عفت حسن رضوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملکی معیشت پہ جو کم بختی آئی ہوئی ہے اور سیاست کے میدان میں جو پگڑیاں اچھالنے اور مرنے مارنے کی ایک ہوا سی چل پڑی ہے اس سے پرے ایک غیر مسلح، مکمل طور پر آئینی، اخلاقی اور انقلابی جدوجہد کی چھوٹی سی کہانی سنیں۔
یہ کہانی ہے لاطینی امریکہ کے ملک ایل سلواڈور کی ایک مذہبی شخصیت آرچ بشپ آسکر رومیرو کی۔
1970 کی دہائی میں ایل سلواڈور شدید اندرونی سیاسی بحران سے دوچار تھا۔ مہنگائی، قتل و غارت گری کا بازار گرم تھا، ملک میں طبقاتی کشمکش اپنے عروج پہ تھی، غریب کسان جہاں بھوکا مر رہا تھا وہیں چند درجن حکمراں اشرافیہ کے خاندانوں کی دولت میں اضافہ ہورہا تھا۔
ملک کے کچھ علاقوں کی مہنگے ترین ہوٹلز میں بیٹھنے کو جگہ نہیں تھی اور کچھ علاقے ایسے تھے کہ جہاں غذائی کمی کے باعث معذور بچے پیدا ہورہے تھے، ملک کی سیاسی جماعتیں باہم دست و گریباں تھیں، مخالف ٹولے کو سبق سکھانے کے لیے حکمراں جماعت ہر حد تک چلی جاتی تھی اور نظام انصاف اشرافیہ کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا کافی پی رہا تھا۔
رہ گئی ملٹری تو وہ بغیر کسی روک ٹوک کے جعلی سکیورٹی آپریشنز کرنے اور اپنے ہی نہتے شہریوں کو لاپتہ کرنے میں مصروف تھی۔
آسکر رومیرو اپنی جوانی سے یہی سب کچھ ہوتا دیکھ رہے تھے لیکن وہ چوں کہ چرچ سے تعلق رکھتے تھے اس لیے تمام عمر مذہبی أمور میں ہی مصروف رہے۔
یہاں تک کہ 1977 میں انہیں ایل سلواڈور کا آرچ بشپ مقرر کردیا گیا۔ حکومت کو امید تھی کہ ہمیشہ کی طرح اب بھی بشپ چرچ تک محدود رہیں گے لیکن آسکر رومیرو کچھ اور ہی ٹھان چکے تھے۔
آرچ بشپ رومیرو نے چرچ کی دعائیہ تقریبات کو تبدیلی کے نعروں میں بدل دیا۔ وہ کسان پالیسی میں تبدیلی کی بات کرنے لگے، انہوں نے لگاتار کئی مجلسوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو للکارا، عوام اور سکیورٹی فورسز کے درمیان بڑھتے فاصلوں کو مٹانے کی کوشش کی۔
رومیرو نے ملک کے کونے کونے میں جا کر عوام کو شعور دیا کہ طبقاتی کھینچا تانی آخر میں کسی کو نہیں چھوڑے گی۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ حکومت پہلو بدلنے لگی، ملٹری کے بڑوں کو پہلی بار لگا کہ کوئی انہیں بھی چیلنج کرسکتا ہے۔
صنعتکاروں، وڈیروں سرمایہ داروں کو لگا کہ اب گیم ہاتھ سے نکل رہا ہے تو آسکر رومیرو کو دھمکیاں ملنے لگیں۔
کہانی کچھ اپنی اپنی سی لگ رہی ہے نا، آگے مزید سنیں۔
آرچ بشپ رومیرو نے ایل سلواڈور میں کیتھولک ریڈیو پروگرام اور چرچ کے میگزین کا آغاز کیا۔
جس میں آئے روز ان افراد کی پروفائل براڈ کاسٹ کی جاتی جو سول وار اور سیاسی بحران کے دوران لاپتہ کردیے گئے، مار دیے گئے یا جن پہ ریاستی تشدد کیا گیا۔
آرچ بشپ رومیر کی شہرت ملک کے ساتھ باہر بھی پھیلنے لگی تو 1980 میں رومیرو نے امریکی صدر جمی کارٹر کو خط لکھا اور خبردار کیا کہ امریکہ ان کے ملک ایل سلواڈور کی ملٹری امداد اور سیاسی مداخلت بند کرے کیوں کہ اس کا نشانہ ایل سلواڈور کے عوام بن رہے ہیں۔
اسی سال رومیرو نے ایک مذہبی خطاب کے دوران ایل سلواڈور کی فوج کے اہلکاروں سے مخاطب ہوئے کہ وہ کیسے اپنے ہی ہم وطن لوگوں پہ تشدد کرسکتے ہیں اور ساتھ ہی پولیس اور فوج کے جوانوں سے حکومت کے احکامات نہ ماننے کی بھی اپیل کی۔
یہ رومیرو کے انقلابی سیاسی کریئر کا آخری معرکہ تھا۔ بالاخر آج ہی کے دن 24 مارچ 1980 کو انہیں ایک تقریب کے دوران فائرنگ کر کے قتل کردیا گیا۔
آرچ بشپ آسکر رومیرو کو ماڈرن چرچ کی تاریخ کا سب سے انقلابی مذہبی رہنما مانا جاتا ہے، انہیں ایل سلواڈور کی سیاسی اور شہری بالادستی کی جدوجہد میں ایک سینٹ یعنی مرشد کی حیثیت دی جاتی ہے۔
اور آج بھی قانون کی بالادستی اور انسانی حقوق کے معاملات میں مذہب کے کردار پہ کوئی علمی بحث ہو تو آسکر رومیرو کا حوالہ ضرور دیا جاتا ہے۔
آرچ بشپ رومیرو کو بااثر مذہبی عہدے کے صرف تین سال ملے تھے اور اس مختصر عرصے میں وہ پسے ہوئے طبقے کی آواز بنے، ریاست کی غلط پالیسیوں پہ کھل کر مخالفت کی اور اپنی سیاسی روشن خیالی سے معاشرے کی سوچ پہ اپنے چھاپ لگا دی۔
اب اس کہانی سے ملتی جلتی اپنی داستان غم پہ نظر ڈالیں تو لیڈر نہیں بلکہ دور تلک عہدوں پہ چمٹے ہوئے سر ہی سر نظر آتے ہیں۔
ملک اپنی تاریخ کے شدید بحران سے دوچار ہے لیکن مسجد، منبر، مقننہ اور عدلیہ ہر جگہ گھنگھور اندھیرا ہے، علامہ خاموش ہیں، مولوی صاحب اپنے سیزن میں مصروف ہیں اور مولانا اپنی باری کے منتظر۔
لیڈرشپ کا ایسا فقدان ہے کہ بے سمت بھٹکتے لوگ دوا کے نام پہ زہر پلانے والے کو ہی مسیحا مان رہے ہیں۔
یوں تو نوبزادہ نصر اللہ کے مصرعے پہ پورا یقین ہے کہ ’کب کوئی بلا صرف دعاوں سے ٹلی ہے۔‘
تاہم رمضان کا مہینہ ہے، لاوڈ سپیکر، تقویٰ، انکساری اور پرہیزگاری کے دروس سے گونجنا شروع ہوگئے ہیں۔
اس سال رب کائنات کے حضور اپنی اور بہت سی حاجتوں میں ایک دعا یہ بھی شامل کرلیں کہ یا اللہ اس قوم کو بھی ایک غم گسار رہنما دے دے۔
اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات مصنفہ کے ہیں ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی
ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی
ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی
خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی
فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ