وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچپن سے مثال سنتے آ رہے ہیں ’من حرامی تے حجتاں ڈھیر‘ یعنی دل بے ایمان ہو تو کچھ نہ کرنے کے سو بہانے۔آئین کو سو سلام مگر جب دل چاہے گا تب عمل ہو گا، کبھی کلی تو کبھی جزوی عمل ہوگا۔ نہیں دل چاہے گا تو آئین کی کمر پے ایک سو ایک تاویلات لاد دی جائیں گی۔
مثلاً اسی ملک میں جب 23 مارچ انیس سو چھپن کے آئین کے نفاز کے بعد بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلے عام انتخابات کے لیے فضا بننا شروع ہوئی اور سرد جنگ کے منڈب پر امریکی تھاپ پر تا تا تھئیا کرتی حکمران اشرافیہ (کاسہ لیس سیاستداں جمع نوکر شاہی جمع فوجی قیادت ) کو لگا کہ اکثریتی صوبے (مشرقی پاکستان) میں بائیں بازو کا قوم پرست اتحاد زیادہ نشستیں جیت کر ون یونٹ کے ترازو کا توازن تلپٹ کر سکتا ہے تو امریکیوں کو سرخ بھوت دکھا کے رضامندی لی گئی اور لولی لنگڑی جمہوریت لپیٹ کر مارشل لا لگا دیا گیا۔
جب نئے فوجی سیٹ اپ کے لیے ممکنہ خطرہ بننے والے ’شر پسند و کرپٹ‘ سیاستدانوں کو نااہل قرار دے کر الیکشن کی گیم سے باہر کر دیا گیا اور مرضی کا میدان سج گیا تو انیس سو چونسٹھ میں رن آف کچھ اور کشمیر کے معاملے پر پاکستان انڈیا کشیدگی میں مسلسل اضافے کے باوجود نہ صرف بنیادی جمہوریت کے نظام کے تحت اسی ہزار کونسلرز منتخب کیے گئے بلکہ ان کونسلرز کی مدد سے صدارتی انتخابات کا ڈرامہ رچا کے خود کو جائز کر لیا گیا۔
انیس سو ستر میں اگرچہ دیوار پر موٹا موٹا لکھا تھا کہ عوامی لیگ سب کا صفایا کر دے گی ۔مگر مشرقی پاکستان میں تباہ کن سمندری طوفان میں ایک لاکھ سے زائد جانوں کے اتلاف کے باوجود انٹیلیجینس ایجنسیوں کی ان رپورٹوں کے بھروسے پر پہلے عام انتخابات کروا لیے گئے کہ کسی جماعت کو واضح اکثریت نہیں ملے گی۔ جو بھی سویلین حکومت تشکیل پائے گی اسے اقتدار میں رہنے کے لیے عسکری اسٹیبلشمنٹ کا مرہونِ منت رہنا پڑے گا۔ یوں توازنِ طاقت صدر یحیی خان کے ہاتھ میں رہے گا اور پھر عسکریات نے انتخابات کروا کے اپنے منہ سے بڑا نوالہ اٹھا لیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کو اگلے عام انتخابات میں دو تہائی اکثریت ملنے کا اتنا یقین تھا کہ انھوں نے اپوزیشن کو سرپرائز دینے کے لیے حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے سے ایک سال پہلے ہی جنوری انیس سو ستتر میں عام انتخابات کا اعلان کر دیا۔ مگر بکھری ہوئی اپوزیشن نے پاکستان قومی اتحاد کی شکل میں بھٹو کو اس سے بھی بڑا سرپرائز دے دیا۔
جوہری ری پروسیسنگ پلانٹ اور تیسری دنیا کی یکجائی کے سلسلے میں بھٹو صاحب کی بے جا پھرتیوں سے امریکہ ویسے ہی تنگ تھا۔جبکہ اندرون ملک اپوزیشن کو گذشتہ چار برس میں ڈیفنس آف پاکستان رولز (ڈی پی آر) کے ڈنڈے سے سختی سے دبا کے رکھا گیا۔
چنانچہ قبل از وقت انتخابات کا اعلان ہوتے ہی تمام اندرونی و بیرونی بھٹو مخالف اس نکتے پر یکجا ہو گئے کہ بھلے کالا چور آ جائے بھٹو واپس نہ آئے۔
بھٹو نے اپنی بے پناہ مقبولیت ثابت کرنے کے لیے جان محمد عباسی کو اغوا کروا کے خود کو بلامقابلہ منتخب کروا لیا۔ان کی دیکھا دیکھی متعدد وفاداروں نے بھی یہی راہ منتخب کی۔ گویا کج شہر دے لوگ وی ظالم سن کج ساہنوں مرن دا شوق وی سی۔ اور پھر ایک دن بلا سارا دودھ پی گیا۔
انیس سو اسی کی دہائی کے عسکری سیٹ اپ نے بھی ملک کے ساتھ وہی کیا جو پچاس اور ساٹھ کی دہائی کے برائلر جمہوری تجربے نے کیا تھا۔ بس اب کی بار اتنا کرم ہوا کہ آئین منسوخ نہیں معطل ہوا اور اسی معطلی کے دوران آئین کو مارشل لائی میز پر لٹا کے مذہبی انیستھیسیا دے کے حسبِ خواہش پلاسٹک سرجری کر دی گئی۔
ساتھ ہی ساتھ سیاسی کلوننگ کے ذریعے ایک پوری ہم خیال کلاس پیدا کی گئی جو آج تلک بازوِ شمیشر زن کا بازوِ شمشیر زن ہے ۔کنٹرولڈ ڈیموکریسی کی ہر آئینی و نیم آئینی و غیر آئینی شکل آزمائی گئی تاکہ انتخابات والے دن جمہوریت کی جھلکی دکھلا کے عوام کی تسلی ہوتے ہی پورے اقتداری عمل کو حرم میں تالا بند رکھا جا سکے۔
ستر اور ستتر کے تلخ انتخابی تجربے سے سبق حاصل کرتے ہوئے انیس سو پچاسی سے اب تک جو بھی پولنگ ہوئی اس میں انتخاب بس اتنا کرنا تھا کہ آپ ہز میجسٹی کی وفادار سرکار کو دوبارہ منتخب کرنا چاہتے ہیں یا ہز میجسٹی کی وفادار حزبِ اختلاف کو موقع دینا چاہتے ہیں۔
چونکہ اس وقت کچھ طے نہیں کہ ستر کی طرح انتخابی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا چنانچہ ٹالنے کے لیے ایسے ایسے توجہ ہٹاؤ عذر تراشے جا رہے ہیں گویا مشرقی پاکستان کے سمندری طوفان، بھٹو کی پھانسی یا بے نظیر کی شہادت سے بڑئ آفت آ گئی ہو اور اس فضا میں انتخابات قومی خود کشی کے برابر ہوں۔
جب تک حسبِ خواہش مثبت فضا نہیں بنتی تب تک ترازو کے مالک تقسیم کار انتخابات نہیں ہونے دیں گے۔ جس کو جلد بازی لاحق ہے وہ آئین کے بانس پر چڑھ بیٹھا ہے۔ جسے ہرگز عجلت درپیش نہیں وہ آئینی بانس زور زور سے ہلا رہا ہے۔
یہ ام الدلیل بھی پاک سرزمین میں ہی دینا ممکن ہے کہ اگر چودہ مئی کو صرف دو صوبوں میں انتخابات ہوئے تو انڈیا اندرونی کشیدگی سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، دہشت گردی کی لہر آ سکتی ہے، سیاسی قوتوں کے درمیان برتشدد تصادم ہو سکتا ہے، ملکی معیشت اکیس ارب روپے کا کمرتوڑ اضافی بوجھ نہیں سہار پائے گی۔
لیکن یہی انتخابات اگر ساڑھے پانچ ماہ بعد آٹھ اکتوبر کو ہوتے ہیں تو مودی نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ را کو پاکستان میں گڑبڑ سے روکنے کے لیے دو چپت مارے گا۔ طالبان نے سینے پہ ہاتھ رکھ کے کہا ہے کہ انتخابی جلسوں کو اپنے زیرِ اثر علاقوں میں فول پروف سیکورٹی فراہم کریں گے۔ سیاسی جماعتوں کے کارکن ایک دوسرے سے سڑکوں پر گلے ملیں گے اور ملکی معیشت اگلے پانچ ماہ میں اتنی صحت مند ہو جائے گی کہ بیک وقت پورے پاکستان میں انتخابات کے لیے اسی ارب روپے کا باآسانی انتظام ہو جائے گا۔
موجودہ لڑائی سے میرا اور آپ کا کوئی لینا دینا نہیں۔یہ دراصل دودھ کی پرات پر بلیوں کی لڑائی ہے ۔ایک موٹی بلی بس اتنا چاہتی ہے کہ دوسرا موٹا بلا سارا دودھ نہ پی جائے۔ ساتھ ہی ساتھ خوخیاہٹ و پنجہ بازی اس قدر نہ بڑھ جائے کہ گرم گرم پرات ہی منہ پر الٹ جائے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر