عمار مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسند انصاف کے تخت پر بیٹھے ایک شخص نے جب ایک ایسے ملزم کی شان میں یہ لفظ کہے کہ ’آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی‘ تو اس کے بعد اس ملک میں عدالتوں کی ضرورت ہی ختم ہو گئی۔ انصاف جب ملزم اور مجرم کی پشت پناہی کرنے لگے، انصاف جب اپنی آنکھیں بند کر لے، انصاف جب یکطرفہ ہو، انصاف جب مساوات پر یقین نہ رکھے، انصاف جب عدل سے پردہ پوشی کرے، انصاف جب لوگوں میں تفریق کرنے لگے تو اسے انصاف کیسے کہا جا سکتا ہے؟ شاید کہنے والے نے مسند انصاف بیٹھے ایسے ہی کسی منصف کے بارے میں کہا تھا: ’غیر کی جانب بھی ہیں اور غیر جانبدار بھی‘۔
جناب عالی کسی خاص شخص سے الفت کا اقرار تو انصاف نہیں، کسی کی محبت میں اپنے عہدے کے وقار کی قربانی تو انصاف نہیں۔ کسی سے چاہت کا اظہار تو انصاف نہیں۔ ایسے کام تو رومینٹک فلموں میں ہوتے ہیں، ایسے قول وقرار تو ہیرو ہیروئن کرتے ہیں، کسی کے دیکھے سے انصاف کے چہرے پر بشاشت آجائے تو انصاف سر بازار رسوا ہوتا ہے۔ یہ لاڈ پیار انصاف کے ہر قاعدے کی توہین، تضحیک اور تذلیل ہے۔ اور اس کا سہرا مسند انصاف کے تخت پر براجمان شخص کے سر جاتا ہے۔
کہنے دیجیے کہ آپ انصاف پر نہیں تحریک انصاف پر مامور ہیں۔ تسلیم کیجیے کہ آپ ایک جماعت کے کارکن ہیں، اقرار کیجیے کہ آپ نے ایک متشدّد جماعت سے پاسداری کا حلف دل کے نہاں خانوں میں لیا ہوا ہے۔ مان لیجیے آپ کو وہ شخص بہت عزیز ہے جس نے اس ملک کو تباہ کیا، سماج کو گالی سے آلودہ کیا، نفرت کو شعار بنایا، ہر شخص اور جماعت پر کیچڑ اچھالا، کرپشن میں اس کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں، ہر فرد فرقے کی توہین سے اس کا دامن آلودہ ہے، تکبر اس شخص کا کل اثاثہ ہے، تشدّد اس کا کل سرمایہ ہے۔ اگر ایسے شخص کے دیکھے سے آپ کے چہرے پر بشاشت آتی ہے تو آپ کی ذات افعال اورآئین پاکستان سے آپ کی وفاداری مشکوک ہے۔ آپ کی اس مٹی سے محبت مشکوک ہے۔ کہنے دیجیے کہ کہیں آپ کا دامن بھی داغدار ہے، کہیں آپ بھی مجبور ہیں، کہیں آپ کے تراوز کے پلڑے میں وزن زیادہ ہے۔
آپ کا یہ طرز الفت نیا نہیں ہے۔ پانچ سال سے دنیا یہ تماشا دیکھ رہی ہے۔ کسی اور مقدمے میں آپ کے ماتھے کی شکنیں نہیں جاتیں اور ایک یہ صورت حال ہے کہ ایک ملزم کے آنے پر آپ کے گال لال و لال ہو جا رہے ہیں۔ قانونی ماہرین دلیلیں دے دے کر تھک گئے، پارلیمان دُہائی دیتا رہا، انصاف کے طلبگار دھاڑیں مارتے رہے مگر کبھی آپ کے کانوں پر جوں نہیں رینگی۔ کبھی ماتھا نہیں ٹھنکا ، کبھی آپ کی رگِ انصاف نے جوش نہیں مارا۔ آپ انصاف کے ہر قاعدے کو روندتے چلے گئے۔
جن پر الزام تھا انہیں بنا ثبوت کے مجرم آپ نے بنایا۔ جن پر شک تھا ان کو سزائیں آپ نے دیں، ایوانوں کے معاملات آپ خود حل کرنے پر اتر آئے۔ ایک مقدمے میں ایک فیصلہ اور اسی نوعیت کے دوسرے مقدمے میں دوسرا فیصلہ دینے کی روایت آپ نے ڈالی۔ انصاف کی دستار کو پاؤں تلے آپ نے خود روندا ۔ اپنے ادارے کے وقار کو ملیا میٹ آپ نے خود کیا۔
جانے آپ کو یہ خیال کیوں نہیں آتا کہ زمانہ آپ کو کن الفاظ میں یاد کرے گا،ْ تاریخ میں آپ کا نام کن حروف سے لکھا جائے گا، لوگ سڑکوں پر آپ کو کن القابات سے پکاریں گے، عزت اور وقار کی مسند پر بیٹھے شخص کی ایسی تذلیل پہلے کبھی نہیں ہوئی ہو گی۔ اس میں کسی کا دوش نہیں یہ آپ کا اپنا کارنامہ ہے۔ یہ تمغہ خود بہت کاوش سے آپ نے اپنی چھاتی پر سجایا ہے۔
مسندِ انصاف کے تخت پر بیٹھے شخص سے آج پاکستان سوال کر رہا ہے کہ اس ملک میں تشدد پھیلانے اور آگ لگانے والے شخص کو عدالت میں دیکھ کر تو آپ کو خوشی ہوئی لیکن جب سارا ملک جل رہا تھا تب آپ کو دکھ نہیں ہوا؟ جب سرگودھا میں نشانِ حیدر سے سرفراز ہونے والے شہداء کی یادگار کو آگ لگائی جا رہی تھی تو آپ کو دکھ نہیں ہوا؟ جب ایدھی کی ایمبولینس کو تحریک انصاف کے بلوائیوں نے ںذر آتش کیا تو آپ کو دکھ نہیں ہوا؟ جب کور کمانڈر لاہور کے گھر کو شعلوں کے حوالے کیا گیا تو آپ کو دکھ نہیں ہوا؟ جب پشاور ریڈیو پاکستان میں تاریخی لوٹ مار کی گئی آپ کو دکھ نہیں ہوا؟ جب بد مست بلوائی جی ایچ کیو کے گیٹ پر جھول رہے تھے آپ کو دکھ نہیں ہوا؟ جب ٹریفک میں ہزاروں لوگ گھنٹوں پھنسے رہے تو ان کی اذیت پر آپ کو دکھ نہیں ہوا؟ جب عام لوگوں کی گاڑیوں کو توڑا گیا تو آپ کو دکھ نہیں ہوا؟ جب فرض شناس پولیس والوں پر حملہ کیا گیا تو آپ کو دکھ نہیں ہوا؟ جب پاکستان کا نام ساری دنیا میں بدنام ہوا آپ کو دکھ نہیں ہوا؟ جب صرف آئی ٹی سیکٹر کو تین دن میں ڈیڑھ ارب کا نقصان ہوا تو آپ کو دکھ نہیں ہوا؟ جب فوج کے سپاہیوں پر پتھر پھینکے گئے اوراُن پر لاٹھیاں برسائی گئیں آپ کو دکھ نہیں ہوا؟ جب سینکٹروں بچے امتحان میں نہیں بیٹھ سکے تو آپ کو دکھ نہیں ہوا؟ جب سب سیاسی جماعتوں نے آپ کے ادارے پر انگلیاں اٹھانا شروع کر دیں آپ کو دکھ نہیں ہوا؟ جب آپ کے اپنے ادارے پر لوگ تف بھیجنے لگے تو آپ کو دکھ نہیں ہوا۔ جب دوکانیں نذر آتش کی گئیں اور سینکٹروں لوگوں کی عمر بھر کی کمائی راکھ ہو گئی تو آپ کو دکھ نہیں ہوا؟
اگر آپ اب بھی اپنی خوشی پر مصر ہیں، اگر آپ ابھی خود کو منصف کہلانے پر اصرار کرتے ہیں، اگر آپ اب بھی آئین اور قانون کی بات کرتے ہیں تو آج سے پاکستان کے آئین کا نام تشدّد رکھ دیں، آج سے قانون کی سب کتابوں کے سرورق پر اپنے محبوب کی تصویر بنا دیں۔ کُھل کر کسی مقدمے میں اقرار کر لیں کہ یہ آئین و قانون صرف ایک شخص کے لیے بنا ہے۔ باقی اگر کوئی دوسرا انصاف سے محروم ہیں تو آپ کو ان کی پروا نہیں۔
بس آپ سے ایک التماس ہے کہ انصاف فراہم کرنے والے سب سے بڑے ادارے کے سامنے ایک گڑھا کھودیں اس میں آئین کی کتاب کو دفن کر دیں اور اپنے 8 ساتھیوں کے ساتھ آئین کی اس تدفین کا جشن ضرور منائیں۔
بشکریہ وی نیوز ڈاٹ پی کے
یہ بھی پڑھیے:
بندہ ایماندار ہے ۔۔۔عمار مسعود
حکومت کی عجلت اور غفلت ۔۔۔عمار مسعود
پانچ دن، سات دن یا دس دن؟ ۔۔۔عمار مسعود
نواز شریف کی اگلی تقریر سے بات کہاں جائے گی؟ ۔۔۔ عمار مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر