نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آئین : گنجائش، آزمائش اور فرمائش!||نعیم مسعود

ستم تو یہ ہے کہ ظالم سخن شناس نہیں بہرحال تیسری بات یا تیسری آزمائش تو یہ بھی کم نہیں کہ دنیا میں ہمی ہیں جنہیں نگران حکومتوں کی ضرورت رہی! ہمی کو مطلوب و مقصود ٹھہرا کہ جمہوریت کو آمریت کی کھیتی میں اگائیں؟ کیا ہمارا سیاسی ڈھانچہ اس قدر کمزور اور ناتواں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد کے بغیر چل ہی نہیں سکتا؟ اسی لئے فقیر آج کل کبھی کبھی مطمئن رہتا ہے کہ جو نگرانوں کو لاتے ہیں وہی جانیں گے اور وہی سنبھالیں گے، ہمیں کیا؟

نعیم مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نہیں معلوم اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا تاہم یہ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ عمران خان کو بہت اہمیت دے رہے ہیں۔ اس کی وضاحت کچھ یوں ہے، بار ہا فاضل جج کہہ چکے کہ آئین نوے دن میں الیکشن کی بات کرتا ہے، الیکشن کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ لیکن کل فرما رہے تھے اگر تما پارٹیاں متفق ہوں تو عدالت کوئی راستہ نکال سکتی ہے۔ مطلب یہ ہوا راستے نکلتے ہیں، راستے نکالے جاتے ہیں، اب عمران خان کے علاوہ سبھی کہہ رہے ہیں وقت کا تقاضا پورے ملک میں الیکشن اکٹھے کرائیں، یہ پنجاب اور کے پی میں پہلے نہیں، مگر چیف جسٹس صاحب کہتے ہیں نہیں، اب کہتے ہیں سب آئیں، یعنی خان بھی آئے پھر راستہ ہے۔ پس یہ ثابت ہوا راستہ ہے، جو عدالت کہہ رہی تھی راستہ نہیں ہے، وہ غلط تھا، کیونکہ عدالت تہیہ کیے ہوئے ہے کہ راستہ صرف عمرانی رضامندی کی صورت میں ہے!

راقم جس صبح یہ سب سپرد قلم کر رہا ہے، اسی کی دوپہر یا سہ پہر کو سپریم کورٹ کا فیصلہ متوقع ہے کیونکہ کل تو عیدالفطر 2023 ہو گی۔

اس کالم میں تین اہم باتوں کا تذکرہ مقصود ہے پہلی بات ابتدائیہ ہی میں سمٹ گئی کہ، خواہش یا منشاء سارے زمانے کی ایک طرف اور عمران خان کی ایک طرف۔ اگر عمران خان راضی تو ایک ہی دن میں تمام انتخابات کا عدالت دریچہ کھول دے گی، اور عدالت تو کہتی میں نے آئین سے ادھر ادھر نہیں جانا۔ صاف ظاہر ہے گنجائش ہے مگر صرف عمران خان کے لئے! حالانکہ فل کورٹ بنانا عین آئینی و قانونی مطالبہ تھا، وہ بھی چیف جسٹس نہ مانے، اور اب خود گنجائش نکالنے چلے ہیں، ۔ اجی آئین میں اس ”گنجائش“ کی گنجائش اب دریافت کیسے؟

دوسری بات یہ کہ، عدالتیں جو بھی کر رہی ہیں، سب غور کر رہے ہیں، جن کے حق میں بات جا رہی ہے وہ بھی اور جن کے حق میں نہیں جا رہی وہ بھی۔ اس لئے اقتدار میں کوئی بھی آئے یہ طے ہے کہ آئندہ قومی اسمبلی ججوں کی تقرریوں، ازخود نوٹس، مالی معاملات اور شکایات کے حوالے سے آئینی ترامیم میں مزید رد و بدل ہو گا، اور ضرور ہو گا۔ قلیل المدت جو بھی عزائم ہوں لیکن طویل المدت حل ضرور نکالا جائے گا کہ کسی حکومت میں عدالتیں اپنی حدود سے نکل کر انتظامی یا پارلیمانی شاہراہ پر نہ چل نکلیں!

کئی دفعہ دوست یہ سوال اٹھاتے ہیں، پاکستان کی سیاست جمعیت علمائے ہند اور جماعت اسلامی بھی ہیرو تھے اور جناح بھی، محترمہ فاطمہ جناح بھی عوامی رہنما اور مقابلہ پر جنرل ایوب خان بھی، مجیب بھی ہیرو اور بھٹو بھی، پھر بھٹو بھی ہیرو اور ضیاء بھی، بعد ازاں جنرل مشرف بھی ہیرو اور نواز شریف بھی، یہی نہیں آرمی اور عوام سے نکل کر ہیروگری عدالت میں بھی آ پہنچی کہ یوسف رضا گیلانی بھی ہیرو اور جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی، چلتے چلتے، شہباز شریف بھی ہیرو اور جسٹس عمر عطا بندیال بھی، اجی، جناب چیف جسٹس بندیال بھی ہیرو اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی! یہ 75 سالہ سیاسی زندگی کے کیسے کیسے ارتقائی موڑ ہیں؟ یا یہ سیاسی و سماجی تغیر (میوٹیشن) ہے؟ بقول پروین شاکر:

یہ کیسی دھند میں ہم تم سفر آغاز کر بیٹھے
تمہیں آنکھیں نہیں ملتی ہمیں چہرہ نہیں ملتا

نظریہ ضرورت کے کئی ادوار ہیں، لیکن بڑے دو دور1947ء سے 1975ء، اور 1973 سے تاحال ہیں جن میں اپنے اپنے انداز کے دستور زبان بندی بھی رہے اور آئینی فرمائش و دستوری گنجائش و ترمیمی آزمائش بھی:

آزمائش میں کٹی کچھ امتحانوں میں رہی
زندگی کن راستوں میں کن ٹھکانوں میں رہی
وہ زمیں کی سرحدوں میں ہی رہا انجمؔ مقیم
کیوں تلاش انسان کو پھر آسمانوں میں رہی

ستم تو یہ ہے کہ ظالم سخن شناس نہیں بہرحال تیسری بات یا تیسری آزمائش تو یہ بھی کم نہیں کہ دنیا میں ہمی ہیں جنہیں نگران حکومتوں کی ضرورت رہی! ہمی کو مطلوب و مقصود ٹھہرا کہ جمہوریت کو آمریت کی کھیتی میں اگائیں؟ کیا ہمارا سیاسی ڈھانچہ اس قدر کمزور اور ناتواں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد کے بغیر چل ہی نہیں سکتا؟ اسی لئے فقیر آج کل کبھی کبھی مطمئن رہتا ہے کہ جو نگرانوں کو لاتے ہیں وہی جانیں گے اور وہی سنبھالیں گے، ہمیں کیا؟ پرانی حکومت کے جانے کے بعد اور نئی آنے کے بعد درمیان جو نگران ہوتے ہیں کیا وہ بظاہر غیر سیاسی ڈھونڈ کر سیاسی کلاکاری کے مظاہرے کے لئے نہیں ہوتے؟ بھئی واہ! ہم نے سیاسی بھی کہلانا اور جمہوری بھی مگر عدالتوں کی دیگ میں اور مقتدر کی آنچ پر گویا سیاست دان کو گالی بنانے والے جرنیلوں نے تو ایکس سروس مین سوسائٹی بن کر سول سوسائٹی کے بھی ”حلالے“ کرنے کی روش کو خیر باد نہ کہنے کی قسم کھا رکھی ہے، اور کچھ جمہور پسندوں کی زندگانی بس سولی اور گولی کو چومنا ہی رہ گیا!

گل کے ہونے کی توقع پہ جئے بیٹھی ہے
ہر کلی جان کو مٹھی میں لیے بیٹھی ہے

کبھی جمہوریت تراش انجینئروں سے خوف آتا تھا اب تقسیم در تقسیم نظریہ ضرورت کے جماعت منصفین سے ڈر لگتا ہے۔ پہلے محض ”غدار“ کی سنگ بار لفاظی سے خوف آتا تھا اب تو ”وضع دار“ جیسی ریشمی لفاظی سے بھی ڈر لگنے لگا ہے۔ کسی کی فرمائش ہماری جان پر ایسی آزمائش بن جاتی ہے کہ ہم بھی اپنے اندرونی اندیشوں کا محلول گھول کر روح کی پیاس سیراب کرتے یہ سوچتے رہ جاتے ہیں کہ :

غم دنیا بھی غم یار میں شامل کر لو
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں

بشکریہ:روزنامہ جنگ

یہ بھی پڑھیے:

محبت: جی بی کے بعد آزاد کشمیر؟۔۔۔ نعیم مسعود

اپنی اصلاحات کا موڑ کب آئے گا؟۔۔۔ نعیم مسعود

عالمی و قومی منظرنامہ اورصدر آزادکشمیر!۔۔۔ نعیم مسعود

زرداری رونمائی، مولانا اِن ایکشن، خان اِن ٹربل؟ ۔۔۔ نعیم مسعود

نعیم مسعود کے دیگر کالمز پڑھیے

About The Author