عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جناب! میں ایک سیاسی رہنما ہوں جسے تبدیلی کے دور میں ایک صفحے کی حکومت کے لیے بنایا گیا۔ میرے خدوخال کو موقع پرستی سے سجایا گیا، مجھے طاقت کے چابک سے ہانکا گیا، میری فطرت میں بدلتی حکومتوں کے ساتھ کمپرومائز کرنا بتایا گیا۔
جناب عالی، طاقت کے ایوانوں میں میری حاضری ہر دور میں رہی جبکہ میرا نظریہ مصلحت پسندی ہی رہا۔ میرا منشور چڑھتے سورج کو سلام اور میری طاقت وقت اور حالات کے مطابق بدلنے میں رہی۔ نظریہ مقبولیت اور نعرہ فریب رہا۔
جناب! میں دست بستہ معافی کا طلبگار ہوں، مجھ سے غلطی یہ ہو گئی کہ میں چند شر پسندوں کے بہکاوے میں آ گیا اور انتشار کو انقلاب سمجھ بیٹھا۔
مجھے لگا کہ حقیقی آزادی بالکل قریب اور غلامی کی زنجیریں بس ٹوٹنے ہی والی ہیں اور میں جو کئی دہائیوں سے صرف اس آس میں رہا کہ اب حقیقی آزادی ملے گی، بر س ہا برس سے جی ایچ کیو کو رپورٹ کرتے کرتے تھک گیا تھا اور عوام سے ملنے والے طعنوں سے بھی اُکتا گیا تھا کہ میں صرف بُوٹوں کے بل بوتے پر ہی سیاست کر سکتا ہوں۔
سوچا کہ نئے زمانے میں جمہوریت، شخصی آزادی، انسانی حقوق وغیرہ وغیرہ کے پہناوے میں میری برسوں کی موقع پرست سیاست کو ڈھال مل جاوے گی، بس اسی لیے میں پاجامے سے نکل گیا اور مائی باپ اب آپ کے سامنے زبان کھول دی۔
جناب! مجھے معاف کر دیں۔ میری مجال جو میں آئندہ سیکٹر انچارج کے حکم کے سامنے کبھی بولوں یا کمپنی بہادر کے سامنے کبھی زبان کھولوں؟ میری مجال جو میں کبھی آنکھ اُٹھا کر جی ایچ کیو کے اونچے برجوں کو دیکھوں یا کور کمانڈر صاحب بہادر کے گھر میں گھس بیٹھوں۔
سرکار! فدوی کو قیادت کے بہکانے پر جو انقلاب کا بخار چڑھا تھا وہ اب یکسر اُتر چکا ہے۔ میری توبہ جو میں آج کے بعد کبھی جماعت کی آستینوں میں پایا جاؤں اور اگر ایسا ہو تو کسی مرقد سے اٹھایا جاؤں۔
سرکار! آج کے بعد آپ مجھے کسی جلسے میں نہ دیکھیں گے اور نہ ہی کسی ٹاک شو پر بولتا دکھائی دوں گا، اب کبھی کسی تبدیلی کے جھانسے میں نہیں آؤں گا اور نہ ہی کسی کپتان کو رہنما بناؤں گا۔ فدوی آج کے بعد صرف اپنے کاروبار پر توجہ دے گا اور خاندان کی پرواہ کرے گا۔
جناب میری معذرت مگر جاتے جاتے ایک معافی نامہ اُن جرنیلوں سے بھی لکھوا لیں جن کی خواہشوں کی بھینٹ ہم چڑھ گئے۔ اُن غیر سیاسی مگر سیاسی رہنماؤں کو بھی جیل کی سیر کرا دیں جن کی خواہش نے آج ہمیں یہاں کھڑا کر دیا ہے۔
جناب! ایک معافی نامہ اُن کا بھی آ جاوے تو روح کو سکون مل جاوے۔ ورنہ ہم تو راندہ درگاہ ہو ہی گئے، نا اِدھر کے رہے نا اُدھر کے رہے۔ باقی جو سرکار کو ٹھیک لگے۔
دعا گو، آپ کا اپنا۔۔۔ خاکسار
عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے
یہ بھی پڑھیے:
جناب! عوام کو ہلکا نہ لیں۔۔۔عاصمہ شیرازی
’لگے رہو مُنا بھائی‘۔۔۔عاصمہ شیرازی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر