نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایبسولوٹلی ناٹ !!!۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی صدارت میں ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کہا گیا کہ الیکشن فنڈز کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی، اس کا مطلب ہے کہ 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کیلئے فنڈز فراہمی کا فیصلہ نہیں ہو سکا جس سے بحران میں اضافے کا خدشہ ہے، مسئلے کا حل الیکشن ہیں اور الیکشن بھی پورے ملک میں بیک وقت ہونے چاہئیں، اس سلسلے میں تحریک انصاف، پی ڈی ایم اور دیگر جماعتوں کو مسئلے کے حل کیلئے مذاکرات کی میز پر آنا چاہئے۔ دوسری طرف عمران خان نے ایک بار پھر یوٹرن لے لیا ہے اور کہا ہے کہ مجھے اقتدار سے ہٹانے کیلئے سازش امریکہ نے نہیں کی حالانکہ اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد انہوںنے جو طوفان اٹھایا اور بھٹو بننے کی کوشش کی ، نوجوانوں کے جذبات سے کھیلا تو اس کے بعد انہوں نے آپ ہی اپنے غبارے سے ہوا نکال دی ۔ اب نوجوان اور اہل وطن خود عمران خان سے کہہ سکتے ہیں کہ ’’کیا ہم آپ کے غلام ہیں جو آپ کہیں ہم مان لیں، Absolutely Not‘‘۔ بلاشبہ سیاسی میدان اور پارلیمانی ایوان سے ہوتی ہوئی اقتدار کی جنگ اب عدالتوں تک جا پہنچی ہے، اس سلسلے میں پی ڈی ایم اور تحریک انصاف کے درمیان رسہ کشی جاری ہے، پاکستانی قوم جو کہ غربت ، بیروزگاری اور مہنگائی کے عذاب میں مبتلا ہے اب اُسے سیاسی جنگ نے ذہنی اذیت کا شکار کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے 14 مئی کو پنجاب اسمبلی کے الیکشن کرانے کا فیصلہ آیا تو اہل پاکستان کو یہ لفظ پہلی مرتبہ سننے کو ملے کہ حکومت نے عدالتی فیصلہ ’’مسترد‘‘ کر دیا ہے۔ فیصلے کے بعد حکومت نے از خود نوٹس کے قانون میں ترمیم کا فیصلہ کیا اور حکومت نے بل صدر مملکت کو بل بھیجا۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023ء آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت نظر ثانی کے لیے پارلیمنٹ کو واپس بھجوادیا۔آج کل ہر تقریب میںوزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری تخت لاہور کی بات کر رہے ہیں ، گزشتہ دنوں انہوں نے کہا کہ تخت لاہور کی سیاسی جنگ پورے پاکستان کو لے ڈوبے گی۔ حقیقت یہی ہے کہ سیاسی بحران تخت لاہور کی سیاسی جنگ کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ پنجاب بہت بڑا صوبہ ہونے کی وجہ سے لوگ وزیر اعظم کے عہدہ کی خواہش کم رکھتے ہیں اور پنجاب کے وزارت اعلیٰ کا خواب سب کے دل میں سمایا ہوا ہوتا ہے کہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ نصف پاکستان سے زیادہ حکمرانی کی ہے۔ سرائیکی وسیب کے مخدومزادہ حسن محمود سمیت نجانے کتنے جاگیردار سیاستدان ہیں جو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بننے کی خواہش قبر تک لے گئے۔ اسی طرح مخدوم شاہ محمود قریشی کو صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں اسی بناء پر شکست دلائی گئی کہ وہ پنجاب کے وزارت اعلیٰ کے خواب دیکھ رہے تھے جبکہ عمران خان ایک ایسے عام اور فرمانبردار شخص کو وزیر اعلیٰ بنوانا چاہتے تھے جس کا کام محض دستخط کرنا ہو، میاں نواز شریف نے یہی پریکٹس غلام حیدر وائیں کی صورت میں کی تھی۔ عدالتی بحران کے پس منظر پر غور کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ چیف جسٹس نے غلام محمد ڈوگر ٹرانسفرکیس میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی کے نوٹ پر انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس لیا تھا اور 9رکنی بینچ تشکیل دیا تھا، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے لیے سپریم کورٹ میں 23 فروری کو ہونے والی ازخود نوٹس کیس کی پہلی سماعت میں جسٹس اطہرمن اللہ بینچ سے علیحدہ ہوگئے تھے اور انہوں نے الگ سے نوٹ بھی تحریر کیا تھا ۔9 رکنی بینچ میں شامل 4 ججز بینچ سے علیحدہ ہوگئے اور انہوں نے ازخود نوٹس کو مسترد کیا ، ان میں جسٹس اطہر من اللہ کے علاوہ جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل شامل ہیں۔ یہ تمام عدالتی کارروائی اپنی جگہ درست مگر یہ بھی دیکھئے کہ لاکھوں مقدمات عدالتوں میں سالہا سال سے زیر التوا چلے آ رہے ہیں، ان میں سنگین مقدمات بھی شامل ہیں ، کچھ مقدمات تو ایسے بھی ہیں کہ دادا کے دور سے شروع ہوئے ، دادا فوت ہوئے ، والد بھی اللہ کو پیارے ہوئے اور پوتے انصاف کے منتظر نظر آتے ہیں۔ اقتدار کی جنگ میں اداروں کو استعمال نہیں کرنا چاہئے،ہر ادارہ اپنی اپنی حدود میں رہ کر اپنا اپنا کام کرے اور سیاستدانوں کو بھی ملک اور قوم کے بارے میں سوچنا چاہئے اور ملک اور قوم کی بہتری کیلئے ضد اور ہٹ دھرمی سے گریز کرنا چاہئے ، ہم رہیں گے یا وہ رہیں گے والی سیاسی سوچ کا خاتمہ ضروری ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے کور کمیٹی اجلاس کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ مذاکرات کے دروازے بند کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں۔ پارٹی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ آزادانہ اور منصفانہ عام انتخابات کے لئے تمام اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن کرائے جائیں جیسا کہ آئین میں کہا گیا ہے۔ پارٹی نے اس بات کا اعادہ بھی کیا کہ آئین کے مطابق عام انتخابات کی تاریخ میں کسی قسم کی تاخیر نہ کی جائے۔ ملک کی معاشی حالت ابتر ہو چکی ہے، غریب عوام کے ٹیکسوں کے ماحصل سے غریبوں کو جو آٹا دیا جا رہا ہے وہ اتنا ناقص ہے کہ انسان تو کیا جانور بھی نہیں کھا تے، آٹے کی تقسیم میں کرپشن کے قصے بھی ہر زبان زدعام ہیں، کہا جا رہا ہے کہ انتظامیہ کی ملی بھگت سے مفت آٹا سکیم کے تھیلے بھی فروخت کئے جا رہے ہیں۔ امن و امان کی صورتحال اس قدر خراب ہے کہ خان پور کے سابق ایم ایس تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال ڈاکٹر حسن کے دو بیٹوں کو سکول جاتے وقت اغوا کر لیا گیا، اس سلسلے میں خان پور کے ممبر قومی اسمبلی شیخ فیاض الدین نے قومی اسمبلی میں یہ مسئلہ اٹھایا۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلوں کا مسئلہ اس قدر الجھا ہوا ہے کہ وسیب کے بچے داخلے نہ ملنے کی وجہ سے ذہنی مریض بن چکے ہیں ، میڈیکل کے داخلوں میں بھی کرپشن کی شکایات ہیں۔ ٭٭٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author