ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بس چلتی جاتی اور ساتھ میں دیواریں بھی۔ بس آگے کو دوڑتی، دیواریں پیچھے کو اور کھڑکی کے شیشے سے ناک چپکائے ہر منظر ایک چھوٹی متجسس بچی کے لیے قابل دید۔
دکانوں کے بل بورڈ، دفتروں کے بورڈ، سڑک کے کنارے لگے بینرز، سڑک کے کنارے لگے اشتہار۔ کچھ بھی تو نہ چوکتا اس کی آنکھ سے، اور ہاں دیواروں پہ لکھی عبارات بھی جو ہر سڑک پر کچھ دیر بعد نظر آ جاتیں اور اتنی بار کہ گھر پہنچتے پہنچتے اسے حفظ ہو جاتیں۔
”پوشیدہ بیماریوں کا کامیاب علاج، سو برس پرانا قدیمی نسخہ۔ سندربن اور ہما لیہ سے لائی گئی جڑی بوٹیاں۔ مکمل رازداری۔ آتشک اور سوزاک کے پرانے مریض ایک بار ضرور آزمائیں“
”سنیاسی بابا کی حکمت آزمائیے، شرمائیے نہیں۔ زندگی ختم نہیں ہوئی، غلطی کا کفارہ موت نہیں۔ آتشک اور سوزاک کا گارنٹی کے ساتھ علاج۔ پردے کی سہولت موجود“
ڈاکٹر بننے کا شوق تو بچپن سے ہی تھا، فوراً سوچ میں پڑ جاتے، پوشیدہ بیماریاں، راز داری، ہمالیہ اور سندربن کے جنگل۔ کیا مطلب؟ کیا شرلاک ہومز بن کر علاج کرنا پڑے گا ہمیں؟ شرلاک ہومز کا خالق ویسے ڈاکٹر ہی تھا سو واسطہ پڑتا ہو گا پر اسرار بیماریوں سے تبھی تو شرلاک ہومز کردار لکھ ڈالا۔ عمران سیریز اور شرلاک ہومز کے کارنامے تو ہم نے بھی زبانی یاد کر رکھے تھے کہ جاسوسی سے تھی بے انتہا دل چسپی۔
چلو پھر ہم بھی کریں گے پوشیدہ امراض کا علاج۔ مگر سندربن اور ہمالیہ کیسے جائیں گے؟ آتشک اور سوزاک ہے کیا؟ کیا ہمارے گھر میں بھی پوشیدہ بیماری ہے کسی کو؟ کیا کوئی چڑھا ان پرانی سیلن زدہ عمارتوں کی سیڑھیاں؟
ہسپتال میں کیا پوشیدہ بیماریوں کا علاج نہیں ہوتا؟ سنیاسی بابے ہی کیوں ان بیماریوں کا اشتہار لگاتے ہیں؟ لوگ ان کے بارے میں بات کیوں نہیں کرتے؟
گھر پہنچنے تک ذہن میں سوالوں کا انبار جمع ہو چکا ہوتا۔ آپا کے سر ہونے میں ہمیں ملکہ حاصل تھا اور انہیں ہتھیار پھینکنے میں۔ ہم پیر تسمہ پا کی مانند ان کے سر پہ سوار ہو جاتے اور تب تک جان نہ چھوڑتے جب تک بات اگلوا نہ لیتے۔
آپا کیا امراض بھی پوشیدہ ہوتے ہیں؟
افوہ۔ کیا عجیب سے سوال پوچھنے آ جاتی ہو تم روزانہ؟
لو جناب پورے شہر کی ہر دوسری دیوار پہ تو بڑا بڑا لکھا ہے، آنکھیں بند بھی کر لو تو پڑھا جا سکتا ہے۔ ترنت جواب۔
بتائیے نا۔ ہمارا اصرار۔
کیوں؟ تمہیں کیا کرنا ہے جان کر؟
علاج۔
ہائیں، کس کا؟
پوشیدہ امراض کا۔
توبہ ہے، عمر دیکھو اس کی اور باتیں سنو۔
چھوٹی سی میں لڑکی ہوں پر کام کروں گی بڑے بڑے۔
جب اس قابل ہو گی نا تو کر لینا، ابھی میری جان چھوڑو۔
خیر جناب، کچھ پتہ نہ چلا پوشیدہ امراض کا لیکن اتنا اندازہ ہو گیا کہ کوئی شرمناک سی بیماری ہے جس کا ذکر صرف سرگوشیوں میں کیا جا سکتا ہے۔
پھر ہم بڑے ہو گئے، اتنے بڑے کہ پوشیدہ امراض کے بارے میں پڑھ لیا، علاج بھی سیکھ لیا۔ علم نے جو دروازے کھولے، اس کی آگہی کے عقب سے بھی عورت کی مظلومیت جھانک رہی تھی۔
سوزاک اور آتشک ( Gonorrhea and Syphilis) ، ایسی بیماریاں جو سر عام اعلان کرتی ہیں کہ مریض کے جنسی تعلقات میں کجی ہے۔
گونوریا اور سفلس کے جراثیم جنسی رطوبتوں کے ذریعے ایک انسان سے دوسرے انسان کو منتقل ہوتے ہیں۔ مرد سے عورت، عورت سے مرد، مرد سے مرد۔
غیر اخلاقی سرگرمیوں میں مصروف لوگوں کا بیمار ہونا تو اپنے کیے دھرے کو بھگتنا ہے لیکن اس سائیکل میں کچھ معصوم لوگ بھی پس جاتے ہیں۔
اس کی مثال یوں سمجھیے کہ ایک صاحب ہیں جو کام کے سلسلے میں زیادہ تر گھر سے باہر رہتے ہیں۔ گھر سے باہر بہت سی ترغیبات کو وہ ناں کہنا نہیں چاہتے کہ ان کے خیال میں زندگی اسی کا نام ہے۔ گھر والی تو ہے لیکن باہر والی یا والا بھی ہو تو کیا کہنے۔ شوقین مزاجی تو ہے لیکن کسی بھی احتیاط کی نہ خبر ہے اور نہ ہی دل چسپی۔ نہ گھر میں، نہ گھر کے باہر۔
اب ان صاحب نے کچھ راتیں کیں رنگین، ساتھ صاحب یا صاحبہ۔ تحفے میں ملا گونو کوکس۔ گونو کوکس نے مخصوص اعضا کی انفیکشن میں مبتلا کیا۔ کون دھیان دیتا ہے احتیاطی تدابیر پہ یا حفظان صحت کے اصولوں پہ سو جب گھر پہنچے تو کون کافر حقوق زوجیت پورے کرنے سے باز رہ سکتا ہے؟ لیجیے باہر کا تحفہ منتقل ہو گیا زوجہ محترمہ کو یعنی وہی گونو کوکس۔ اب وہ پریشان بیٹھی ہیں کہ ویجائنا سے گندا پانی کیوں بہہ رہا ہے؟
سوچیے وہ صاحب جب تک گونو کوکس کا علاج نہ کروائیں یا جہاں سے انہوں نے وصول کیا، ان کا علاج نہ ہو تو گونوریا یا سوزاک کیسے ختم ہو؟
سوزاک مرد و عورت دونوں میں اعضائے مخصوصہ کے ساتھ مثانے کی انفیکشن کا سبب بھی بنتا ہے۔ جلن کے ساتھ پیشاب، ویجائنا اور عضو تناسل سے گندے پانی یا پیپ کا اخراج، خصیوں کی سوزش اور سوج، مقعد سے پیپ کا اخراج، پیٹ کے نچلے حصے میں درد۔ سوزاک کے نتیجے میں بانجھ پن بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ انفیکشن سے تولیدی صحت متاثر ہوتی ہے۔
آتشک کا حال بھی کچھ یوں ہی ہے۔ جائیے گھر سے باہر، گل چھرے اڑائیے اور پھر تحفہ دیجیے اپنے ساتھی کو۔
آتشک ایک جنسی مرض جو ایک جرثومے ٹروپونیما کے ذریعے لعاب یا کھال سے اعضائے تولید کو لگتا ہے اور پھر ہڈیوں، عضلات اور دماغ تک کو متاثر کرتا ہے۔ اس کی علامات مختلف انسانوں میں مختلف ہو سکتی ہیں۔ آغاز السر یا پھوڑے سے ہوتا ہے اور یہ زخم ایک مہاسے کے سائز سے لے کر کچھ سینٹی میٹر تک کا پھوڑا ہو سکتا ہے۔ مردوں میں عضو تناسل پر زخم ظاہر ہوتا ہے۔ خواتین میں یہ ویجائنا یا باہر والے حصے پر پایا جا سکتا ہے۔ انفیکشن مقعد اور جسم کے دیگر حصوں کے ارد گرد بھی پھیل سکتا ہے۔
بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ متاثر ہوتے ہیں وہ آتشک کی پہلی علامات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے ہیں اور یہ خود سے ٹھیک بھی نہیں ہوتی۔ کچھ مدت بعد جلد پر خارش پیدا ہوتی ہے اور اس کے بعد جسم پر زخم بن جاتے ہیں، کھردرے سرخی مائل۔
بیماری کی تیسری سٹیج جان لیوا ہے۔
گئے وقتوں میں آتشک کو جنگی ہتھیار کے طور پہ استعمال کیا جاتا تھا۔ آتشک زدہ خواتین کو دشمن کے فوجیوں کے پاس بھیجا جاتا تھا۔ یعنی جنگ اور محبت میں سب جائز۔
آتشک اور سوزاک جنسی بیماریاں ہیں اور قابل علاج بھی۔ جنس کو کھیل سمجھ کر کھیلنے والوں کو سمجھنا چاہیے کہ وہ اپنے ساتھ بہت سے لوگوں کو اس جہنم میں دھکیلتے ہیں۔
کسی متروک عمارت کی سیڑھیاں چڑھ کر سنیاسی کے ہاتھ سے الم غلم کھانے کی بجائے بہتر ہے کسی قابل ڈاکٹر سے علاج کروا لیا جائے، رازداری سے۔
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر