نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے‘۔۔۔||عاصمہ شیرازی

پریس کانفرنسوں اور تقریروں کا بھی زور ہے جبکہ سیاستدانوں سے لے کر سینئر بیوروکریٹس، ریٹائرڈ جرنیلوں سے لے کر بیشتر قلم کاروں اور سیاستدانوں کی پگڑیاں اچھالنے والے چینلوں تک ملک صاحب کا نام لینے سے ایسے گریزاں ہیں جیسے نئی دلہن اپنے دلہا کا نام لیتے جھجک رہی ہو۔ بڑے بڑے طرم خان ججوں کا نام لے رہے ہیں مگر ملک صاحب کا نام آتے ہی میوٹنگ کا بٹن دبا دیا جاتا ہے۔

عاصمہ شیرازی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منظر، پس منظر اور پیش منظر کا عکاس ہے، پس دیوار اب نوشتہ دیوار بن رہا ہے اور عکس معکوس ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

نو مئی کو لگنے والی آگ پر بظاہر قابو پا لیا گیا مگر در و دیوار میں چھپی چنگاریاں شاید اب بھی سلگ رہی ہیں کہ اپنے ہی ہاتھ سے آگ اب کے دامن کو لگی ہے۔

عمران خان کی گرفتاری کے بعد کے واقعات عوامی تو نہ تھے مگر بامعنی ضرور تھے۔ لاہور کا جناح ہاؤس جو کبھی جناح کے ہاتھ تو نہ لگا مگر بلوائیوں کے ہاتھ ضرور لگ گیا، اب ایک علامت بن گیا ہے۔

جناح ہاؤس میں لگی آگ ہو یا پشاور کے تاریخی ریڈیو پاکستان میں دہکتے شعلے، نذر آتش جہاز کا ماڈل یا شہید کا سر بُریدہ مجسمہ۔۔۔ ستم ظریفی یہ کہ دشمن اسے طاقت کے میناروں کے زمین بوس ہونے سے تشبیہ دے رہے ہیں اور محفوظ فصیلوں میں محصور چوکیداروں کو عدم تحفظ کے احساس سے پہلی بار دوچار بھی کر رہے ہیں۔

طاقت کے حصول کی اس لڑائی میں اب اصول طے نہیں ہوں گے کیونکہ آگ دہلیز تک پہنچ چکی ہے اور شعلے دیواروں کو گھیرے کھڑے ہیں۔

گذشتہ کئی برسوں سے نظام، آئین، جمہوریت مخالف ذہن سازی، چور چور کی بازگشت میں پلتی نسلیں، عداوت کی حد تک سیاست کی راہ ہموار کرنے اور تقسیم کے ذریعے حکمرانی کرنے والے ادارے کو اب خود اسی قسم کے چیلنجز کا سامنا ہے۔

اندرونی طور پر اسٹیبلشمنٹ کا حصہ سمجھی جانے والی عدلیہ ’حق شفعہ‘ میں طاقت کے مرکز پر قابض ہو رہی ہے اور نئی عالمی صف بندی میں جغرافیائی زنجیر میں جکڑے ہم جیسے راہگیر ہٹو بچو کی بازگشت میں حادثے سے بچنے کی کوششوں میں ہیں۔ ہر طرح کے عفریت منھ کھولے لقمہ بنانے کو کھڑے ہیں۔ پچھتر سال کی ساری بیماریوں نے کمزور جسم پر دھاوا بول دیا ہے اور ازلی طاقت کا ستون خود بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔

حادثوں کی پرورش کس نے کی؟ اپنے ہی ہاتھ گریبانوں تک کیسے پہنچے اور آستینوں میں چھپے سانپوں کو دودھ کس نے پلایا، غور کئے بغیر بھی اب صورتیں حفظ ہیں۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد کے واقعات محض بیرو میٹر پر لگے پیمانے پر لال نشان مزید روشن کر رہے ہیں اور بقول جون ایلیا۔۔۔ اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے۔

islamabad

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

القادر ٹرسٹ یعنی برطانیہ سے آئے ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کی رقم کو جرمانے کی مد میں سیٹلمنٹ کے مقدمے میں عمران خان کی گرفتاری وہ ریڈ لائن بن گئی جسے خود تحریک انصاف نے ہی عبور کر لیا۔

گھیراؤ جلاؤ کے واقعات نے وطن عزیز کی اشرافیہ کو متحرک کیا اور اعلیٰ متوسط طبقے کے بظاہر حضرات اور بالخصوص خواتین جوشِ انقلاب میں کینٹونمنٹس کو اپنی جاگیر سمجھتے ہوئے داخل ہوگئے۔

یہی تھا شاید وہ اپنا پن کہ جس پر ’آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی‘ کا اظہار بھی ہوا۔ ہلہ بولنے والوں کا انتخاب بھی شاید کسی منصوبہ بندی کا حصہ تھا کہ مبینہ طور پر ’اشرافیہ اور عسکری اشرافیہ‘ کو ہاتھ لگانا کس کے بس کی بات ہے؟

دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس معاملے میں کوئی ریڈ لائن باقی نہیں رہی سوائے خوش قسمت ملک ریاض کے، جن کی جائیداد کی رقم کا تنازعہ بذریعہ عمرانی کابینہ طے ہوا، بدلے میں مبینہ زمین ملی یا زر اس کی تحقیقات تو ہو رہی ہیں البتہ عمران خان کے خلاف بیانات اور احکامات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

پریس کانفرنسوں اور تقریروں کا بھی زور ہے جبکہ سیاستدانوں سے لے کر سینئر بیوروکریٹس، ریٹائرڈ جرنیلوں سے لے کر بیشتر قلم کاروں اور سیاستدانوں کی پگڑیاں اچھالنے والے چینلوں تک ملک صاحب کا نام لینے سے ایسے گریزاں ہیں جیسے نئی دلہن اپنے دلہا کا نام لیتے جھجک رہی ہو۔ بڑے بڑے طرم خان ججوں کا نام لے رہے ہیں مگر ملک صاحب کا نام آتے ہی میوٹنگ کا بٹن دبا دیا جاتا ہے۔

مدعا یہ بھی ہے کہ طاقت کے ایوانوں میں نقب لگ چکی ہے۔ پرانی اسٹیبلشمنٹ کا بچھایا جال ہر ادارے کو گرفت میں لیے ہوئے ہے جسے پرویز الہی ’اسٹیبلشمنٹ حقیقی‘ کا نام دے چکے ہیں۔

ریاست اپنی رٹ کو چیلنج کرنے والوں سے آہنی ہاتھوں نمٹنے کی کوششوں میں ہے اور ہو سکتا ہے کہ نمٹ بھی لیں مگر بڑے گھر کے در و دیوار میں لپٹا خوف ہی اصل چیلنج ہے۔

اس میں دو آرا نہیں کہ ادارے کا عفریت بنانے اور بنا کر مٹانے کا وسیع تجربہ ہے تاہم اس بار صفائی کی نوعیت ذرا مختلف ہے کیونکہ مورچے اب گھر میں ہی بنانا پڑیں گے۔

عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے

 بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام

About The Author