتے عورت و مرد۔ لیکن پردے کے پیچھے کیا ہے کوئی نہیں جانتا۔
” میں پچاس سالہ عورت ہوں، مینوپاز شروع ہو چکا۔ شادی کو چوبیس برس گزر چکے۔ ایک پیچیدہ تعلق، محبت کا جس میں دور دور تک گزر نہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ میرے شوہر کو جنسی تعلق بنانے کا شوق تو ہے لیکن اہلیت زیرو۔ جب کچھ نہیں بن پڑتا تب وحشت اور بربریت کا کھیل کھیلا جاتا ہے وہ بھی ہر دوسری رات۔ مجھے حکم ملتا ہے کہ شوہر کی مدد کروں ہر ممکن و ناممکن طریقے سے۔ اس سارے عمل میں ڈھائی تین گھنٹے لگتے ہیں۔
بارہا میرا بازو Tennis elbow بن جاتا ہے جس کی مہینوں فزیو تھراپی کروانا پڑتی ہے لیکن مجھے معافی پھر بھی نہیں ملتی۔
میں روتی ہوں۔ چیختی ہوں۔ میں اس کو کاٹ دینا چاہتی ہوں۔ میں خود کو گالیاں دیتی ہوں، مرنا چاہتی ہوں۔ لیکن میری کوئی دعا کوئی التجا کام نہیں آتی۔
کیا کوئی ایسی دوا ہے جو اسے انسان بنا دے؟ اگر اس کی نارمل اہلیت بحال ہو تو شاید اس کی وحشت میں کچھ کمی ہو جائے، جس وحشت کا نشانہ میں بنتی ہوں۔ چلیے نارمل اہلیت بحال نہ بھی ہو مگر یہ سب کچھ تو نہ ہو۔
اس میں بے انتہا درد ہے۔ مجھے خود سے بو آتی ہے۔ مجھے ذلت کا احساس ہوتا ہے۔
میں اس کی ہزار بار منت کر چکی ہوں کہ وہ مجھے چھوڑ دے۔ لیکن وہ قبضے میں آئی مفت کی عورت کو کیوں رہا کرے؟ اس کے مطابق وہ سو نہیں سکتا اگر وہ اس عمل سے نہ گزرے۔ سوچیے کون اور برداشت کرے گی؟
چھوڑ سکتی نہیں کہ بچے ہیں، پڑھ رہے ہیں۔ میکے میں سپورٹ سسٹم کوئی ہے نہیں۔ یہ بھی بتا دوں کہ وہ کافی پڑھا لکھا ہے، معاشرے میں بہت نیک نام سمجھا جاتا ہے۔
بتائیے کیا کروں؟ ”
قارئین، ہم گنگ ہیں۔ کیا کہیں؟
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر