وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ کل اپریل کی دس تاریخ تھی۔ 50 برس قبل اسی تاریخ کو قائد اعظم کے بچے کھچے پاکستان کے منتخب نمائندوں نے قومی دستور منظور کیا تھا۔ آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی کی مناسبت سے قومی اسمبلی ہال میں دستور کنونشن منعقد کیا گیا جس میں اراکین پارلیمنٹ اور اعلیٰ عدلیہ سمیت ممتاز قومی شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا۔ اس موقع پر 10 اپریل کو یوم دستور قرار دیا گیا نیز قرارداد منظور ہوئی کہ آئین پاکستان کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ آپ کا نیاز مند مگر اس تقریب میں پاکستان کے ایک کروڑ اقلیتی شہریوں کے نمائندہ مسیحی چرچ، ہندو پنچایت، سکھ گوردوارہ پربندھ اور پارسی عمائدین کو ڈھونڈتا رہا۔ اس دن کی مناسبت سے بہت کچھ یاد آیا۔ لکھنے والے کا قلم سوزن کار کے ہنر سے یک گونہ مناسبت رکھتا ہے۔ درزی کی سوئی کبھی عروس کے حجاب لالہ گوں میں موتی ٹانکتی ہے تو کبھی سفید کفن میں بخیہ لگاتی ہے۔ اختر حسین جعفری نے کس حزن سے لکھا تھا، یہ کیسی چادر گل ہے جو دلہن پر نہیں سجتی/ قبر کے رقبہ تاریک پر پوری اترتی ہے۔ قلم بھی تاریخ کے اتار چڑھاﺅ کی امانت اٹھاتا ہے۔
ہماری تقویم میں اپریل کی دس تاریخ صرف 1973 میں نہیں آئی۔ 1986 ءمیں دس اپریل کو بے نظیر شہید وطن واپس لوٹیں تو اہل لاہور نے اس خروش سے ان کا استقبال کیا تھا کہ اسلام آباد کے ایوان اقتدار پر قابض آمریت کی بنیادیں لرز اٹھی تھیں۔ 1988ء میں 10 اپریل ہی کو راولپنڈی کے اوجڑی کیمپ میں فوجی گولہ بارود کے ذخیرے میں دھماکوں نے تباہی مچا دی تھی۔ 100 سے زائد شہری جان سے گئے اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ اوجڑی کیمپ میں بھڑکنے والی آگ کی انکوائری رپورٹ کے قضیے ہی نے جونیجو حکومت کا کریا کرم کیا تھا۔ 10 اپریل سے بہت قریب جڑی ہوئی ایک یاد یہ ہے کہ 2010ء میں اس تاریخ سے دو روز پہلے 8 اپریل 2010ء کو قومی اسمبلی نے اٹھارہویں آئینی ترمیم منظور کر کے کتاب آئین سے آمریت کے بہت سے دھبے دور کر کے آئین کا پارلیمانی تشخص بحال کیا تھا۔ صوبائی خودمختاری کا چالیس سالہ پرانا وعدہ پورا کیا تھا۔ آمریت کی ذریات نے 2008ء میں ابھرنے والے سیاسی منظر کو روز اول ہی سے قبول نہیں کیا تھا لیکن اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد پراجیکٹ عمران پر جم کر کام شروع ہوا۔ میمو گیٹ سکینڈل، دھرنوں، ڈان لیکس، پاناما اور آر ٹی ایس کے انہدام سے گزرتا ہوا یہ تجربہ 2021ء کے موسم خزاں میں بے قابو ہو گیا۔ یہ رستا خیز ابھی تمام نہیں ہوئی۔ ہیں گھات میں ابھی کچھ قافلے لٹیروں کے / ابھی جمائے رہو مورچے کنارے پر….
دستور پاکستان ریشم کی وہ ڈوری ہے جس میں وفاق پاکستان کی اکائیاں اور یہاں بسنے والے تمام مذہبی، ثقافتی اور لسانی گروہ پروئے ہوئے ہیں۔ قاضی فائز عیسیٰ نے اس دستاویز کو ہمارا آسمان قرار دیا ہے۔ قانون کے شناور قاضی صاحب کا ارشاد سر آنکھوں پر مگر آسمان تو بسیط خلاﺅں میں حد نظر کا استعارہ ہے۔ آئین اہل پاکستان کے لیے سائبان ہے، جس کی چھاﺅں اٹھ جائے تو حالات کے سرد گرم سے پناہ باقی نہیں رہتی۔ دستور پاکستان کی نصف صدی مکمل ہونے پر جشن تسلیم لیکن اس اعلیٰ ترین دستاویز کے ساتھ پچاس برس میں روا رکھے گئے سلوک سے سبق سیکھنے کے لیے تاریخ کا اعادہ بھی ضروری ہے۔ کیسے فراموش کیا جائے کہ دستور پاکستان میں بنیادی حقوق کی ضمانتوں کو نفاذ دستور کے چند گھنٹے بعد ہنگامی حالت نافذ کر کے معطل کر دیا گیا تھا۔ 5 جولائی 1977 کو اس دستور کے تحت حلف اٹھانے والے بندوقوں سمیت شہر پناہ پر حملہ آور ہو گئے۔ ستمبر 1977ء میں ایک انٹرویو دیتے ہوئے فوجی آمر نے فرمایا تھا۔ ’آئین کیا چیز ہے۔ یہ دس بارہ صفحوں کا ایک کتابچہ ہی تو ہے۔ میں جب چاہوں اسے پھاڑ کر پھینک سکتا ہوں۔ کیا مجھے ایسا کرنے سے کوئی روک سکتا ہے۔‘
22 برس بعد اکتوبر 99ء میں ایک بار پھر دستور پر شب خون مارا گیا۔ روایت کے مطابق وزیراعظم ہاﺅس میں گھسنے والے جنرل محمود نے منتخب وزیراعظم سے کہا تھا کہ ’آئین کیا ہے؟ یہ اب ہم آپ کو بتائیں گے‘۔ آمریت کی اپنی رسم و روایت ہوتی ہے۔ جنرل محمود تو 7 اکتوبر 2001ء کو رخصت کر دیے گئے لیکن 12 اکتوبر 99ء کو آئین سے روگردانی کرنے والے آمر نے آئین کو ’کوڑے دان کے قابل‘ قرار دیا تھا۔ اپنے اس خیال کی توثیق میں جنرل مشرف نے سترہویں آئینی ترمیم کے ذریعے نومبر 2003ء میں ایک بار پھر آئین کا حلیہ بگاڑا۔ مشرف کے ایک ساتھی جنرل شاہد عزیز نے اپنی کتاب میں سیدھے سیدھے لکھ دیا کہ ’آئین ایک سڑی بسی شے ہے۔ کیا اس کی حفاظت کرنا میرا ہی ذمہ رہ گیا تھا‘۔ جنرل صاحب نے جملہ واحد میں دو غلطیاں کیں۔ پہلی تو یہ کہ ان کی ذمہ داری آئین کی حفاظت نہیں، اطاعت تھی۔ دوسری یہ کہ آئین کی حفاظت سے انکار کرنے والوں کو کہیں امان نہیں ملتی۔ جنرل شاہد عزیز کا ٹھیک ٹھیک انجام آج بھی اسرار کے اندھیروں میں ملفوف ہے۔
اکتوبر 99ء میں آئین سے انکار کرنے والے آمر پرویز مشرف کو عدالت عظمیٰ کے حکم پر خصوصی عدالت میں طلب کیا گیا تو بہادر جنگجو ملک سے فرار ہو گیا۔ مرحوم نے اپنی زندگی ہی میں بتا دیا تھا کہ ملک سے نکلنے میں کس نے اس کی معاونت کی تھی۔ اہل وطن صرف یہ جانتے ہیں کہ اسے سنائی گئی سزا ختم کر دی گئی۔ فیصلہ سنانے والی عدالت غیر قانونی قرار پائی اور فیصلہ سنانے والا منصف پراسرار حالات میں ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا۔ تاریخ کے ان پیچ و خم سے گزرنے والا دستور مگر آج پچاس برس کا ہو گیا ہے۔ پارلیمنٹ میں خوشی سے بجائے گئے ڈیسکوں کی گونج گواہ ہے کہ آئین خاموش نہیں ہوا کرتا۔ آئین ایک زندہ دستاویز ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر