اسلم اعوان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یورپ میں سیکولرازم اور سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامیوں کے بعد دنیا بھر میں تبدیل ہوتے سیاسی تناظر میں بھارتی سیاست کو نئے مذہبی رجحانات کے تابع لانے والوں نے قدیم تعصبات اور تکثیری انتہاپسندی کے ذریعے تاریخ کے خلاف خاموش جنگ شروع کر رکھی ہے۔ یہ ماضی سے انتقام کا وہ جذبہ ہے جو حال و مستقبل کے حوالوں سے مقامی طور پر اپنے اندرونی افق کو پُرتشدد طریقوں سے ظاہر کر رہا ہے۔ تکثیریت کے علمبرداروں نے ماضی کی ثقافت کی امین درجنوں عبادت گاہیں جلانے کے علاوہ سینکڑوں زمین زادوں کو جس بے رحمی سے کچل دیا‘ اس نے ہولوکاسٹ کے آخری ایام کی یاد تازہ کر دی؛ یعنی وہ آثارِ براہین اس لیے ناگوار نہیں کہ انہیں کبھی مسلمانوں نے بسایا تھا بلکہ اس لیے راندۂ درگاہ ہیں کہ وہ اس سرزمین پر مسلمانوں کے غلبے کے ثبوت کے طور پر ایستادہ ہیں۔ اسی ہولناک رجحان کی تازہ مثال اغوا کے الزام میں قید بھارتی پارلیمنٹ کے سابق رکن عتیق احمد کو ان کے بھائی اشرف احمد سمیت شمالی شہر پریاگ راج (الہ آباد)میں پولیس کی حراست میں‘ لائیو ٹی وی کوریج کے دوران گولی مار کر ہلاک کر دینا ہے۔ انہیں اس وقت گولیاں ماری گئیں جب میڈیکل چیک اپ کے لیے انہیں ہسپتال لیجایا جا رہا تھا۔ نوجوان قاتلوں نے فائرنگ کے بعد خود کو پولیس کے حوالے کرتے ہوئے ”جے شری رام‘‘کے نعرے لگائے، جنہیں مسلمانوں کے خلاف مہمات میں ہندو قوم پرستوں کے لیے طبلِ جنگ کی حیثیت حاصل ہے۔ دونوں بھائیوں کے اندوہناک قتل کا یہ واقعہ مقتول عتیق احمد کے 19سالہ بیٹے اسد احمد کی ساتھی سمیت پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے چند دن بعد پیش آیا، جس نے بھارتی ریاست کے منفی عزائم کی نقاب کشائی کر دی تھی۔ ساٹھ سالہ عتیق احمد چار بار مقامی ریاست میں قانون ساز اور 2004ء میں مرکزی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حالیہ برسوں میں اتر پردیش میں 180 سے زیادہ افراد کو مبینہ پولیس مقابلوں میں ہلاک کیا گیا ہے۔ 2019ء میں اقوام متحدہ نے بھارت کی 20 کروڑ آبادی کی حامل ریاست اتر پردیش میں پولیس کے ہاتھوں مبینہ ہلاکتوں کے بارے میں خصوصی الرٹ جاری کیا تھا۔ آزاد ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز مانیٹرنگ گروپ کے مطابق بھارت بھر کی تمام جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں سیاست دانوں کے خلاف ہزاروں فوجداری مقدمات زیرِ التوا ہیں، اتر پردیش کابینہ کے تقریباً نصف وزرا مبینہ طور پہ مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث بتائے جاتے ہیں۔ 2017ء میں وزیراعظم نریندر مودی کی جماعت بی جے پی کے اتر پردیش میں اقتدار میں آنے کے بعد ریاست کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے درجنوں مقدمات واپس لیے گئے۔
بھارت میں مذہب اور سیاست کا یہ نیا امتزاج منظم جرائم کے علاوہ کئی دیگر جہتیں بھی رکھتا ہے۔ اگرچہ اس اختلاط کی جڑیں برہمنی ویدک روایت کی ریاستی سرپرستی کے اُس تصور میں پیوست ہیں جس میں مذہب کی ریاستی پشت پناہی اس امرکو یقینی بناتی تھی کہ مذہبی رہنما بدلے میں ریاست کی حفاظت کریں گے؛ چنانچہ موجودہ ہندوستان کے ارتقا کا انوکھا پہلو بھی برہمنوں کی اخلاقی اتھارٹی کی سطح ہے جو ریاست کی حاکمیت سے مطلقاً آزاد ہیں۔ 1947ء میں جب ہندوستان کو برطانوی راج کے اختتام پہ آزادی ملی تو ہندوستان کے نئے آئین میں سیکولر جمہوریہ کا تصور پیش کیا گیا جس میں بہت سی مغربی جمہوریتوں کی طرح مذہب کو سیاست سے جدا رکھنے کا اصول نمایاں تھا۔ اسی پرنسپل آف پالیسی کے تحت حکومت نے کسی ایک گروہ کی بے جا حمایت کیے بغیر ہندوستان کی متنوع مذہبی اکائیوں کو یکساں طور پہ اپنانے کی کوشش کا عندیہ دیا لیکن کئی دہائیوں تک سیاست دانوں نے مذہب و سیاست کے مابین قائم اس کمزور خطِ امتیاز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آئینی حدود کو پامال کرنے میں اپنا فائدہ تلاش کیا۔ خاص طور پر انڈین نیشنل کانگرس کی قیادت‘ جو روایتی طور پر سیکولر قوم پرستی کے لیے اپنی وابستگی پر اتراتی رہی لیکن عملاً کانگریس نے اکثر اپنے بدلتے ہوئے سیاسی مفادات کے مطابق مذہبی جذبات کو انگیخت دینا گوارا بنایا۔ اسی رجحان کو سابق بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے دور میں شدت سے بڑھایا گیا؛ چنانچہ 1990ء کی دہائی کے آخر میں بھارت کے انتخابی ماحول میں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی انتخابی کامیابی کے ساتھ کچھ مذہبی عناصر کو سیاست میں شمولیت کی راہ ملی۔ اگرچہ بی جے پی کا ستارہ 2000ء کی دہائی کے بیشتر عرصے میں مدھم رہا لیکن وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں پچھلے دس سالوں میں اس کی ایسی نشاۃِ ثانیہ ہوئی جس میں بی جے پی کی انتخابی کامیابی نے مذہبی قوم پرستی کو سیکولر نیشنلزم کے سامنے لا کھڑا کیا۔ بی جے پی کی اساس سیکولر اصولوں پر نہیں بلکہ وہ ہندو مذہبی ثقافت کو سیکولرہندوستانی ثقافت سے متصادم دیکھنا چاہتی ہے۔ ہرچند کہ بھارت کی سیکولر روایت سے رُخ گردانی کا محرک اندراگاندھی کی موت کے بعد کی پالیسی بنی لیکن بھارت کے سیاسی مستقبل اور تنوع میں توازن کے حامل اصولوں سے کانگریس کی دیرینہ وابستگی کے بارے میں آج بھی تلخ سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ جدید ہندوستان میں سیاسی اور ثقافتی تصادم کا محور ہندوستان کی جمہوری طرزِ حکمرانی کے وسیع فریم ورک کے اندر قوم پرستی کے مسابقتی تصورات سے پیدا ہوا۔ جب بھارت کے آئین کا مسودہ تیار کیا جا رہا تھا، اس سے کافی پہلے بھی‘ ہندوستان کی قومی شناخت اور ان اقدار اور اصولوں کے بارے میں شدید بحث کی ابتدا موتی لال نہرو نے چھیڑی تھی(فرسٹ نہرو رپورٹ) جسے ”آئیڈیا آف انڈیا‘‘کی اساس سمجھا گیا تھا۔ یعنی برصغیر سے مسلمانوں کی نسل کشی کا منصوبہ تقسیمِ ہند کی سکیم میں مضمر تھا لیکن اس وقت کی سیاسی قیادت اس میں پنہاں اسرار و رموز سے ناواقف تھی۔
کانگرس کے سیاسی غلبے کو ہندوستان کے غیر معمولی تنوع میں توازن لا کر سیکولر قوم پرستی کے ذریعے 1947ء کے بعد ہندوستان کی شناخت کی وضاحت کا بہترین موقع ملا تھا اور بظاہر پہلے بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی سرپرستی میں ہندوستان کی مابعد نوآبادیاتی قیادت نے کسی ایک مذہب کو دوسرے پہ فوقیت دینے سے انکار کرکے قومی تعمیر کے پُرجوش منصوبے کا آغاز بھی کیا کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ اس وقت کسی ایک مذہبی گروہ کی حمایت سے بھارت کے نئے عمرانی معاہدے کو نقصان پہنچے گا؛ چنانچہ بھارت کے سیکولر طبقے نے جمہوری مملکت کے ابتدائی سالوں میں نمایاں فتح حاصل کی لیکن یہ دوغلی قوم پرستی شکست و ریخت کا شکار بن کر رفتہ رفتہ منظر سے غائب ہونے لگی اور ہندوستان کی شناخت کا متبادل نظریہ ”ہندو قوم پرستی کا غلبہ‘‘ بتدریج ظہور پذیر ہوتا گیا، جو درحقیقت اس کے سیکولر مدمقابل کی کوکھ میں پہلے سے رکھ دیا گیا تھا اور جو وقت کے ساتھ پل بڑھ کر آج ہندو اکثریت پرستی کے عروج کی شکل میں انسانیت کا منہ چڑا رہا ہے۔
6 دسمبر 1992ء کو ریاستی سرپرستی میں مغلیہ دور کی تاریخی بابری مسجدکو جن ہندو مذہبی انتہا پسندوں نے ملبے کا ڈھیر بنا یا‘ ان کا دعویٰ تھا کہ اس جگہ رام جی کا قدیم رام مندرہوا کرتا تھا۔ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی مسمار کی گئی مسجد کی تصاویر نے بابری مسجد سے پہلے اور بعد کے بھارت کے تصور کی نشاندہی کر دی، جو دراصل اُس سیکولر قوم پرستی کے انہدام کے آغاز کا اشارہ تھا جو ہندوستانی سرزمین پر کثرتیت کے تمام امکانات کو مسترد کرتا تھا۔ اسی پیش دستی کے بعد بھارت کے طول و عرض میں مسلم کش فسادات اور مساجد و خانقاہوں کے خلاف جنگی بنیادوں پہ مہمات اُٹھ کھڑی ہوئیں جنہیں عدالتی پشت پناہی نے مہمیز دے کر زیادہ مہلک بنا دیا۔
ماہرین کے مطابق ہندوستانی قومی تحریک کے ابھرنے کے بعد سے تین مسابقتی موضوعات سیاسی جدلیات کا محور بنے۔ پہلا ہندوستان کا علاقائی تصور، جو مغرب میں کوہِ سلیمان، شمال میں ہمالیہ اور جنوب مشرق میں سمندر اس کے ‘مقدس‘ جغرافیے کی صورت گری کرتا ہے۔ یہاں کا ثقافتی تصور اس خیال پہ محمول تھا کہ انڈین معاشرے کی تعریف رواداری، تکثیریت اور ہم آہنگی کی اقدار سے ہو، یہی آخری پہلو مذہبی ثقافت پر زور دیتا ہے، یعنی ہندکے نام سے معروف سرزمین دراصل اُس آریہ ہندو برادری کا وطن ہے جنہوں نے ساڑھے چار ہزار سال قبل ہندکو تسخیر کیا۔ اگرچہ آریہ سے پہلے کی دراوڑ اور بھیل نسلوں کی مذہبی برادریاں بھی ہندوستان کو اپنا گھر کہتی ہیں مگر ان میں سے اکثر ہندومت یا اسلام کی مذہبی شناختوں میں مدغم ہو چکی ہیں، لیکن اسی نقطۂ نظر کے حامی بی جے پی والے ہندوستان کو بنیادی طور پر ہندو اکثریت سے تعلق رکھنے والوں کی ملکیت کے طور پر دیکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
کشمیریوں کا مستقبل۔۔۔اسلم اعوان
اپوزیشن جماعتوں کی آزمائش۔۔۔اسلم اعوان
پیراڈائم شفٹ میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟۔۔اسلم اعوان
افغانستان کا بحران عالمی ایشو نہیں رہا۔۔۔اسلم اعوان
عورتوں میں ہم جنس پرستی پر یہ مشہور کہانی لکھنے والی عصمت چغتائی۔۔۔اسلم ملک
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ