ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تم اتنی زور سے سر کیوں کھجا رہی ہو؟ آپا نے متجسس ہو کر ہماری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
ایسے ہی۔ ہم نے رسالے سے نظر اٹھائے بغیر جواب دیا۔
جوئیں تو نہیں سر میں۔ وہ گھبرا کر بولیں
کیا پتہ۔ ہماری بے نیازی عروج پہ۔
امی، امی، اسے دیکھیے آج یہ پھر سر کھجا رہی ہے۔ آپا فوراً امی کے پاس پہنچیں۔
اف خدایا، کیا پھر سے جوئیں لے آئی یہ لڑکی؟ کیا کروں اس کا؟ امی نے سر پیٹ لیا۔ ایک تو گھنے بالوں کا ٹوکرا سر پہ، اوپر سے ہر دوسرے دن جوئیں۔ امی روہانسی ہو رہی تھیں۔
ٹنڈ کروا دیں اس کی یا ڈی ڈی ٹی ڈال دیں سر میں۔ پاس سے ہی کسی بھائی نے لقمہ دیا۔
ہم اس ایمرجنسی سے بے خبر اپنے رسالے میں گم تھے۔ چونکہ اس وقت جب امی نے پاس آ کر سر دبوچا۔
امی پلیز بعد میں، ابھی کہانی اتنی مزے دار موڑ پہ ہے۔ ہم منمنائے۔
بھاڑ میں جائے تمہاری کہانی۔ ابھی چولہے میں پھینکوں گی اب کتابیں۔ غضب خدا کا ہر وقت سر میں جوئیں۔ نہ جانے کہاں سے لے کر آجاتی ہے۔
امی، جوؤں کو میرے بال پسند ہیں۔ ہم نے شوخی سے کہا۔
ٹھیک ہے پھر مشین پھرواتے ہیں سر پہ تاکہ روز روز کی کل کل تو ختم ہو۔
امی نے ہمیں کھینچا، ایک اونچی چوکی پہ بیٹھیں اور دبوچا ہمارا سر اپنی ٹانگوں کے درمیان۔ ہم نے تب بھی رسالہ ہاتھ سے نہ چھوڑا اور ایسی پوزیشن بنائی کہ چاہے ایک آنکھ سے پڑھنا پڑے پر کہانی چلتی رہے۔
توبہ توبہ۔ سر بھرا ہوا ہے لیکھوں سے، میں کیا کروں اس لڑکی کا؟ سر میں جوئیں ڈلوا کر آ جاتی ہے۔ ایک تو بال اس قدر گھنے کہ کنگھی پھیرنا بھی مشکل، اوپر سے سہیلیوں کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھنے کا شوق اس قدر۔
بہنیں بھی تو ہیں، سکول کالج وہ بھی جاتی ہیں لیکن مجال ہے جو کسی کے سر میں جوں تو دور کی بات، جوں کا انڈا بھی نظر آئے۔
اماں کی بڑبڑاہٹ جاری اور ہم ان سب باتوں سے بے نیاز رسالے میں مگن۔
بات تو تھی کہ چھ بہن بھائیوں میں صرف ہمارے سر میں جوئیں پائی جاتی تھیں اور وہ بھی اکثر و بیشتر۔ ہم بھی کیا کرتے؟
سکول کے ہر گروپ میں ہر دل عزیز، محلے کے سب گھروں میں دوستی، غیر نصابی سرگرمیوں کے لیے دوسرے سکولوں میں آمدورفت، وی سی آر پہ فلم دیکھنے کے شائقین کے درمیان ہم موجود، رشتے داروں کے گھر اماں کے ساتھ جانے کو ہم تیار، محرم کی مجلسوں میں ہم آگے آگے، نیاز اور معجزے پڑھنے کی محفلوں کے متحرک ممبر۔ سو آپ ہی بتائیے جب اتنے بے شمار سروں سے ہر وقت کا میل ہو گا تو جوں چڑھ ہی جائے گی نا سر میں۔ آخر محترمہ جوں کو بھی شوق ہو سکتا ہے نت نئی جگہیں پھرنے کا اور اگر سیر گھنے جنگلات کی ہو تو کیا ہی کہنے!
امی کو ہر گز پسند نہیں تھا کہ ان کا کوئی بچہ صفائی کے معیار سے کم نظر آئے۔ ہمیشہ صاف ستھرے استری شدہ یونی فارم، چمکتے ہوئے جوتے، صاف بستے، کتابوں کاپیوں پہ کور چڑھے ہوئے، بالوں میں ربن۔ منہ دھونے، دانتوں میں برش اور نہانے میں باقاعدگی۔ سو یہ کیسے ممکن تھا کہ بیچ میں ایک بچی سر کھجائے اور باقی سب خاموش تماشائی ہوں۔
گرما کی طویل دوپہریں ہوں، یا سرما کے چھوٹے دن، دوپہر کے کھانے کے بعد اماں ہمیں دبوچتیں، رنگ برنگی ٹائلز والے برامدے میں اونچی پیڑھی یا سٹول پر بیٹھتیں اور ہمارا سر زانو پہ رکھ لیتیں۔
توبہ توبہ، اتنی موٹی جوں، اتنا خون پی پی کر پلی ہے۔ بالوں سے جوں کھینچتے ہوئے اماں افسوس کرتیں۔
امی اسے کھانے کو دے دیں، بہت چٹخوری ہے نا یہ۔ پاس سے کوئی بہن بھائی بولتا۔
یخ۔ ہمیں ابکائی آ جاتی۔ کیا ہمیں شوق ہے سر میں جوئیں ڈلوانے کا؟ ہم احتجاج کرتے۔
ہاں نا تم گندی ہو۔
میں روز نہاتی ہوں، گندی نہیں ہوں۔ ہماری بھرائی ہوئی آواز۔
ہاں ہاں، میری بیٹی گندی نہیں ہے، بس ذرا سہیلیوں میں سر جوڑ کر بیٹھنے میں احتیاط نہیں کرتی۔ امی سیز فائر کرواتیں۔
صاف پوچھیے تو ہمیں جوئیں نکلوانے میں بہت مزا آتا۔ امی کی نرم گرم آغوش، مہربان ہاتھ اور سر میں رینگتی انگلیاں، برامدے میں صحن سے ہو کر سرسراتی ہوا، ہلکی دھوپ، ڈھلتی دوپہر میں شور مچاتی چڑیوں کا شور جو صحن کے کونے میں دانہ چگنے ہر شام اتر آتیں، اور ہمارا رسالہ یا کوئی کتاب۔
اکثر ایسا ہوتا کہ امی گھنٹہ ڈیڑھ لگا کر جب ہمیں فارغ کرتیں، ہم ٹھنک کر کہتے، نہیں تھوڑا اور۔ کیا مطلب ہے تھوڑا اور، وہ آنکھیں دکھاتے ہوئے کہتیں، انگلیاں اکڑ گئیں میری، اس جنگل کو صاف کرتے کرتے۔
اتنا مزا آ رہا تھا، ہم منہ سکوڑتے ہوئے کہتے۔
ہائے نی مائے، اس لڑکی کی باتیں سنو، سر میں ڈھیروں جوئیں اور مزا آ رہا تھا اسے۔
اب امی کو کیسے بتاتے کہ وہ کچھ اور نہیں بلکہ ان ہاتھوں کا مزا تھا جو سر میں آہستہ آہستہ رینگتے، محبت بھرے، اس فکر میں کہ کہیں کوئی جوں باقی نہ رہ جائے۔
کبھی کوئی ہمسائی آ جاتی جس کی بچی بری طرح سر کھجا رہی ہوتی تو امی فوراً کہتیں، بہن، بچی کا سر دیکھ لو۔
کیا کروں آپا، یہ نگوڑی ہر روز جوئیں ڈلوا کر آ جاتی ہے، کہاں تک نکالوں؟
نہیں بہن، بچے بیچارے تو چھوٹے ہوتے ہیں کیسے خیال کریں اپنا؟ ماؤں کا فرض ہے کہ اپنے بچے کی ہر مشکل میں اس کی مدد کریں۔
کبھی کبھار امی کی کوئی ہمدرد دوست انہیں مشورہ دیتی کہ ہمارے سر میں دوائی لگا کر جوؤں کو مارا جائے۔ امی فوراً تڑپ اٹھتیں۔ نا بہن، میں اپنی بیٹی کے بالوں اور سر میں خواہ مخواہ زہریلی دوائی کیوں لگاؤں؟ میں ہوں نا۔
اور واقعی وہ ہمیشہ رہیں۔
بچپن سے نکل کر لڑکپن میں داخل ہوئے۔ کچھ محلے میں آنا جانا کم ہوا، ایف ایس سی کی پڑھائی سو وہ برس خاموشی سے گزرے۔ سب نے سکون کا سانس لیا کہ جوں مار مہم کا ہمارے گھر سے خاتمہ ہوا۔
لیکن نہیں جناب، جوئیں اتنے آرام سے ہمارا پیچھا چھوڑنے والی نہیں تھیں۔
میڈیکل کالج کا فرسٹ ائر اور سر میں خارش۔ فوراً سمجھ آ گئی کہ پرانا دشمن پھر سے آ پہنچا۔ اب کیا کریں؟ کس سے کہیں؟ کس کے زانو پہ سر رکھیں؟ باپ رے ہم تو دوسری لڑکیوں کے سامنے سر کھجا بھی نہیں سکتے۔ سوچیے سر میں جوئیں جگہ جگہ کاٹ رہی ہوں اور آپ ہاتھ بڑھا کر خارش بھی نہ کر سکیں۔ ہائے کیا بے بسی سی بے بسی تھی۔ نہ صرف بے بسی بلکہ ڈر بھی کہ کہیں کوئی بھانپ نہ لے کہ سمارٹ سراپے اور گھنے بالوں والی ٹی کے کے سر میں جوئیں۔ بال ایسے کہ سب رشک سے دیکھیں اور اگر یہ جان لیں تو۔ ہمیں رونا آ جاتا۔
کیا کریں؟ اسی مشکل میں ایک دن ٹیرس پہ بیٹھ کر دھواں دھار روتے ہوئے ابا کو خط لکھا کہ امی کو بتائیں، جوئیں پھر سے آ گئیں۔ ابھی میں گھر آ نہیں سکتی، کیا کروں؟ سخت مشکل میں ہوں؟
امی یہ سن کر تڑپ اٹھیں۔ تھیں تو ہماری ہی امی، فوراً ترکیب بھی نکال لی۔ ہماری کزن کے چچا لاہور میں رہتے تھے۔ کزن کو ہدایت کی گئی جو ان دنوں مریدکے میں رہا کرتی تھی کہ فوراً چچا کے گھر پہنچو اور مدد کرو۔
خیر جناب ویک اینڈ آیا، چچا محترم جوں مشن پہ ہمیں اپنے گھر لے گئے، شرم تو بہت آئی مگر مجبور تھے۔ کزن بے چاری نے دو دن لگا کر ڈھیروں جوئیں نکالیں۔ ہم سکون سے اس کے سامنے بیٹھے رہے۔ یہاں بھی دو ہاتھ اور انگلیاں تھیں مگر کہاں وہ بات مولوی مدن کی سی؟
کزن منہ سے تو کچھ نہ بولیں مگر ہر جوں کے بعد اعلان کرتیں، تین، چار، چھ، آٹھ۔ دبی زبان سے کہا بھی کہ گننے کی کیا ضرورت مگر شاید اسے اپنی خالہ کو رپورٹ دینی تھی کہ کتنی پکڑی گئیں؟
خیر جناب سرخرو ہو کر ہوسٹل واپس لوٹے۔ کچھ عرصے بعد جب گھر گئے تو امی نے کہا بیٹی جب نہاتی ہو نا تو باتھ روم میں ہی گیلے بالوں میں باریک جوؤں والی کنگھی پھیرا کرو۔ گیلے بالوں سے سب نکل آئیں گی۔
تو انہیں مارے گا کون؟ ہم نے الجھ کر سوال کیا۔
ایک سپاہی ساتھ کر دیں، پاس سے کسی نے لقمہ دیا۔
بیٹی خود ہی مار دینا، امی مسکرا کر بولیں۔
نہیں امی، کراہت محسوس ہوتی ہے، میں جوں کو ہاتھ نہیں لگا سکتی۔ ہم نے بیچارگی سے کہا۔
ہاں ہاتھ لگانے سے کراہت اور سر میں ڈھیروں ڈھیر۔ پھر کسی بہن بھائی کی طرف سے جملہ آیا۔
امی ہر بات سمجھتی تھیں سو چڑ کر کچھ کہنے کی بجائے سوچ میں پڑ گئیں۔ اچھا جب کوئی جوں کنگھی پہ آ جائے تو نلکا یا شاور کھول کر پانی میں بہا دینا۔ یہ ترکیب ہمارے دل کو لگی اور اگلے کچھ برسوں میں ہم باتھ روم میں کھڑے ہو کر بالوں میں کنگھی کرتے رہے۔
ایسا نہیں ہوا کہ اگلے برسوں میں جوئیں نہیں آئیں۔ ہمارا اور ان کا تو جنم جنم کا ساتھ تھا۔ سو جب کبھی بھی سر میں کھجلی ہوتی، ہم سمجھ جاتے کہ لو آ گئی پرانی سہیلی!
فورتھ ائر میں پہنچے تو بالکونی والا کمرہ الاٹ ہوا لیکن کمرے میں ابھی بھی تین لوگ تھے۔ اب کبھی کبھار ایسا ہوتا کہ اگر روم میٹس سو رہی ہوتیں تو ہم باتھ روم میں کنگھی کرنے کی بجائے بالکونی میں بیٹھ کر پھیرتے۔ جوں کو مارنے والی مشکل ابھی بھی موجود تھی۔ اس کا حل ہم نے ٹشو پیپر کے ساتھ دبوچ کر جوتے کے نیچے مسل دینا نکالا۔ دیکھیے ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ ہم سالہا سال سمجھتے رہے کہ بالکونی پہ خفیہ کارروائی کرنے والے ہم ہی تھے۔
بہت برسوں بعد جب ہم اتنے بڑے ہو گئے کہ ایسی باتوں سے منسلک شرم کو شرم دلا سکیں تب ہم نے اپنی دوست جو کہ گزشتہ روم میٹ بھی تھیں سے ذکر کیا۔ وہ ہنس کر بولیں، تمہیں پتہ ہے کہ ہوسٹل میں سب کو جوئیں ہوجاتی تھیں۔ اس قسم کی کارروائی ہر کوئی کرتا تھا اور ہر کوئی دوسرے سے چھپاتا تھا۔ ہم دونوں مل کر اتنا ہنسے کہ آنکھیں نم ہو گئیں، کہاں گئے وہ دن؟
ہوسٹل سے ہم جب بھی گھر جاتے، سر میں کھجلی ہو یا نہ ہو، امی ہمارا سر زانو پہ رکھ کر چیک ضرور کرتیں۔ جوئیں نہ ہوتیں تو امی فوراً کہہ دیتیں کہ اٹھ جاؤ، سر صاف ہے۔ ہم ٹھنک کر کہتے، نہیں ابھی کھجلی ہوئی ہے، تھوڑا اور دیکھیں۔ امی پھر سے دیکھتیں اور وہاں کچھ بھی نہ ہوتا۔ تب ہم سوچتے کبھی کبھار تو جوئیں ہو جانی چاہئیں، تب ہی امی پہروں زانو پہ لٹا کر ہمارے سر میں انگلیاں پھیریں گی۔ ہائے وہ لمس!
ہوسٹل سے نکل آئے۔ شادی ہو گئی۔ لیجیے جوئیں بھی ختم۔ شاید سپاہی سے خوفزدہ ہو گئیں تھیں ہمارے بچپن کی ساتھی۔ لیکن ہمارے میکے میں ابھی تک جوؤں کا کوئی بھی نام لیتا، سب کو ہماری یاد آ جاتی۔ گویا ہم اور جوں۔ سوچیے کیا امتزاج تھا۔ ویسے آپس کی بات ہے کاٹنے میں تو ہم بھی طاق تھے۔
ہماری بیٹیاں ہوئیں۔ بڑی بیٹی تو اس آفت سے بچی رہی لیکن چھوٹی بیٹی سے جوؤں کو کچھ محبت ہو گئی، ہم جیسی تو نہیں، ہم سے کم۔ ہماری جوؤں سے گھن اور کراہت قائم تھی اور اب اینٹی لائس شیمپو آ چکے تھے سو بچی کو شیمپو کروا کر ملازمہ کے حوالے کر دیتے۔ حنیفاں اتنی مہربان کہ ہماری امی کے سے انداز میں بچی کا سر صاف کرتی۔
جب کبھی امی ہمارے گھر آتیں، ماضی زندہ ہو جاتا لیکن اب کی بار زانو پہ ہمارا سر نہیں، ہماری چھوٹی کا سر ہوتا اور امی کی آنکھوں پہ عینک ہوتی کہ نظر کمزور ہو چکی تھی۔
کبھی کبھی جی چاہتا کہ امی کے زانو پہ پھر سے سر رکھ کر کہیں امی دیکھیں تو کھجلی ہو رہی ہے۔ دل کی بات دل میں ہی رہ جاتی، ہم بڑے ہو چکے تھے، سر پہ جنگل بھی چھدرا ہو چکا تھا اور گھر میں میڈم کہنے والے موجود تھے۔ اب تو شرم نے بھی زبردستی ہم سے اپنا آپ منوا لیا۔
ہم مزید بڑے ہو گئے، سر پہ بال اور بھی کم رہ گئے۔ بچیاں بھی بڑی ہو گئیں، پڑھنے کے لیے دوسرے ملکوں میں چلی گئیں۔ امی اللہ کے پاس روانہ ہو گئیں۔ جوئیں بھی پھر نہیں آئیں۔
اب ہم ہیں اور وہ سب یادیں جو ہمیں کبھی اداس کرتی ہیں اور کبھی مسکرانے پہ مجبور۔
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر