دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

فلمی ہیرو کے لاٹھیاں کھاتے پرستار اور بازوئے قاتل۔۔۔|| وجاہت مسعود

پوچھا کہ آپ کی تصویر لے لوں؟ میلی سی اوڑھنی میں لپٹی بہن کو بھائی نے اپنی بانہوں کے حصار میں لے کر اس لگاوٹ سے تصویر کھنچوائی کہ بے اختیار تصویر کھینچنے والے کی آنکھ اس خیال سے بھر آئی کہ یہ بچہ نہیں جانتا کہ دوسروں کے گھروں میں برتن مانجھ کر ان دو فرشتہ صفت کھلونوں کو سکول بھیجنے والی محنت کش ماں کے ہاتھوں کی لکیروں میں جمی کالک مستقل سیاہ لکیروں میں بدل جائے گی

وجاہت مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لاہور میں وسط مئی کے اتوار کی دھوپ خاصی روشن ہے مگر ابھی اس میں وہ خنجر ایسی چبھن نہیں ہے جسے مولوی اسماعیل میرٹھی نے ’مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ‘ میں بیان کیا تھا۔ ادارتی صفحات کے لئے اتوار کو لکھے جانے والے کالموں میں از جھنگ ثم مقیم کراچی والے ایک بزرگ عموماً ابتدائی سطروں میں اس روز اپنے پوتے پوتیوں یا نواسے نواسیوں کے ساتھ خوش وقتی کے امکان کا التزام سے ذکر کرتے ہیں۔ عمر گریزاں کا حاصل ان ننھے مہمانوں کے گلال کلوں، دمکتی آنکھوں نیز لفظ اور آواز کے بیچ اظہار کی ہمکتی چہکار کی اس نعمت سے کچھ حصہ نیاز مند کو بھی ودیعت ہوا ہے لیکن مکانی فاصلوں نے خوشی کی اس کھڑکی کے پٹ بند کر رکھے ہیں۔ اس کا گلہ اس لئے روا نہیں کہ ہمیں ہر بچے میں خود اپنے بچپن کی جھلک نظر آتی ہے۔ دنیا کے سب بچے یہاں بسنے والی جوان اور بوڑھی نسلوں کا مشترکہ اثاثہ ہیں۔ بچوں کی معصومیت کو حسب نسب، ذات پات، خطے، زبان اور دوسری شناختوں سے آلودہ کرنا مناسب نہیں۔ ٹیگور کے جو برے بھلے تراجم دیکھنے کا اتفاق ہوا، ان میں سے ایک معروف جملہ یاد رہ گیا، ’جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو میں جان لیتا ہوں کہ خدا ابھی انسان سے مایوس نہیں ہوا‘ ۔ ٹیگور ہی کی ایک دعائیہ نظم کا آخری مصرع تھا، ’اے خدا، میرے وطن کو آزادی کی اس صبح میں جاگنا نصیب ہو‘ ۔

 

ٹیگور نے یہ نظم شاید بیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں لکھی تھی۔ کیا قیامت ہے کہ نصف صدی بعد بالآخر آزادی کی صبح طلوع ہوئی تو کلکتہ کی گلیاں 16 اگست 1946 کی وحشت سے لالہ گوں ہو چکی تھیں اور اگست 47 ء کے خون آشام لاہور میں بیٹھا 35 سالہ فیض احمد فیض ’صبح آزادی‘ کے عنوان سے نوحہ کناں تھا کہ ’یہ وہ سحر تو نہیں۔ ‘ ۔ انسانی تاریخ کا حقیقی المیہ دعا اور قبولیت میں فاصلہ ہی تو ہے۔ یہ فاصلہ تدبر اور تدبیر کی بجائے نعرہ اور جنون اختیار کرنے سے جنم لیتا ہے۔ انتظار حسین نے مشرقی پاکستان سے فراق کے بعد ’خواب اور تقدیر‘ کے عنوان سے ایک کٹیلا افسانہ لکھا تھا۔ اسے 71 ء کی شکست کے تناظر میں نہیں بلکہ آزادی کے بعد قومی تعمیر کا المیہ سمجھ کر پڑھنا چاہیے۔ افسانے کی اختتامی سطر ملاحظہ کیجئے۔ ’منصور بن نعمان الحدیدی افسردہ ہو کر بولا، ”مکہ ہمارا خواب ہے، تقدیر ہماری کوفہ ہے“ ۔ ‘ اس جملے کے آس پاس ہی کہیں یہ بھی لکھا ہے کہ ’رات بہت کالی تھی۔ ہم نے راہ پر دھیان نہیں دیا۔ ‘

ان دنوں ’ریاست مدینہ‘ کا خواب پلکوں میں سجائے سڑکوں پر نکلنے والے وطن کے ان گنت نوجوان بچے بچیاں کوفہ کی گلیوں میں بھٹک رہے ہیں۔ جیب میں پاکستان کا شناختی کارڈ رکھا ہے لیکن اس کارڈ پر شعور کے خانے میں ’مطالعہ پاکستان‘ کی خانہ ساز مہر ثبت ہے۔ ان میں بہت سوں کو شاید علم بھی نہیں کہ ان پر قید و بند میں زیادہ عقوبت گزرے گی یا ان کی حقیقی کمائی تب لٹے گی جب انہیں اپنے خوابوں اور خاک آلود لہو کی سودا بازی کا علم ہو گا۔ آپ کے نیاز مند نے اسی ادارتی صفحے پر 2013 ء میں عرض کی تھی کہ ’نیا پاکستان کا پرچم اٹھائے نسل کے خلوص میں شبہ نہیں، افسوس یہ ہے کہ 1947، 1967، 1988 اور 2007 کی طرح موجودہ نوجوان نسل کے خواب بھی چکنا چور ہوں گے تو قوم کو ماضی کی طرح مایوس، لاتعلق اور ذاتی مفاد میں غلطاں انبوہ سے واسطہ پڑے گا‘ ۔ معاملہ ہی کیا ہو اگر زیاں کے لئے۔ آپ ’لفافہ خوری‘ ، ’ضمیر فروشی‘ اور ’جہالت‘ جیسے طعن و دشنام کا ترکش تیار رکھئے۔ ہم نے گزشتہ کل میں بھی یہی عرض کی تھی اور آئندہ بھی یہ جانتے ہوئے اپنی بات کہتے رہیں گے کہ ’بیان غم سے ہو گا غم آرزو دو چنداں‘ ۔

 

اردو پڑھنے والوں میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے ’کابلی والا‘ کے عنوان سے ٹیگور کا افسانہ نہ پڑھا ہو۔ اس مختصر افسانے کا سب سے دل گداز منظر یہ تھا کہ کلکتہ کی گلیوں میں رزق ڈھونڈنے والے کابل کا دست فروش باشندہ افسانہ نگار کی بیٹی کے ہاتھ کا عکس ایک کاغذ پر اتروا لیتا ہے۔ اسے جب اپنی بیٹی کی یاد ستاتی ہے تو کاغذ کا وہ ٹکڑا نکال کر دیکھ لیتا ہے۔ انسانی شفقت کے خد و خال قیمتی کیمروں کی عکاسی کے محتاج نہیں ہوتے۔ کچھ روز قبل لاہور کی بستی شادمان کے ایک گرد آلود پارک میں کھیلتے دو کمسن بچوں کو پاس بلا کر کچھ بات کرنا چاہی۔ معلوم ہوا کہ بہن بھائی ہیں۔ والدہ اسی گلی کے کسی گھر میں کام کاج کرتی ہیں۔ لباس، خد و خال اور لب لہجے پر غربت اور محرومی کی گہری چھاپ تھی۔ پوچھا کہ سکول جا رہے ہو؟ بھائی نے حیران کن اعتماد سے کہا۔ ’میں جانا واں، ایہنوں پانا اے‘ ۔ اردو ترجمہ کچھ یوں کہ میں سکول جاتا ہوں اور اسے (چھوٹی بہن کو) ابھی داخل کروانا ہے۔

پوچھا کہ آپ کی تصویر لے لوں؟ میلی سی اوڑھنی میں لپٹی بہن کو بھائی نے اپنی بانہوں کے حصار میں لے کر اس لگاوٹ سے تصویر کھنچوائی کہ بے اختیار تصویر کھینچنے والے کی آنکھ اس خیال سے بھر آئی کہ یہ بچہ نہیں جانتا کہ دوسروں کے گھروں میں برتن مانجھ کر ان دو فرشتہ صفت کھلونوں کو سکول بھیجنے والی محنت کش ماں کے ہاتھوں کی لکیروں میں جمی کالک مستقل سیاہ لکیروں میں بدل جائے گی لیکن وہ اس ملک میں اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دلانے کے لئے درکار پونجی جمع نہیں کر سکے گی۔ یہ بچے چند برس کسی غیر معیاری سکول میں عقل چوس نصاب سے مغز ماری کرنے اور دیہاڑی دار اساتذہ سے گھرکیاں سننے کے بعد اس ہجوم میں شامل ہو جائیں گے جس کی قسمت میں وزیر آباد کا مقتول معظم نواز، لاہور کا ظل شاہ اور گزشتہ ہفتے مارے جانے والے درجن بھر گمنام شہری ہونا لکھا ہے۔ ایں خانہ ہمہ ’خوناب‘ است۔

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

وجاہت مسعود کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author