محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سابق ڈپلومیٹ اور سفیر کرامت اللہ غوری کی دلچسپ کتاب ”بارشناسائی “کا ایک واقعہ گزشتہ روز اپنے بلاگ کا حصہ بنایا، جس میں مولانا فضل الرحمان کے دورۂ کویت کی یاداشتیں بیان کی گئی تھیں۔ ظاہر ہے کہ مولانا کے مقلدین یہ پڑھ کر ناخوش ہوئے ہوں گے مگر ایسا ہونا بعید از قیاس نہیں۔ جب بھی کھل کر یاداشت لکھی جائے تو کچھ لوگ لازمی خفا ہوتے ہیں۔
کرامت اللہ غوری نے اپنی کتاب میں مولانا فضل الرحمان سے چند ماہ قبل نوابزادہ نصراللہ خان کے دورۂ کویت کا ذکر کیا جب وہ پاکستانی صدر فاروق لغاری کے ساتھ تشریف لے گئے تھے۔ کرامت غوری لکھتے ہیں کہ اگرچہ پاکستانی سفیر ہونے کے ناتے صدر لغاری کے پورے وفد کی نگہداشت میری ذمہ داری تھی مگر ان لوگوں نے پروٹوکول کے تحت کہاں ٹھہرنا تھا، یہ میزبان کویتی حکومت کا کام تھا۔ ویسے بھی وہ سب تجربہ کار اور اپنے کام میں منجھے ہوئے تھے۔
نوابزادہ نصراللہ خان کیلئے سرکاری مہمان خانہ” قصرِ بیان“ میں انتظام کیا گیا، مگر وہاں پہنچتے ہی دس منٹ کے اندر اندر نوابزادہ صاحب نے کرامت غوری اور سفارت خانہ کے دیگر افسران کو اس پر سرزنش کی کہ ان کیلئے زیادہ بہتر انتظام نہیں ہوا۔ حالانکہ کرامت غوری کے بقول کویتی پروٹوکول والوں نے نوابزادہ کو وزیروں کے برابر رہائش دی جبکہ ان کا عہدہ تو مشیر کا تھا۔ کویتی معاشرے میں بزرگوں کا احترام کیا جاتا ہے جس کا فائدہ نوابزادہ کو بھی انہوں نے دیا۔
نوابزادہ نصراللہ خان اس پر بھی خوش نہیں تھے۔ انہوں نے اعتراض کیا کہ چونکہ صدر لغاری انہیں اپنے کنبے کا ایک فرد شمار کرتے ہیں اس لئے ان کی رہائش قصر مہمانداری کے اسی فلو ر پر ہونی چاہیے تھی جہاں صدر اور ان کے اہل خانہ کو ٹھہرایا گیا۔ سفیر پاکستان نے جواب میں کہا کہ وزارت خارجہ سے ان کیلئے جو بریف آیا تھا، اس میں کہیں یہ ذکر نہیں تھا کہ نوابزادہ صدر لغاری کے اہل خانہ میں سے ہیں۔ اسی لئے پروٹوکول والوں نے انہیں وہی جگہ دی جیسا کہ ان کا حق بنتا تھا۔نوابزادہ یہ سن کر بدمزہ ہوگئے۔
کرامت غوری نے اپنا تاثر بیان کیا کہ نوابزادہ نصراللہ کو قیام کویت میں دیکھا کہ ان میں جاگیردارانہ خوبو تھی۔ جب وہ صدر فاروق لغاری سے گفتگو کرتے تو ان کے لب ولہجہ میں حلاوت ہوتی لیکن سفیر یا سفارت خانہ کے دیگر ملازمین سے بات کرتے ہوئے ان کے تکلم میں وہ رعونت عود کر آتی جو جاگیردارانہ کلام کا حصہ ہے۔
کرامت اللہ غوری نے نوابزادہ نصراللہ کے حوالے سے ایک اور واقعہ بیان کیا ہے، یہ اس سفر کویت کے بعد کی بات ہے۔ 1995کے اوائل گرما میں حج کیلئے کرامت غوری اپنے اہل خانہ کے ساتھ کویت سے جدہ پہنچے۔ اس سال ایام حج سے دو دن پہلے منیٰ میں حجاج کے خیموں کو آگ لگ گئی جس سے بہت سے خیمے خیمے جل گئے۔ آگ اس حصے میں لگی جہاں پاکستانی قونصلیٹ کے عازمین حج کو قیام کرنا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ بہت سے خیمے جل جانے کے باعث خیمے کم تعداد میں بچے تھے۔ جدہ میں قونصل جنرل کے پاس کرامت غوری بیٹھے تھے کہ نوابزادہ نصراللہ کا فون آیا۔ نوابزادہ صاحب پاکستان سے آنے والے سرکاری حج وفد کے رکن تھے۔ وفد کے تمام اراکین کے لئے احرام بھی حکومت کے خرچ سے فراہم کئے گئے تھے ۔
نوابزادہ صاحب کو اطلاع ملی تھی کہ خیموں میں آتش زدگی ہوئی ہے، مگر ان کی فون کال اس لئے نہیں تھی کہ وہ قونصل جنرل سے اس کی نئی اور گراں بار ذمہ داری پر ہمدردی ظاہر کر رہے تھے بلکہ اس لئے تھی کہ ان کے لئے ہرحال میں ایسے خیمے کا بندوست کیا جائے جس میں ائیر کنڈیشنر ہو تاکہ انہیں گرمی نہ لگے۔ قونصل جنرل اور کرامت غوری اپنا ماتھا پیٹنے لگے انہیں افسوس تھا کہ نوابزادہ صاحب کا شمار ان زعما میں ہوتا ہے جو جغادری سمجھے جاتے ہیں اور جن کے متعلق یہ شہرت پھیلائی جاتی ہے کہ ان کے دل تو عوام کی محبت سے سرشار ہیں۔
کرامت اللہ غوری نے الجزائر میں اپنی سفارت کے زمانے میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے دورہ کی کچھ تفصیل بیان کی۔ بی بی کا الجزائر میں بڑی گرم جوشی سے استقبال ہوا، چونکہ الجزائری حکمرانوں کے بھٹو صاحب کے ساتھ قریبی تعلقات رہے تھے۔ الجزائر میں فرانسیسی بولی جاتی تھی یا فرانسیسی آمیز عربی جبکہ اس وفد میں سوائے وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان کے، کسی کو یہ دونوں زبانیں نہیں آتی تھیں، یوں سفارتی عملے کی دوڑیں لگی ہوئی تھیں۔ سفیر نے مجبوراً الجزائر کے ایک شہر میں تدریس کی ذمہ داری نبھانے والے ایک پاکستانی پروفیسر کو بھی رضاکارانہ بنیاد پر بلا لیا تھا۔
کرامت غوری کے مطابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے کوئی غیر معمولی فرمائش کی اور نہ ہی آصف علی زرداری نے۔ زرداری صاحب تو ایک سویٹ میں اپنے ایک یار غار کے ساتھ فروکش ہوکر بالکل بے نیاز ہوگئے تھے۔ انہوں نے بس ایک فرمائش کی تھی کہ اگر انہیں گھر کا پکا کھانا فراہم کر دیا جائے تو بڑی عنایت ہوگی جبکہ اگر ہندوستانی فلموں کے کیسٹ بھی کچھ بھجوا دئیے جائیں تو سونے پر سہاگہ ہوگا۔ یہ دونوں فرمائشیں پوری کرنا آسان تھیں سو مسئلہ نہ بنا۔ پاکستانی سفیر اور سفارتی عملے کے لئے اصل آزمائش باقی لوگ بن گئے۔
وزیراعظم کے ذاتی عملے میں شامل ناہید خان کا رویہ اور سلوک ہر ایک کے ساتھ تہذیب کی عدم موجودگی کا برملا اعلان تھا۔ سفیر کو تو خیر انہوں نے بخش دیا البتہ اس پاکستانی پروفیسر کے ساتھ نہایت نازیبا سلوک رکھا ۔ان تین دنوں کے دوران کرامت اللہ غوری کو اندازہ ہوا کہ زرداری صاحب ناہید خان کی اس جارحانہ روش پر خوش نہیں۔ خوش ہونے کی کوئی بات بھی نہیں تھی کیونکہ ناہید خان یوں لگتا تھا جیسے بزعم خود بے نظیر اور بقیہ دنیا کے بیچوں بیچ دیوار چین بننے کی جستجو کر رہی تھیں اور اس قسم کا رویہ کم ہی لوگ قبول کر سکتے تھے۔ بے نظیر بھٹو کی المناک موت کے بعد زرداری صاحب نے ناہید خان کو پارٹی کے امور سے یوں الگ کیا جیسے دودھ سے مکھی نکال کر پھینک دی جائے۔ کچھ لوگوں کو حیرت ہوئی، کچھ کو اعتراض، کرامت غوری نے ذہن میں الجزائر کے دنوں کی یادیں تازہ کیں تو انہیں اس کی وجہ سمجھ میں آ گئی۔
پاکستانی سفیر کے طور پر انہیں پریشانی ہوئی جب وفد کے لوگوں کی خواہش تھی کہ الجزائر کا تین روزہ طے شدہ دورہ مختصر کر کے دو دن کا کیا جائے تاکہ وہ تیسرا دن جینوا ، سوئٹزرلینڈ میں سیر سپاٹے اور شاپنگ میں گزار سکیں۔
الجزائر ی حکومت نے تیسرے دن کے لئے کئی پروگرام طے کر رکھے تھے، اس لئے یہ ممکن نہیں تھا۔ سفیر نے مجبور ہو کر صاحبزادہ یعقوب علی خان کو یہ بتایا اور انہوں نے وزیراعظم کو کہہ کر دورہ کو طے شدہ ہی رہنے دیا مگر وفد میں موجود کئی لوگ اس پر برہم رہے۔
بے نظیر بھٹو کا یہ دورہ کامیاب رہا، مگر کرامت غوری کو یہ احساس ہوا کہ وزیروں اور مشیروں کے انتخاب میں محترمہ کی قوتِ فیصلہ اور اصابتِ رائے نے اس طرح ان کا ساتھ نہیں دیا جیسے توقع کی جا سکتی تھی۔ وہ لوگ جو وزیراعظم بے نظیر کے گرد گھیرا تنگ کر رہے تھے، گِدھ تھے جو ہراس جگہ پر جھپٹ پڑتے ہیں جہاں سے انہیں شکم خوری کی امید ہو۔ ان میں سے زیادہ تر ہوس اور غرض کے غلام لگے۔ ان ہوس کے ماروں کو نہ پیپلزپارٹی سے کوئی ہمدردی تھی اور نہ ہی بے نظیر بھٹو سے۔
یہ ستم ظریفی بھی ہوئی کہ محترمہ کے دورۂ الجزائر کے چند دنوں بعد عراقی صدر صدام حسین نے کویت پر حملہ کر دیا اور ایک ہفتے بعد بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف کر دی گئی۔ الجزائری حکومت اس پر پریشان ہوئی اور انہوں نے سفیر پاکستان سے پوچھا کہ بے نظیر بھٹو کے زوال میں اس دورۂ الجزائر کا ہاتھ تو نہیں؟ تب کرامت اللہ غوری نے انہیں مطمئن کیا کہ اس میں آپ کا قصور نہیں بلکہ یہ پاکستان کی بازنطینی سیاست کے نشیب وفراز ہیں۔ کرامت غوری نے اس حوالے سے کربناک جملہ لکھا:”ہمارے سیاسی کلچر میں محلاتی سازشوں نے بے نظیر بھٹو کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا اور پاکستان کی نوزائیدہ جمہوریت کو اک بار پھر ہوش سنبھالنے یا جوان ہونے سے پہلے ہی اس طرح گلا گھونٹ کرقتل کر دیا تھا جیسے ایامِ جاہلیت کے عرب معاشرہ میں نوزائیدہ بچوں کو زندہ دفنا دیا جاتا تھا۔ پاکستانی بساط ِ سیاست پر کھیلنے والے شاطر ایک مرتبہ پھر جمہوریت کو مات دینے میں کامیاب رہے تھے۔“
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر