عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہواؤں کے مزاج سے آشنا بادبان رُخ موڑنے میں دیر کہاں لگاتے ہیں، نازک مزاج پرندے موسموں کی ادا کے ساتھ ہی پرواز کے لیے پر تول لیتے ہیں جبکہ وقت کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے لمحوں میں بدل جاتے ہیں۔
ایسا پہلی بار تو نہیں ہوا کہ ہر حال میں منتخب ہونے والے وقت اور حالات کے تحت نظریہ بدل لیں، نہ ہی یہ کہ طاقت کے مرکز کے زیر اثر متوقع امیدواروں کے لیے ذہن سازی کر لیں بلکہ ایسا بار بار ہوا ہے کہ موسمی پرندوں سے سجے آسمان پر اپنی پسندیدہ قناتیں تان لی جائیں اور اُڑان بھرنے کو تیار غول پنجوں کے بل آنے والے کے لیے تیار ہوں۔
نو مئی کے بعد سے لاتعلقی اور علیحدگیوں کے پیغامات ہیں جو نشریاتی چینلوں کے توسط پہنچ رہے ہیں۔ ستم ظریفی سی ستم ظریفی ہے کہ نو مئی سے قبل زمان پارک کے باہر لگی قطاروں اور ٹکٹ لینے کے لیے ہر پاپڑ بیلنے کو تیار روایتی سیاست دانوں کی لائنیں ایسے غائب ہوئی ہیں کہ جیسے سلیٹ پر محل کی دیواریں سپنج سے صاف کر دی جائیں۔
زمان پارک کے باہر میلہ سنسان گلی میں تبدیل اور اقتدار کی مسند کے لیے بے تاب خواب تاراج ہو گئے ہیں۔ محض ایک دن اور چند گھنٹوں نے بقول شخصے مقبولیت اور قبولیت کے فرق کو واضح کر دیا ہے۔
بیتے دنوں میں طاقت کے اہم کھلاڑیوں نے اقتدار کی طوالت کا جو منصوبہ ترتیب دیا تھا، اُس منصوبے کی بُنت میں کوئی جھول تھا یا نیت میں، بہرحال شطرنج کے اس کھیل کا کوئی ایک پیادہ کھلاڑی کی چال کے اُلٹ چلتا رہا کیونکہ حالات اور واقعات مختلف تھے۔
دو ہزار پینتیس تک حکمرانی کا خواب خواب ہی رہا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اقتدار میں رہنے کی ہر چال چلی گئی مگر ہر چال کو ایک نئی چال سے مات بھی دیا جاتا رہا۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں یہ کھیل جاری تھا اور ہے کہ اس دوران نو مئی رونما ہو گیا۔
جنرل باجوہ توسیع چاہتے تھے (گو اس کی تردید وہ کر چکے) مگر حالات سازشی بیانیے سے لے کر نومبر میں جنرل عاصم منیر کی تعیناتی تک جن واقعات کی نشاندہی کر رہے ہیں اُن پر کمیشن بٹھانے کی ضرورت نہیں۔
اسلام آباد کے اونچے ایوان میں ہونے والی عمران خان اور جنرل باجوہ کی کئی ایک ملاقاتیں (جنرل باجوہ صرف چند کی تصدیق کرتے ہیں) جبکہ فوری انتخابات کے حصول کے لیے اتحادی حکومت پر دباؤ، آرمی چیف کی تعیناتی رکوانے کے لیے تگ و دو، ادارے کے اہم فرد کو توسیع یقینی بنانے کی صورت عہدے سے نوازنے کی پیشکشیں، نومبر میں مارشل لا یا خانہ جنگی کے منصوبے کی ناکامی، بیرونی سازشی بیانیے کی آڑ میں اندرونی خلفشار اور نیو کلیئر ریاست کو خطرات۔
یہ سب شاید کسی بھی کمیشن کی تحقیقات میں سامنے تو نہ آسکیں گی مگر دھول چھٹ جانے کے بعد کم از کم اس بات کی نشاندہی ضروری ہے کہ کس نے ذاتی مفاد کے لیے ملک کے مفاد کو قربان کیا اور کون کس کی ضمانت لے کر عہدے کا استعمال کر رہا تھا۔
انصاف کے اعلیٰ ایوانوں سے لے کر مقتدرہ کے ٹھکانوں تک کواکب تھے کچھ اور نظر آتے تھے کچھ۔۔ اپریل 2022 کے بعد سے اب تک کے معاملات جب کبھی منظر عام پر آئے اور کچھ خاموش کردار بول پڑے تو تاریخ رقم کرنے والے محلاتی سازشوں کی تمام کہانیاں بھول جائیں گے۔
عمران خان مقبول رہیں یہ نہ رہیں، قبول ہوں یا نہ ہوں مگر نو مئی کے واقعات کی لپیٹ میں ضرور ہیں، وہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں ٹریپ ہوئے یا قدرت کے، نظام نے بدلہ لیا یا سسٹم ایکسپوز ہوا، وقت کا پہیہ اُلٹا چلا یا اُلٹا چلتے چلتے سیدھا ہوا، سیاست کے اس باب نے پاور پالیٹکس کا وہ بھیانک چہرہ دکھا دیا ہے جو سب کے لیے سبق لیے ہوئے ہے۔
عمران خان نے جو غلطیاں کیں کیا پی ڈی ایم حکومت اُنہی غلطیوں کو دُہرا رہی ہے؟ کل عمران خان کو صحافیوں پر ہونے والے مظالم کی خبر نہ تھی تو آج شہباز شریف بے خبر، کل ن لیگ کے خلاف وفاداریاں بدل رہی تھیں تو آج تحریک انصاف کے لیے۔ کل کچھ لاپتہ افراد کا مذاق اُڑانے والے آج خود شکار ہو رہے ہیں۔
گردش ایام ہے مگر خود احتسابی کا سامان بھی۔ فیصلے ذاتیات سے بالاتر ہوں تو ملک آگے بڑھتے ہیں، بڑی چالیں ناکام ہوئی ہیں اب کلائمیکس ہے کہ ڈراپ سین کیا ہو۔ امید ہے کہ اب سمت درست کر لی جائے گی۔
عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے
یہ بھی پڑھیے:
جناب! عوام کو ہلکا نہ لیں۔۔۔عاصمہ شیرازی
’لگے رہو مُنا بھائی‘۔۔۔عاصمہ شیرازی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر