دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آخری مرحلے کی لڑائی۔۔۔||عاصمہ شیرازی

یقین جانیے دو جمع دو کرنے والے تجزیہ کار، سیاسی چالوں پر نگاہ رکھنے والے تبصرہ کار اور خبروں پر نظر جمائے خبر نگار بے بس محسوس کر رہے ہیں۔ جو لکھنا چاہتے ہیں وہ لکھ نہیں پاتے اور جو نگاہ میں ہے اس سے نظر چرا رہے ہیں۔

عاصمہ شیرازی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بے نشان منزل کے مسافروں کی مسافت کہاں کم ہوتی ہے اور بے مکاں مکین کب سائبان رکھتے ہیں، مقام مقیم کے لیے اور زمان زمین کے لیے اجنبی ہونے لگیں تو سکونت کہاں؟

خوف کی چادر میں اندیشے پنپ رہے ہیں اور بے یقینی کا راج ہے۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہاتھ کوئی ایسی چھڑی آ جائے کہ گھمانے سے ایک دم ’نواں نکور‘ پاکستان نکل آئے، ایک دم بے یقینی کے بادل چھٹ جائیں اور صبح صادق سے پہلے انقلاب کی پو پھوٹ پڑے۔

انقلاب ایسا کہ تاج اچھالے جائیں اور تخت گرائے جائیں۔ بھوکوں کو اناج ملے، بے اماں کو امان اور بے مکان کو مکان نصیب ہو۔

امید بھی کیا شے ہے کہ مرگ سے حیات کشید کر لاتی ہے اور جب امید باقی نہ رہے تو زندگی بھی موت میں ڈھل جاتی ہے، آج امید کی جس قدر ضرورت ہے اس سے پہلے کہاں تھی۔ امید کے پاس بھی وقت کم ہے، امید نا امید نہ ہو جائے بس اسی کی امید ہے۔

ایسا کبھی ہوا ہے کہ حکمران حکومت سے، مقتدر اقتدار سے اور طاقتور طاقت سے اکتائے پھرتے ہوں مگر اب ایسا دیکھنے کو مل رہا ہے۔

کابینہ میں شامل وزرا دھیرے دھیرے گھروں کا سامان سمیٹ رہے ہیں اور نہیں معلوم کہ شہر اقتدار کا اگلا مکین کون ہو گا۔

اسلام آباد کے ڈرائنگ رومز اور سفارتی حلقے ایک ہی سوال کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ اب آگے کیا؟

یقین جانیے دو جمع دو کرنے والے تجزیہ کار، سیاسی چالوں پر نگاہ رکھنے والے تبصرہ کار اور خبروں پر نظر جمائے خبر نگار بے بس محسوس کر رہے ہیں۔ جو لکھنا چاہتے ہیں وہ لکھ نہیں پاتے اور جو نگاہ میں ہے اس سے نظر چرا رہے ہیں۔

کیا نیا ہے جو اب ہو گا؟ وطن عزیز میں ہر رنگ کا تجربہ ہو چکا، چند سال پہلے کسی بنگلہ دیش فارمولے کی بازگشت تھی پھر وہ فائلوں میں دب گیا۔

وہ بھی ایک دور تھا جس میں ٹیکنو کریٹ سسٹم کے حق میں مضمون چھپتے تھے کہ کس طرح بنگلہ دیش میں ٹیکنو کریٹ حکومت نے سیاسی اور معاشی ایجنڈا دیا اور اب وہ ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں اب بھی شاید خواہشوں کی فائل میں دبی یہ چنگاری موجود ہے۔

آئے دن صدارتی نظام کی حمایت میں خفیہ قسم کے ٹرینڈ بھی چلتے رہے، ہائبرڈ یعنی ’آدھا تیتر آدھا بٹیر‘ نظام کا تجربہ بھی کر لیا گیا جس کے خوفناک نتائج اب بھی بھگتے جا رہے ہیں۔

آمریت، نیم آمریت، جمہوریت، نیم جمہوریت اور فسطائیت کے بعد کیا اب نیم فسطائیت کی راہ ہموار ہو چکی ہے؟

کچھ ریٹائرڈ بزرگ فوجی دلوں میں آمریت کی خواہش کو فسطائیت میں بدلنے اور تمام عمر عوام کو چھڑی سے ہانکنے والے عمر رسیدہ بیوروکریٹس شخصی حاکمیت کی گرد آلود فائل ہاتھوں میں تھامے اپنی ناتمام آرزوؤں کو بار آور کرنے لیے سرگرم ہیں۔

نبض شناس سیاست دانوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنے والے جج، جرنیل اور یہاں تک کہ صحافی منشا کے مطابق انھیں جاہل، ناکارہ، نا اہل، بدعنوان جیسے القاب دیتے رہے اور یوں کامیابی سے مستقل حکمران اشرافیہ نفرت اور نا امیدی کے بیج بوتی رہی۔

نتیجہ مختلف نہ پہلے تھا اور نہ ہی اب ہے۔ کچھ کمپرومائزڈ چھاتہ بردار سیاست دانوں، صحافیوں اور جرنیلوں کی بدولت جمہوریت گالی اور پارلیمنٹ ربڑ سٹیمپ ہو گئی۔

اب وقت ہاتھ سے نکل رہا ہے کیونکہ ’چکا ہے‘ کا لفظ طبیعتاً ’مثبت‘ رویے کے پیش نظر لکھنا نہیں چاہتی۔

آئی ایم ایف کے گرد گھومتی معیشت گول گول گھما رہی ہے۔ عدلیہ اور سیاسی اشرافیہ سب اپنے اپنے کہے میں پھنس رہے ہیں۔

گزشتہ چار سال میں بار بار اس موضوع پر لکھا ہے کہ معیشت کی کنجی ہی نظام کا استحکام بن سکتی ہے۔ یہ معیشت ہی عدم اعتماد کی راہ بنی، معیشت نے ہی اپنے ہی تخلیق کردہ عمران خان کو تخت سے اتارا، یہی معیشت تھی جس کی بنیاد پر جنرل باجوہ باوجود بے پناہ کوشش کے گھر بھیجے گئے اب یہ معیشت ہی ہو گی جو فاضل اداروں کے معزز حضرات کو چپ چاپ رخصتی پر مجبور کر سکتی ہے۔

پاکستان کا دورہ کرنے والے چینی وزیر خارجہ ہوں یا آئی ایم ایف، امریکہ ہو یا روس سب اس وقت پاکستان کے سیاسی عدم استحکام سے پریشان ہیں، پریشان نہیں تو ہم نہیں۔

عدالت کے ہاں اس بحران کو ختم کرنے کی کوئی جلدی محسوس نہیں ہوتی جبکہ سیاستدان حل ہاتھ میں لیے اپنی جگہ مجبور نظر آتے ہیں۔

مذاکرات میں تیس جولائی یعنی بجٹ کے بعد اسمبلیاں ایک ہی دن تحلیل کرنے پر اتفاق کا سبب بن رہا تھا کہ عمران خان نے اچانک چودہ مئی سے قبل قومی اسمبلی کی تحلیل کی شرط رکھ کر اپنی مذاکراتی ٹیم کو بے اختیار کر دیا۔

طے یہ بھی ہو رہا تھا کہ اسمبلیوں میں تحریک انصاف واپس آئے گی اور نگران سیٹ اپ میں اپنا کردار ادا کرے گی۔

مگر مذاکرات میں تعطل نے سلجھن کو الجھا دیا۔

بہر حال یہ اب بھی قابل عمل ہے کہ عمران خان مذاکرات میں واپس آئیں اور سڑکوں کی بجائے میز پر اپنے مطالبات رکھیں، ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے۔

چودہ مئی کے بعد آخری مرحلے کی چومکھی لڑائی کا آغاز ہو سکتا ہے جس میں سب اپنے اپنے پنجے لڑائیں گے، تخلیق کار اپنے کرداروں کو انجام تک خود ہی لے جا سکتے ہیں جبکہ مہمان اداکار اپنے حصے کا کردار ادا کر کے پردے کے پیچھے جا سکتے ہیں۔

عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے

 بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام

About The Author