نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عمران خان کی گرفتاری، کیا اثرات مرتب ہوں گے؟۔۔۔||محمد عامر خاکوانی

عامر خاکوانی لاہور میں مقیم سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں،ان کے موضوعات میں سیاست ، حالات حاضرہ ،سوشل ایشوز،عسکریت پسندی اورادب شامل ہیں۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمران خان کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں گرفتاری اچانک تو تھی مگر غیر متوقع نہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے حکومت اور اس کے اتحادی سرتوڑ کوشش کر رہے تھے کہ عمران خان کو گرفتار کر لیا جائے۔زمان پارک میں کریک ڈاؤن ہوتا رہا۔ رمضان میں بھی یہ سلسلہ روکا نہیں گیا۔ درحقیقت عدالتوں سے ملی حفاظتی ضمانتوں کی وجہ سے عمران خان بمشکل بچتے رہے ہیں، تاہم خطرے کی تلوار ان پر لٹک رہی تھی۔

کیا یہ لندن پلان کا حصہ ہے؟
عمران خان بار بار لندن پلان کی بات کرتے رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ لندن پلان میاں نواز شریف کی زیرقیادت بنایا گیا وہ پلان ہے جس میں پی ڈی ایم کی اعلیٰ قیادت اور ان کے ہرقسم کے اتحادی شامل ہیں۔اس پلان کے چند نکات یہ بیان کئے جاتے ہیں:
کسی طرح عمران خان کو گرفتار کر کے اندر کر دیا جائے
پھر ان پر مقدمات کی ایسی بوچھاڑ کی جائے کہ وہ کئی ماہ تک باہر نہ آ سکیں
اس دوران انہیں نااہل کر کے پارٹی کو توڑنے کی کوشش کی جائے۔
جب یہ سب کمزور ہوجائیں تو پھر الیکشن کرا کر جیت لئے جائیں
یہ وہ پلان ہے جسے عمران لندن پلان کہتے ہیں۔اب عمران خان گرفتار تو ہوئے ہیں، دیکھیں انہیں عدالتوں سے جلد ریلیف مل جاتا ہے یا پھر انہیں کسی بھی طریقے سے باہر نہیں آنے دیا جائے گا۔

اسلام آباد میں کیا ہوا؟
اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان بعض کیسز میں حفاظتی ضمانت کرانے آئے تھے، وہ رجسٹری برانچ میں بائیومیٹرک کے لئے گئے تھے، وہاں پر رینجرز نے دھاوا بولا، مزاحمت کرنے والوں کو سختی سے دھکیلا، شیشے ٹوٹ گئے اور عمران خان کو کھینچ کر ساتھ لے گئے۔ عمران خان کے وکلا کا دعویٰ ہے کہ خان صاحب کو موقعے پر تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا، ان کی زخمی ٹانگ پر بھی ڈنڈا مارا گیا تاہم وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے اس کی تردید کی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے کسی ملزم کو نیب یاپولیس کی جانب سے گرفتار کرنے کے ایسے واقعات کم ہی ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسے توہین عدالت قرار دیتے ہوئے آئی جی اسلام آباد اور متعلقہ حکام کو توہین عدالت کا نوٹس دیا ہے اور رجسٹرار کو حکم دیا ہے کہ وہ اس پر ایف آئی آر درج کرے۔ البتہ ہائی کورٹ نے اس گرفتاری کو قانون کے مطابق قرار دیا۔ اس سے قبل قانونی حلقوں کا یہ کہنا تھا کہ یہ گرفتاری خلاف قانون بھی ہے۔

ردعمل کیسا رہا؟
عمران خان کی گرفتار ی پر عوامی ردعمل تو بڑا شدید اور طوفانی قسم کا تھا۔ پہلے ایک دو گھنٹوں تک تو خاموشی رہی، پھر جیسے ہی خبر پھیلی، تحریک انصاف کے کارکن مختلف شہروں میں نکل آئے، انہوں نے سڑکوں پر ٹائر جلا کر ٹریفک جام کی، بازار بند ہوئے اور جگہ جگہ پر احتجاج ہونے لگا۔ یہ احتجاج بتدریج جارحانہ اور پرتشدد ہوتا گیا، توڑپھوڑ بھی ہوئی اور شہریوں کو کئی گھنٹوں تک سڑکوں پر پھنسے رہنا پڑا۔
سب سے زیادہ خطرناک یہ کہ انصافین کارکن مختلف شہروں کے کینٹ ایریاز میں داخل ہوگئے، لاہور میں یہ کور کمانڈرہاؤس کے سامنے پہنچ گئے، جبکہ پنڈی میں جی ایچ کیو میں داخل ہونے کی کوشش بھی کی۔ یہ وہ غلطی تھی جس سے گریز کرنا چاہیے تھا۔ تحریک انصاف کے قائد کو گرفتار کیا گیا، اس پر احتجاج فطری تھا، مگر اسے پرامن اور سیاسی رہنا چاہیے تھا۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں یا حامیوں نے ریڈ لائنز کراس کی ہیں، دیکھیں اس پر کیسا ردعمل آتا ہے۔

تحریک انصاف کا کیا کہنا ہے؟
تحریک انصاف کی قیادت زیادہ تر غیر فعال رہی، لاہور جیسے شہر میں انصافین رہنماؤں کو فرنٹ پر آ کر کارکنوں کوگائیڈ اور کنٹرول کرنا چاہیے تھا۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کے علاوہ کوئی اور ایسا نہ کر سکا۔ یہ ایک تباہ کن سیاسی غلطی تھی۔ قائم مقام چیئرمین شاہ محمود قریشی نے اس پر ایک بیان تو جاری کیا جس میں کارکنوں سے پرامن رہنے کی اپیل کی، مگر صرف اس سے مشتعل کارکن نہیں رک سکتے تھے۔اگر عمران خان اس حوالے سے ایک بیان پہلے ریکارڈ کر ا رکھتے جس میں کارکنوں سے پرامن رہنے کی اپیل کی جاتی تو ممکن ہے وہ مؤثر رہتا۔ تاہم رات گئے ٹی وی چینلز پرسیکرٹری جنرل اسد عمر کا کہنا تھا کہ یہ سب ہمارے کارکن نہیں، ان میں عام لوگ زیادہ ہیں جو پارٹی کے نظم یا پالیسی لائن کے پابند نہیں۔

کیا ردِعمل ناکافی تھا؟
ن لیگی رہنما عطا تارڑ نے چینلز پر یہ دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کا احتجاج زیادہ نہیں تھا، بقول ان کے چند ٹولیوں نے احتجاج کیا۔ یہ سفید جھوٹ اور بے بنیاد بچکانہ سی بات ہے۔ لاہور جیسے شہر میں جسے مسلم لیگی گڑھ سمجھا جاتا ہے، وہاں پر تحریک انصاف کا احتجاج اس قدر شدید تو تھا کہ سب کچھ بند کرنا پڑا، پولیس کنٹرول نہیں سکی تو انتظامیہ رینجرز کی طرف دیکھ رہی تھی۔ موبائل فون سروس بند کرنا پڑی، پاکستان کی جدید تاریخ میں ایک آدھ بار ہی فیس بک، ٹوئٹراور یوٹیوب وغیرہ بند کرنے کی نوبت آئی ہے۔ 9 مئی کو منگل کے دن بھی یہ سب کرنا پڑا۔ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ فیس بک، ٹوئٹر اور یوٹیوب وغیرہ بند کرنے کی خبر سے دنیا بھر میں پاکستان کی کیسی بدنامی ہوئی ہوگی؟

آگے کیا ہوسکتا ہے؟
آنے والے دنوں میں حالات بہت زیادہ خراب ہونے کی توقع ہے۔ عمران خان کو اتنے جتن کر کے گرفتار کیا گیا ہے، مقصد یقینی طور پر ضمانت پر رہا ہونے دینا نہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے سے واضح ہوگیا کہ خان صاحب کو فوری ریلیف تو نہیں مل سکا۔ ممکن ہے آگے جا کر کچھ ہوجائے تو الگ بات ہے۔
کل انصافین کارکنوں کی گرفتاریوں کا دن ہوگا، توڑپھوڑ اور تشدد میں جو جو ملوث تھے، ویڈیوز کی مدد سے انہیں پکڑا جائے گا۔ عمران خان نے پارٹی ممبران پرمشتمل ایک کمیٹی بنائی ہے، اس کا لائحہ عمل سامنے آنا ہے۔

کیا تحریک انصاف پر پابندی لگ جائے گی؟
یہ رائے موجود ہے کہ حکومت کسی نہ کسی طریقے سے تحریک انصاف پر پابندی لگا دے گی، عمران خان پر غداری کا مقدمہ چلایا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ اس کے امکانات تو موجود ہیں اور کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا۔ یہ البتہ سمجھ لیا جائے کہ کسی بھی سیاسی جماعت پرحکومت ازخود پابندی نہیں لگا سکتی۔ اس پابندی کے لئے سپریم کورٹ سے توثیق ضروری ہے۔ آئین اور قانون نے سیاسی جماعتوں کو تحفظ دینے کی خاطر پابندی سے پہلے سپریم کورٹ سے توثیق کی شرط لگارکھی ہے۔
تحریک انصاف سے ایک سنگین غلطی بہرحال سرزد ہوئی ہے، عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتار کرنے سے حکومت اور نیب بیک فٹ پر چلی گئی تھی، انصافین کارکنوں کے خطرناک حد تک جارحانہ ردعمل اور جی ایچ کیو، کور کمانڈر ہاؤس اور دیگر اہم جگہوں پر حملوں، گاڑیوں کو توڑ پھوڑ وغیرہ سے وہ سب ختم ہوگیا۔ اب تحریک انصاف شدید دباؤ میں آ گئی اور جن جذباتی انصافین کارکنوں کو یہ بات سمجھ نہیں آ رہی، اگلے چند دنوں میں انہیں تلخ حقائق سے آگہی حاصل ہوجائے گی۔

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

محمد عامر خاکوانی کے مزید کالم پڑھیں

About The Author