اسلم اعوان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھارت کے ساحلی شہر گوا میں منعقد ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری کی شرکت نے پاک بھارت تنازع کے بند زخموں کے منہ کھول دیے۔ دونوںممالک کے سفارتکاروں اور بپھرے ہوئے تجزیہ کاروں نے ماضی کی تلخیوں کو زندہ کرنے میں سبقت لے جانے کی کوشش میں کئی سنگِ میل عبور کیے۔ 1947ء میں برطانوی سامراج سے آزادی کے بعد سے دونوں پڑوسی ممالک کے مابین تعلقات کبھی ہموار نہیں رہے؛ تاہم بھارت میں مودی سرکار کے قیام کے بعد صورت حال زیادہ گمبھیر ہوئی ہے، خاص طور پر فروری 2019ء میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ایک قافلے پر ہوئے خود کش حملے نے اُس وقت کشیدگی بڑھا دی تھی جب نئی دہلی نے حملے کا الزام پاکستان پر لگایا۔ 2019ء ہی میں‘ نئی دہلی نے مقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرکے اس دیرینہ تنازع کو زیادہ گنجلک بنا دیا؛ تاہم ان پیچیدہ مسائل کے باوجودپاکستانی وزیر خارجہ کا شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے گوا جانے کا فیصلہ بھارت کے لیے غیر متوقع تھا۔مودی سرکار کا خیال تھا کہ پاکستان وڈیو لنک پر اکتفا کرے گا لیکن پاکستانی وزارتِ خارجہ نے بلاول بھٹو کو بھارت بھیج کر بھارتی اشرافیہ کے لیے مشکل پیدا کر دی۔
بلاول بھٹو اپنے سفر کے مضمرات بارے خاصے محتاط تھے۔ گوا روانگی سے قبل انہوں نے ٹویٹر پہ لکھا ”میں شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کی کونسل میں پاکستانی وفد کی قیادت کروں گا، اجلاس میں شرکت کا فیصلہ شنگھائی تعاون تنظیم کے چارٹر کے تئیں پاکستان کے مضبوط عزم کی عکاسی کرتا ہے‘‘۔ امر واقعہ بھی یہی ہے کہ اس دورے کے دوران پاکستان نے بھارتی وزیرخارجہ سے دوطرفہ امور پہ بات چیت کی کوئی درخواست نہیں کی تھی۔ اگرچہ کچھ تجزیہ کاروں نے وزیر خارجہ کے بھارت جانے کو حریفوں کے درمیان مستقبل قریب میں بات چیت کے لیے راہ ہموار بنانے کی مساعی سے تعبیر کیا لیکن بلاول بھٹو کی بھارتی ہم منصب سے ملاقات کے لیے سازگار ماحول کی عدم موجودگی اس دورے پہ سایہ فگن رہی۔ چونکہ نئی دہلی نے ریاستِ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرکے کشیدگی بڑھائی‘ اس لیے کسی بھی پاکستانی حکومت کے لیے بھارت کے ساتھ بات چیت کا انتخاب اندرونِ ملک اس کے خلاف ردِعمل پیدا کر سکتا ہے۔ اس لیے بلاول بھٹو کے لیے یہ ضروری تھا کہ وہ مودی حکومت سے محفوظ فاصلہ برقرار رکھتے۔ بلاول بھٹو نے کہا کشمیر میں بھارت کے 2019ء کے اقدامات نے ماحول کو خراب کیا؛ چنانچہ اب یہ ذمہ داری بھارت پر ہے کہ وہ ایسا ماحول پیدا کرے جس میں بات چیت ہو سکے لیکن بھارتی الیکشن قریب ہونے کی وجہ سے نریندر مودی کے لیے اس طرح کے مطالبات پر دھیان دینا ممکن نہیں ہو گا، شاید اسی لیے بلاول بھٹو دو طرفہ محاذ پر کسی بھی اقدام کے لیے سفارتی لحاظ سے ہاتھ باندھ کر بھارت گئے۔ اس سب کے باوجود حقیقت یہی ہے کہ بھارت نے شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی اور پاکستانی صحافیوں کو ویزے جاری کیے، بھارتی اور پاکستانی وزرائے خارجہ کے درمیان سائیڈ لائنز رابطے دونوں ممالک میں انتخابات کے بعد مستقبل میں بات چیت کے لیے کچھ زمین تیار کر گئے بلکہ کچھ نہ ہونے سے بہتر ہوا۔
اگرچہ بلاول بھٹو دورۂ بھارت سے زیادہ کچھ حاصل نہیں کر سکے لیکن خارجہ پالیسی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دورہ مکمل طور پر لاحاصل بھی نہیں تھا۔ قبل ازیں2011ء میں حنا ربانی کھر نے بھارت کا اس وقت دورہ کیا تھا جب وہ وزیرِ مملکت برائے امورِ خارجہ تھیں۔ مئی 2014ء میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نریندر مودی کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کے لیے نئی دہلی گئے۔ دسمبر 2015ء میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے پاکستان کا دورہ کیا تھا جس کے چند دنوں بعد نریندر مودی نے پاکستان کا مختصر دورہ کیا۔ پاکستان کا آخری وزیر سطح کا دورہ سرتاج عزیز نے 2016ء میں کیا تھا۔ پاکستان کے وزیر خارجہ کو شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کونسل اجلاس میں شرکت کی دعوت جنوری میں بھجوائی گئی جب وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک عرب چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہاکہ پاکستان بھارت سے تین جنگوں کے بعد پُرامن طور پر رہنے کیلئے بات چیت کو تیار ہے؛ تاہم بعد میں وزیر اعظم آفس نے وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر سے متعلق 2019ء کے اقدامات کو منسوخ کیے بغیر بھارت سے مذاکرات ممکن نہیں۔ حالیہ عرصے میں پاک بھارت تعلقات اس وقت شدید تناؤ کا شکار ہوگئے تھے جب فروری 2019ء میں بھارت کے جنگی طیاروں نے پلوامہ حملے کے ردعمل میں بالاکوٹ میں اپنا پے لوڈ گرا کر ایک مبینہ کیمپ کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا۔
اگست 2019ء میں ریاستِ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے ریاست کو مرکز کے زیرِ انتظام دو علاقوں میں منقسم کرنے کی پیش دستی نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے گوا میں شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کونسل اجلاس کے بعد کہا ”دہشت گردی کے متاثرین دہشت گردی کے مسئلے کے حل کی خاطر دہشت گردی کے محرکین سے کیسے بات کر سکتے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا: بلاول بھٹو زرداری شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ملک کے وزیر خارجہ کے طور پریہاں آئے،جو کثیر جہتی سفارت کاری کا حصہ ہے، ہمیں اس سے زیادہ کچھ نظر نہیں آتا۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے گوا میں ایس سی او کے وزرائے خارجہ اجلاس میں جن وجوہات کی بنا پر شرکت کا انتخاب کیا،ان میں دہشت گردی سے نمٹنے کی مشترکہ کوششوں کا احساس بھی شامل تھا،دہشت گردی چونکہ تمام رکن ممالک کے لیے باعثِ تشویش ہے، اس لیے بلاول بھٹو شنگھائی تعاون تنظیم کی سوچ سے باخبر رہنا چاہتے تھے تاکہ مسئلے کو اجتماعی طور پرحل کیا جا سکے۔ یہ جانتے ہوئے کہ بھارت دہشت گردی کے معاملے پر بالواسطہ طور پر پاکستان کو نشانہ بنائے گا، وہ اپنی بات بھی بتانا چاہتے تھے کہ پاکستان خود بھی دہشت گردی کا شکار ہے۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم خود دہشت گردی کے متاثرین میں سے ہیں اس لیے کسی بھی طور دہشت گردی کی حمایت نہیں کرسکتے۔ سب کو ریاستی اور غیر ریاستی عناصر میں فرق کرنا ہو گا، پاکستان نے دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کے استرداد کیلئے FATF کے تقاضوں کی تعمیل کی؛ چنانچہ بھارت کیلئے دہشت گردی کو سفارتکاری کا ہتھیار بنانا مناسب نہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس کو بلاول نے بھارتی حکمران اشرافیہ سے ہٹ کر پریس کے ذریعے بھارتی عوام سے براہِ راست بات کرنے کے موقع کے طور پر استعمال کیا۔ گزشتہ برس دسمبر میں اقوام متحدہ میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو ”گجرات کا قصائی‘‘ کہنے کے ردِعمل میں بھارتی میڈیا نے انہیں بالخصوص اپنے نشانے پر رکھا تھا مگر بلاول بھٹو زرداری کا بھارتی صحافیوں کو انٹرویوز میں اصرار رہا کہ پاکستان اس وقت تک بات چیت نہیں کرے گا جب تک بھارت آرٹیکل 370 کو بحال کر کے 5 اگست 2019ء کے فیصلے کو واپس نہیں لیتا کیونکہ آرٹیکل 370 کی منسوخی اقوام متحدہ کی قراردادوں اور پاکستان سے دوطرفہ معاہدوں کی خلاف ورزی ہے۔ بھارت کشمیر میں آبادی کا تناسب بدل کے مسلمانوں کو اقلیت بنانا چاہتا ہے،جان بوجھ کر کشمیری قیادت کو جیلوں میں ڈالنا اشتعال انگیزی کے سوا کچھ نہیں۔
بھارت کی طرف سے کشمیر میں شرانگیزی بڑھانے کو پاکستان ایک دہائی قبل شروع ہونے والے CPEC منصوبے کے خلاف بھارتی سازشوں کے طور پر دیکھتا ہے۔ دہشت گردی کیلئے غیر ریاستی اداکاروں کی پشت پناہی کے جواب میں پاکستانی وزیر خارجہ نے کلبھوشن یادیو کے معاملے کو اٹھاتے ہوئے کہا کہ بھارت کی پاکستان میں سرکاری سطح پر دہشت گردی کے ثبوت کیلئے انڈین نیوی کے سنیئر افسر کلبھوشن کے اعترافات کافی ہیں۔ بھارت میں ایک انٹرویو میں بلاول نے کہا: بھارت کے ممبئی حملوں کے مجرموں کو پکڑنے میں مقدمے کی پیروی میں عدم تعاون اور گواہوں کو جرح کیلئے پاکستان نہ بھیجنے کی وجہ سے معاملہ وہیں رک گیا۔انہوں نے سمجھوتا ایکسپریس کے مجرموں کو سزا نہ ملنے کے علاوہ بلقیس بانو گینگ ریپ کیس کا حوالہ دیتے ہوئے بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کو بھی اٹھایا۔
یہ بھی پڑھیے:
کشمیریوں کا مستقبل۔۔۔اسلم اعوان
اپوزیشن جماعتوں کی آزمائش۔۔۔اسلم اعوان
پیراڈائم شفٹ میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟۔۔اسلم اعوان
افغانستان کا بحران عالمی ایشو نہیں رہا۔۔۔اسلم اعوان
عورتوں میں ہم جنس پرستی پر یہ مشہور کہانی لکھنے والی عصمت چغتائی۔۔۔اسلم ملک
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ