نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جہانگیر ترین گروپ کا اجلاس!!!۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر الیکشن کی آمد سے قبل پرانے شکاری نئے جال کے ساتھ وارد ہوتے ہیں، سرائیکی وسیب میں خصوصاً گزشتہ پچھتر سالوں سے یہی کچھ ہوتا آ رہا ہے، گزشتہ الیکشن میں صوبہ محاذ بنایاگیا، بعد ازاں صوبہ محاذ کو تحریک انصاف میں ضم کر ایا گیا ، صوبہ محاذ کے لوگوں کو گھیرنے میں اہم کردار جہانگیر ترین نے ادا کیا۔ پھر کپتان سے ایسی ان بن ہوئی کہ فاصلے بڑھ گئے۔جہانگیر ترین کو سیاسی حوالے سے سرائیکی وسیب میں اہمیت حاصل ہے۔ آئندہ سیاسی لائحہ عمل کیلئے جہانگیر ترین گروپ کاجہانگیر ترین کی سربراہی میں مشاورتی اجلاس ہوا ہے۔ جہانگیر ترین گروپ کا جو اجلاس ہوا ہے ، اس میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض، وزیراعظم کے معاون خصوصی عون چوہدری، نعمان لنگڑیال، اسحق خاکوانی، اجمل چیمہ سمیت ترین گروپ کے سابق ارکا ن پنجاب اسمبلی بھی شریک ہوئے۔ پی ٹی آئی ترین گروپ کے ارکان قومی اسمبلی نے بھی اجلاس میں شرکت کی جبکہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے نئے چہرے بھی اجلاس میں نظرآئے، اس بارے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جہانگیر ترین نے اپنے گروپ کے اعزاز میں افطار ڈنر دیا اور اجلاس میں آئندہ الیکشن کے حوالے سے اہم امور زیر بحث آئے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملکی سیاست میں دوبارہ فعال کردار ادا کیا جائے گا ، گروپ کے کچھ ارکان نے تحریک انصاف نظریاتی کے نام سے سیاسی شناخت بنانے کی تجویز بھی دی ۔ جماعتوں کا اقتدار کے ماسوا کیا نظریہ ہے سب کو معلوم ہے۔ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کی باریوں کی روایتی سیاست سے ستائے ہوئے نوجوانوں نے تحریک انصاف کا ساتھ دیا تھا کہ تبدیلی آئے گی مگر تحریک انصاف کے نو سالوں میں خیبرپختونخواہ اور ساڑھے چار سال مرکز سمیت پنجاب ، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان میں حکومت کے دوران غریبوں کے حالات میں جو تبدیلی آئی اور عام آدمی کو جو انصاف ملا وہ کسی دے ڈھکا چھپا نہیں، عام آدمی کو ریلیف نہ دلوانے میں جہانگیر ترین بھی برابر کے شریک ہیں کہ وہ آغاز میں پی ٹی آئی حکومت کا حصہ رہے، یہ تو بدقسمتی ہے (ن) لیگ کی کہ اس نے اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر اقتدار کے بھاری پتھر کو چوم لیا اور عمران خان ایک بار پھر مظلوم بن کر انہی نوجوانوں کے سامنے آگئے اور مقبول ٹھہرے۔ جہانگیر ترین گروپ کے اجلاس میں تحریک انصاف کے مزید سابق ارکان اسمبلی اور رہنمائوں سے رابطوں کا فیصلہ بھی کیا گیاہے ۔ جہانگیر ترین کا سرائیکی وسیب سے گہرا تعلق ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کا حصہ بننے سے پہلے جہانگیر ترین سرائیکی صوبے کے حوالے سے سیاست کرنا چاہتے تھے اور مخدوم احمد محمود کے ساتھ مل کر وسیب کے نام سے پارٹی بنانے کا بھی ارادہ رکھتے تھے۔جہانگیر ترین نے کروڑوں روپے خرچ کر کے سرائیکی ٹی وی چینل بھی لانچ کیا اس کے ساتھ پانچ ایف ایم ریڈیو سرائیکی آواز کے نام سے لانچ کئے، بعد ازاں وہ عمران خان کے سحر میں اس قدر مبتلا ہوئے کہ وسیب کے نام سے پارٹی کا پروجیکٹ بھی ختم کر دیااور اپنا سرائیکی ٹی وی چینل بھی موجودہ نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی کو دیدیا اور سرائیکی آواز کے نام سے پانچ ایف ایم ریڈیو اپنے پارٹنر کے حوالے کر دئیے۔ اس سے وسیب کے لوگوں کو سخت دھچکا لگا، سینکڑوں لوگ بیروزگار ہوئے اور جہانگیر ترین نے سرائیکی کا جو بیڑا اٹھایا تھا اُسے خود ہی ڈبو دیا۔ جہانگیر ترین کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ پتھر کو بھی سونا بنا سکتے ہیں ، وہ ماہر معاشیات و ماہر زراعت ہے ، سماجیات پر ان کا بہت ورک ہے اور سیاست بھی لوگ ان سے سیکھنے آتے ہیں مگر یہ تمام باتیں انہوں نے خود ہی غلط ثابت کر دیا۔جہانگیرترین نے اپنے چینل کی باگ ڈور ایسے لوگوں کے حوالے کی جن کا وسیب سے کوئی تعلق نہ تھا، وہ وسیب کی تاریخ ، تہذیب ، ثقافت ، آرٹ اور زبان و ادب سے نابلد تھے، انہی بالا افسران کی وجہ سے ہی کام خراب ہوا ، حالانکہ نچلی سطح پر سب لوگوں نے بہت محنت کی۔ آج جہانگیر ترین پھر سیاست میں متحرک ہونے جا رہے ہیں تو سابقہ ناکامیوں کی یاد دہانی بھی ضروری نظر آتی ہے اور یہ بھی کہ وسیب کے لوگ انہی سیاستدانوں کے وجہ سے پہلے ہی عذابوں کا شکار ہوئے ہیں اور وسیب کے لوگوں کو ہر مرتبہ فریب اور جھوٹ کی سیاست کا سامنا کرنا پڑاہے، ہر مرتبہ لولی پاپ کے علاوہ کچھ نہیں دیا جاتا۔ موجودہ ملکی سیاسی حالات کے پیش نظر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ الیکشن کب ہوتے ہیں؟ الیکشن کمیشن نے صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن ملتوی کر کے اکتوبر میں الیکشن کی نئی تاریخ دی ہے جبکہ آئین کے مطابق نوے دن کے اندر الیکشن کرانا ضروری ہیں۔ سپریم کورٹ میں بھی کیس زیر سماعت ہے، الیکشن کمیشن نے اکتوبر کی جو تاریخ دی ہے اس پر بھی کوئی اعتماد کرنے کوتیار نہیں۔ ملک کے سیاسی و معاشی حالات کس قدر ابتری کا شکار ہو چکے ہیں کسی سیاستدان کو پرواہ نہیں۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، غربت ، بیروزگاری کی وجہ سے چوری اغوا اور ڈکیتی کی وارداتیں بڑھ چکی ہیں، ملک کے دیگر شہروں کی طرح ملتان میں بھی آئے روز چوری ڈکیتی کی وارداتیں ہو رہی ہیں۔ گزشتہ روز گلگشت ملتان میں ڈکیتی کی واردات کے دوران ڈاکوئوں نے فائرنگ کر کے دو افراد کو قتل کر دیا جبکہ شہریوں نے تین ڈاکو پکڑ کر مار دئیے۔ حالات اس قدر خراب ہیں کہ عوام کا جینا محال ہو چکا ہے، وقت کا تقاضا یہ ہے کہ اقتدار پرست سیاستدان اقتدار کی لڑائی ختم کر کے ڈائیلاگ اور مکالمے کی طرف آئیں اور ملک کو آئندہ کی بہتری کا لائحہ عمل دیں۔ ٭٭٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author