دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

: ’کیا وہ عمران خان کو مار دیں گے؟‘۔۔۔||محمد حنیف

میں نے کہا کہ مجھے واقعی نہیں پتہ لیکن آپ کے بنگلہ دیش میں کوئی سیاستدان ایسا ہے جو کرپٹ نہ ہو۔ انھوں نے کہا نہیں، میں نے کہا ہم بھی آپ کے بچھڑے ہوئے بھائی ہیں تو کوئی قدر تو مشترک ہو گی۔ وہ ہنس دیں اور کہنے لگیں مجھے کچھ سوچ سمجھ کر جواب دینا چاہیے تھا۔

محمد حنیف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ سوال مجھ سے ایک بنگلہ دیشی خاتون نے پوچھا۔ وہ ڈھاکہ میں عورتوں کے حقوق کی تنظیم چلاتی ہیں اور اس نسل سے تعلق رکھتی ہیں جنھیں متحدہ پاکستان کے زمانے سے لاہور کراچی کی کچھ اچھی باتیں یاد رہتی ہیں۔

ان کے لہجے میں کوئی تلخی نہیں تھی، تھوڑی سی فکر تھی جو بچھڑ جانے والے برے رشتے داروں کے بارے میں ہوتی ہے۔

میں نے فوراً کہا اللہ نہ کرے، آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں۔ ہم آپ کو ایسے لگتے ہیں۔ پھر مجھے اپنے جواب پر خود ہی حیرت ہوئی۔

عمران خان پر قاتلانہ حملہ ہو چکا ہے۔ وہ کئی بار خود بھی کہہ چکے ہیں کہ مجھے قتل کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔

میں خود ایک پاکستانی بزرگ سے چند دن پہلے ہی سن چکا تھا کہ عمران خان سے نمٹنے کے دو ہی طریقے ہیں یا اسے مار دو یا اسے دوبارہ وزیر اعظم بنا دو۔

وزیر اعظم ہم اس سے پہلے بھی مار چکے ہیں۔ انھوں نے بھی اپنے قتل کی پیش گوئی کی تھی۔ ذوالفقار بھٹو جب جیل میں تھے تو انھوں نے پوری کتاب لکھ ڈالی تھی جس کا اردو میں عنوان بنتا ہے ’اگر مجھے قتل کیا گیا۔۔۔‘

پیش گوئی کے باوجود عدالتی قتل ہوا۔ بینظیر بھٹو تو اپنے قتل کی سازش کرنے والوں کے نام بھی لکھ کر دے گئیں تھیں۔ کراچی میں پروین رحمان کو قتل کیا گیا۔ ہماری بہن سے زیادہ پیاری صبین محمود کا خیال تھا کہ ہم اتنے چھوٹے لوگ ہیں کہ ہمیں کوئی کیوں مارے گا۔ لیکن ان کو بھی قتل کیا گیا۔

پاکستان

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشن’بینظیر بھٹو تو اپنے قتل کی سازش کرنے والوں کے نام بھی لکھ کر دے گئیں تھیں‘

تو میں عمران خان کے بارے میں یہ کیوں کہہ رہا تھا کہ نہیں، نہیں ہم اتنے برے بھی نہیں ہیں۔ وہ بھی ایک بنگلہ دیشی خاتون سے جو سنہ 71 کا قتل عام اپنی آنکھوں سے دیکھ چکی ہیں۔

میرا خیال ہے یہ انسانی جبلت ہے کہ ہم اپنے خاندان والوں کو خود برا بھلا کہہ لیں گے لیکن کوئی اور کرے تو ہمیں غصہ آ جائے گا۔

میں نے بھی آدھی سے زیادہ عمر کراچی میں رہتے اور کراچی کو کوستے گزاری ہے لیکن جب واپس گاؤں جاتا تھا اور کوئی پوچھتا تھا کہ آپ کراچی میں کیسے رہ لیتے ہو، کراچی کے حالات کب ٹھیک ہوں گے تو میں بڑی رعونت سے کراچی کا دفاع کرنے لگتا اور کہتا کراچی کے حالات تب ٹھیک ہوں گے جب آپ باقی ملک کے حالات ٹھیک کریں گے۔

شاید اسی رویے کے ساتھ کہ ہم برے ہیں لیکن ہمیں بدنام نہ کرو، میں بنگلہ دیشی خاتون کو بتا رہا تھا کہ نہیں اللہ نہ کرے کہ عمران خان کی جان کو کوئی خطرہ ہو۔

میرا تجربہ شاید محدود ہو لیکن میں جتنے بنگلہ دیشی لوگوں سے ملا ہوں وہ شفقت سے پیش آتے ہیں۔ پرانے زخم نہیں کریدتے۔

بنگلہ دیشی خاتون نے بھی شاید میرا دل رکھنے کے لیے کہا کہ ہمارے ہاں بھی الیکشن آنے والے ہیں، بہت ڈرامے ہوں گے۔ اچھا یہ بتاؤ کہ جو عمران خان پر کرپشن کے الزامات لگ رہے ہیں کیا یہ صحیح ہیں۔

پاکستان

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشن’ہمارے ہاں عمران خان کی قیادت میں جو حقیقی آزادی کی تحریک چلی تھی وہ ایک ریڈ لائن کو پار کرتے ہی ریت کے قلعے کی طرح بیٹھ گئی‘

میں نے کہا کہ مجھے واقعی نہیں پتہ لیکن آپ کے بنگلہ دیش میں کوئی سیاستدان ایسا ہے جو کرپٹ نہ ہو۔ انھوں نے کہا نہیں، میں نے کہا ہم بھی آپ کے بچھڑے ہوئے بھائی ہیں تو کوئی قدر تو مشترک ہو گی۔ وہ ہنس دیں اور کہنے لگیں مجھے کچھ سوچ سمجھ کر جواب دینا چاہیے تھا۔

ہمارے ہاں عمران خان کی قیادت میں جو حقیقی آزادی کی تحریک چلی تھی وہ ایک ریڈ لائن کو پار کرتے ہی ریت کے قلعے کی طرح بیٹھ گئی۔ بنگلہ دیشیوں نے وہ ریڈ لائن کوئی نصف صدی پہلے عبور کر لی تھی۔ اور اب کرپشن کے تمام ہنگاموں کے باوجود جنوبی ایشیا کی مضبوط ترین معیشت شمار ہوتا ہے۔ اس کو بھی ایک زمانے میں کشکول لے کر ورلڈ بینک جانا پڑتا تھا۔

بنگلہ دیش کا سب سے طویل پل بننا تھا۔ ورلڈ بینک نے تین کھرب ڈالر سے زیادہ کا وعدہ کیا تھا پر الزام لگایا کہ بنگلہ دیشی کرپٹ ہیں اور قرضہ کینسل کر دیا۔

حسینہ واجد کی حکومت نے اپنے ذرائع سے پیشہ اکٹھا کر کے چھ کلومیٹر سے زیادہ طویل پل دریائے پرما پر بنایا۔ گذشتہ سال اس کا افتتاح ہوا۔ اس کے بعد جب حسینہ واجد کی ورلڈ بینک کے سربراہ سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے پرما پل کی ایک فریم شدہ تصویر تحفے میں پیش کی۔ شاید یہ ہی حقیقی آزادی کی ایک جھلک تھی۔

ہمارے ارد گرد ریڈ لائنز کھینچنے والے ایک ریٹائرڈ جنرل کو میں نے سانحہ مشرقی پاکستان پر تاسف کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہتے سنا تھا کہ ہم نے 1971 میں ہاتھ ہولا رکھا، اگر پوری فوجی طاقت استعمال کرتے تو دیکھتے بنگلہ دیشں کیسے آزاد ہوتا۔

لگتا ہے جو حسرتیں ڈھاکہ میں پوری نہیں ہو سکیں وہ کراچی میں جبران ناصر جیسے انسانی حقوق کے کارکنوں کو اٹھا کر پوری کی جا رہی ہیں۔

پاکستان
،تصویر کا کیپشن’جو جبران ناصر کے اغوا پر آواز اٹھا رہے ہیں انھیں طعنہ دیا جا رہا ہے کہ آپ نے پی ٹی آئی کے خلاف ایکشن پر آواز کیوں نہیں اٹھائی‘

اور جو جبران ناصر کے اغوا پر آواز اٹھا رہے ہیں انھیں طعنہ دیا جا رہا ہے کہ آپ نے پی ٹی آئی کے خلاف ایکشن پر آواز کیوں نہیں اٹھائی۔ اس سے پہلے پی ٹی آئی والوں سے شکوہ رہتا تھا کہ انھوں نے بلوچ مسنگ پرسنز پر آواز کیوں نہیں اٹھائی۔ پیچھے چلتے جائیں تو شاید یہ بات 1971 تک پہنچ جائے اور پوچھا جائے اس وقت کس نے آواز اٹھانی تھی۔

حقیقی آزادی کے اس سفر کے بارے میں ایک دفعہ ایک بنگلہ دیشی بزرگ نے میٹھا سا طعنہ دیا تھا کہ یار تم لوگ آزادی کی قدر نہیں کرتے کیونکہ تمھیں گھر بیٹھے آزادی مل گئی۔ ہم نے چونکہ تم لوگوں سے لڑ کر چھینی ہے اس لیے ہم تھوڑا خیال رکھتے ہیں۔

( بشکریہ : بی بی سی اردو )

 محمد حنیف کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author