ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عین وہی کچھ ہوا جس کی توقع کی جارہی تھی ۔صوبائی جنرل الیکشن کے شیڈول کے جاری ہوتے ہی ہر بندہ خدشات کا اظہار کررہا تھا کسی بھی سطح پر الیکشن مہم بھر پور طریقے سے شروع نہیں ہوسکی ۔جہاں دو چار سیاسی لوگ اکٹھے ہوتے تو سوال یہی ہوتا تھا کہ کیا الیکشن ہوں گے اور سب کا جواب کم وبیش یہی ہوتا کہ نہیں ہوں گے ۔اس جواب کی دلیل یہ ہوتی تھی کہ ن لیگ کے امیدواروں نے پنجاب میں انتخابی مہم ہی شروع نہیں کی ان کو دیکھ کر یقین کامل تھا کہ الیکشن نہیں ہوں گے اور یوں الیکشن کمیشن نے الیکشن شیڈول واپس لے کر 8 اکتوبر کو الیکشن کرانے کا اعلان کردیا۔
یوں تحریک انصاف کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے امیدواروں نے سکھ کا سانس لیا کہ چلو کچھ مدت کے لیے بلا سر سے ٹل گئی جبکہ تحریک انصاف کے امیدواروں کی پریشانی میں اضافہ ہوگیا کیونکہ وہ کپتان کی شہرت کے سہارے اسمبلی پہنچنے کے خواب دیکھ رہے تھے ۔اب حکومت کی کوشش ہوگی کہ الیکشن اکتوبر میں ہی ہوں تاکہ وہ جون کے بجٹ میں عوام کو ریلیف دے کر الیکشن میں جانے کے لیئے تیار ہوسکیں اور کپتان کی کوشش ہوگی کہ الیکشن جلدی ہوں تاکہ وہ مہنگائی سے ستائی عوام کی ہمدردیاں ووٹ کے زریعے حاصل کرسکیں۔لہذا ایک کشمکش شروع ہونے جارہی ہے اور اس بار یہ جنگ عدلیہ میں لڑی جائے گی
اسی لیئے تحریک انصاف الیکشن کے التوا کے معاملے پر عدلیہ میں جارہی ہے کہ حکومت نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے اور دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ دعویٰ وہ جماعت کررہی ہے جس نے اپنے دور اقتدار میں عدالتی احکامات کے باوجود بلدیاتی الیکشن نہیں کرائے اور واضح طورپر آئین کی خلاف ورزی کی مگر اب تحریک انصاف کو لگتا ہے کہ عدالت سے ان کو ریلیف مل جائےگا اب دیکھتے ہیں کہ عدلیہ اس ضمن میں کیا فیصلہ کرتی ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ اکتوبر میں ہی الیکشن کی تاریخ کیوں دی گئی اس سے پہلے کی تاریخ کیوں نہیں دی گئی تو اس کے پیچھے شائد ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ستمبر میں دو اہم عہدے خالی ہونے والے ہیں سپریم کورٹ اور ایوان صدر میں تبدیلیاں ستمبر میں ہوں گی اور شائد اس لیئے اکتوبر کے مہینے کا انتخاب کیاگیا۔
جو بھی ہو ایک بات تو طے ہے کہ الیکشن اکتوبر سے قبل نہیں ہوتے اور اس ضمن میں سیاسی بحران مزید بڑھتا جائے گا اور اگر تحریک انصاف اگر اپنے مذاہمتی بیانیے کو مزید پانچ ماہ تک اسی سطح پر سنبھال سکتی ہے تو الیکشن میں اس کو خاطر خواہ کامیابی ملنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔مگر موجودہ حالات میں تناظر میں اگر غور کیا جائے تو پانچ ماہ بہت وقت ہوتا ہے اس دوران بہت کچھ تبدیل ہوتا جائے گا۔سب سے بڑھ کر ایک بات کہ ان پانچ ماہ میں کپتان کے عدالتوں میں چلنے والے کیسز کا فیصلہ بھی ہوجائے گا اور سب جانتے ہیں کہ کپتان کو ان کیسز میں ریلیف ملنا مشکل ہے
اب آئندہ کی سیاسی صورتحال عدالتی فیصلوں سے مشروط ہے اگر عدالتیں 8 اکتوبر سے پہلے کی کوئی تاریخ دے دیتی ہیں تو حکومت پر دباو بڑھے گا اور بحران مزید شدت اختیار کرجائےگا اور اگر عدالتیں بھی الیکشن کمیشن کے ساتھ اتفاق کرتی ہیں تو بلاشبہ یہ کپتان کے لیئے بری خبر ہوگی۔اب ملک بھر کی نظریں اعلیٰ عدلیہ کی طرف ہوں گی کہ ان کا کیا فیصلہ آتا ہے ۔رہی بات سیاست کی تو یہی ہلکی پھلکی موسیقی جاری رہے گی اور ہر کوئی اپنا راگ الاپنے کی کوشش کرئے گا
سیاست خدا جانے کس رخ جائے تاہم آنے والی گرمیاں عوام کے لیئے تباہ کن ہوں گی ۔مہنگائی سے ستائی ہوئی عوام کے لیئے بجلی کے بل جلتی پر تیل کا کام کریں گے ۔عوام کس طرح مہنگائی کے دوران بجلی کے بل ادا کرئے گی یہ حکومت کے لیئے سوچنے کی بات ہے ۔جبکہ یہاں حالات یہ ہے کہ گندم کی امدادی قیمت مقرر ہونے کے بعد عام مزدور کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ گئے ہیں ۔ مفت آٹے کے حصول کے لیئے لائنوں میں لگی عوام کہاں سے بجلی اور گیس کے بل دے پائے گی ۔کیا حکومت جون کے بجٹ میں عوام کی ریلیف کے لیئے کچھ کرپائے گی کیا عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط میں کچھ نرمی ہوگی؟
برسراقتدار جوبھی ہو سوال یہ ہے کہ عام آدمی کو ریلیف کب ملے گا۔پرانے پاکستان سے نئے پاکستان اور پھر سے پرانے پاکستان میں واپسی کے بعد بھی عام آدمی کی حالت بہتر نہیں ہوئی روزگار کے مواقع بڑھنے کی بجائے کم ہوئے ۔ مہنگائی میں اضافہ ہوا غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا۔نا تو ن لیگ کا پاکستان عوام کو راس آرہا ہے اور نا ہی عمران خان کا پاکستان عوام کے لیئے سود مند ثابت ہوا۔حاکموں کے چہرے بدل جاتے ہیں ان کے معاشی حالات بدل جاتے ہیں اگر نہیں بدلتے تو عام آدمی کے حالات نہیں بدلتے ان کی مشکلات کم نہیں ہوتیں۔
ایک حقیقت ہے اس کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل میں پھنسی ہوئی ملکی معیشت میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ عام آدمی کو ریلیف دے سکے ۔ آمدن سے زائد اخراجات نے ملکی معاشی نظام کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا ہے اور بلاشبہ ان حالات میں حقیقت یہی ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس اپنا کوئی معاشی ایجنڈا نہیں ہے جو بھی برسراقتدار آتا ہے وہ صرف اور صرف عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط کو پورا کرنے کے لیئے آتا ہے ۔کہیں اور فیصلہ ہوتا ہے کہ کون برسراقتدار آئے گا مگر عوام کو یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ وہ منتخب کرتے ہیں ۔سمجھنے والی بات ہے کہ جو لوگ مفت آٹے کے حصول کے لیئے سارا دن لائن میں لگے ہوتے ہیں کیا ان کو اتنا اختیار ہے کہ وہ ملک کے حاکم کا فیصلہ کرسکیں۔
کہتے ہیں ناں کہ دھوکہ ہمیشہ خوبصورت ہوتا ہے لہذا جمہوریت کے نام پر دھوکہ کھائے جارہے ہیں اور ستم یہ کہ سب کچھ جاننے کے باوجود مزید دھوکے کے خواہش مند ہیں
مصنف سے رابطے کیلئے
رابطہ نمبر 03334429707
وٹس ایپ 03352644777
یہ بھی پڑھیے:
ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد
وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد
بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد
عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ