محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حکومت میں موجود بعض سیاسی رہنما اور رانا ثنااللہ جیسے وزرا تو کچھ عرصے سے تحریک انصاف پر دہشت گرد جماعت ہونے کا الزام عائد کر رہے تھے۔ رانا صاحب کا لب ولہجہ پہلے دن سے بہت سخت رہا ہے، حالانکہ وہ پرانے سیاستدان ہیں، خود بھی اسٹیبلشمنٹ کے جبر کا نشانہ بن چکے ہیں، ابھی تین چار سال قبل ہی ان کے خلاف منشیات کا ایک جھوٹا کیس بنایا گیا، جس سے وہ بری ہوچکے۔ بدقسمتی سے رانا صاحب جب خود وزیر داخلہ بنے تو وہ وہی سب کچھ جابرانہ، سفاکانہ اقدامات اپنی اپوزیشن کے خلاف کرنا چاہتے ہیں۔ ماضی سے کچھ سیکھا نہیں۔
چند دن قبل مریم نواز شریف نے بھی ایک دھواں دھار پریس کانفرنس کی، جس میں شعلے برساتے ہوئے بار بار یہ کہا کہ عمران خان دہشت گرد ہیں، ان کی جماعت دہشت گرد ہے اور اس کے ساتھ سیاسی جماعت کے بجائے دہشت گرد تنظیم کی طرح ڈیل کیا جائے۔ اس کا مطلب شائد یہی ہو گا کہ انہیں بے رحمی سے کچل دیا جائے اور ایسا کرتے ہوئے ماورائے قانون اقدامات بھی کئے جائیں۔
یہ سب تو روٹین میں چل رہا تھا، مگر پچھلے دو دنوں سے اچانک ہی سوشل میڈیا میں بھی ایک منظم کمپین شروع ہوگئی ہے۔مختلف لکھنے والے ایک ہی پوائنٹ کو آگے بڑھا رہے ہیںکہ ٹی ٹی پی اورشدت پسند تنظیم ت ت پ کے درمیان بہت کچھ مشترک ہے۔ بعض نے توبلوچ شدت پسند تنظیموں کے ساتھ بھی موازنہ کر ڈالا ہے ۔ یہ دلچسپ کیس سٹڈی ہے کہ اچانک یہ لائن سوشل میڈیا میں کہاں سے آ ٹپکی۔ تاہم اگر مریم نواز اور دیگر ن لیگیوں کے بیانات دیکھ رہے ہوں تو کڑیاں ملانا مشکل نہیں۔
ہمارے نزدیک نتیجہ نکالنے کا درست طریقہ یہ ہے کہ شدت پسند تنظیموں کے منشور، اہداف اور بیانیہ کو دیکھا جائے اور اس کا تحریک انصاف سے موازنہ کر لیں۔اگر الزام ٹھیک ہے تو ثابت ہوجائے گا، ورنہ تضادسامنے آ جائے گا۔
یہ بات اس لئے اہم ہے کہ شدت پسند تنظیموں کا بیانیہ ہی ان کی قوت ہے، چند بنیادی نکات ہے جس پر ان کی پوری جدوجہد اور فکری سپورٹ ٹکی ہوئی ہے۔ وہ چاہتے ہوئے بھی اس سے انحراف نہیں کر سکتے۔
جیسے تحریک طالبان پاکستان ہوں یا بلوچ شدت پسند دھڑے یا دا ع ش ہو ، القاعدہ ہو یا قدرے سافٹ موقف رکھنے والی حزب التحریر، ان سب کا ایک مرکزی نکتہ ہے کہ وہ پاکستانی آئین، پارلیمانی جمہوریت ، شہریوں کے فنڈامینٹل رائٹس، موجودہ عدالتی نظام اور ریاست پاکستان کے عالمی معاہدوں کو نہیں مانتے۔
بلوچ شدت پسند گروہ تو چونکہ علیحدگی پسند ہیں، اس لئے وہ سرے سے ریاست ہی کو نہیں مانتے جبکہ تحریک طالبان پاکستان کا ریاست سے سروکار نہیں مگر وہ ریاست کی موجودہ شکل وصورت کو نہیں مانتی۔یہ تمام شدت پسند گروپ اپنے ان مرکزی نکات سے انحراف نہیں کر سکتے کہ ان کا بیانیہ،ریکروٹنگ کے لئے اپیل اور تمام تر فکری سپورٹ ختم ہوجائے گی۔
اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم شدت پسند تنظیموں کے بیانیہ اور تحریک انصاف کے بیانہ کا موازنہ کرتے ہیں۔ دلچسپ بات ہے کہ اس میں زیادہ محنت نہیں کرنا پڑتی، پہلی نظر ہی میں کئی اہم فرق سامنے آ جاتے ہیں۔
آئین ، جمہوریت ، سیاسی نظم
سب سے پہلا فرق تو یہ ہے کہ تحریک انصاف آئین ، جمہوریت اور سیاسی نظم کو مانتی ہے۔ تحریک انصاف اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی دہائی بھی یہ کہہ کر دیتی ہے کہ حکومت آئین اور قانون پر عمل نہیں کر رہی ۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ پی ڈی ایم والے غیر جمہوری رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ اس کے برعکس شدت پسند تنظیمیں سرے سے ان تینوں کی قائل نہیں ہیں۔
تحریک انصاف الیکشن کا مطالبہ کر رہی ہے۔ خاص کر جہاں آئین کے مطابق دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہوئی ہیں اور وہاں نوے روز میں الیکشن کرانے لازمی تھے، سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کا واضح فیصلہ بھی اس حوالے سے موجود ہے۔ دوسری طرف تمام شدت پسند گروپ سرے سے الیکشن کے ہی مخالف ہیں۔ وہ اسے ڈھونگ کہتے ہیں اورالیکشن اور اس کے نتائج کو نہیں مانتے۔
افواج پاکستان
شدت پسند گروہ اپنے جھوٹے پروپیگنڈہ میں پاک فوج کو پراکسی آرمی کہتے ہیں اور عالمی قوتوں کی آلہ کار۔یہ ان کا بہت اہم بیانیہ ہے کیونکہ اگر وہ فورسز کو درست مان لیں تو ان کے اپنے ہتھیار اٹھانے کا جواز ختم ہوجاتا ہے۔
اس کے برعکس تحریک انصاف کے قائد بارہا اپنے بیانات میں کہہ چکے ہیں کہ پاک فوج ہماری ہے اور ہم اس کے۔ وہ فوجی جوانوں اور افسروں کی شہادت پر دکھ کا اظہار کرتے ہیں اور ابھی دو تین دن پہلے ہی عمران خان نے فورسز کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے۔
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ریٹائر اعلیٰ فوجی افسروں کی بڑی تعداد تحریک انصاف کے بیانیہ کے حق میں ہے۔ ان میں اہم ملٹری اعزاز رکھنے والے متعدد اعلیٰ ریٹائرافسر شامل ہیں۔ اگر تحریک انصاف اینٹی آرمی ہوتی تو یہ سب ایکس سروس مین اس کے بیانیہ کو سپورٹ کیوں کرتے؟
ریاست پاکستان کے عالمی معاہدے
چوتھا بڑا فرق یہ ہے کہ تحریک انصاف تمام عالمی معاہدوں اور اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں کے ساتھ کئے گئے تمام قواعد وضوابط کی پابند ہے اور اسے ان سے کوئی مسئلہ نہیں۔ البتہ عمران خان آزاد خارجہ پالیسی کی بات کرتا ہے تو یہ تو اصولی بات ہے ،جس کا نعرہ ہر پاکستانی سیاسی جماعت لگاتی ہے۔عمران خان کی جنرل اسمبلی میں کی گئی تقریر مشہور ہوئی تھی۔ اقوام متحدہ کی سطح پر اسلامو فوبیا کے خلاف فضا ہموار کرنے میں بھی عمران خان کی تقریروں اور کوششوں کا اہم حصہ ہے۔
اس کے برعکس شدت پسند تنظیمیں کسی عالمی معائدے کو نہیں مانتیں، ان میں سے بیشتر اقوام متحد ہ تک کے مخالف ہیں اور کسی بھی عالمی بندوست کے قائل نہیں۔
عدالتیں، عدالتی نظام
تحریک انصاف عدلیہ کی حامی ہے، عدالتی نظام کے حوالے سے وہ اصلاحات کے قائل ضرور ہیں، مگر اسی پیٹرن کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ تحریک انصاف کا قائد اپنے کیسز کے سلسلے میں ہائی کورٹس اور دیگر عدالتوں میں پیش ہو رہا ہے۔ اس کی ایک تکنیکی مجبوری یہ ہے کہ حکومت نے دانستہ اس کے خلاف بے شمار کیسز درج کرا دئیے ہیں تاکہ وہ ہر جگہ پہنچ نہ سکے اور وارنٹ گرفتاری جاری ہوں۔
بہ ایں ہمہ تحریک انصاف موجودہ عدالتی نظام کی بھرپور حامی ہے، اس کا کوئی ارادہ نہیں کہ عدالتوں کو ختم کرکے قاضیوں سے ری پلیس کیا جائے۔ اس کے برعکس شدت پسند تنظیمیں ایسا نہیں چاہتیں۔ہر شدت پسند تنظیم پاکستانی عدلیہ اور عدالتی نظام کی مخالف ہے، وہ اسے بلڈوز کر کے اپنے خودساختہ انصاف کے نظام کو لانا چاہتے ہیں۔
آئین کے بنیادی سٹرکچر کی حمایت
سپریم کورٹ کے بعض فیصلوں کے مطابق فنڈا مینٹل رائٹس، وفاقی نظام، پارلیمانی جمہوریت اور اسلامی شقیں پاکستانی آئین کا بنیادی سٹرکچر ہے ۔ اس سے کسی بھی صورت انحراف نہیں کیا جا سکتا۔
تحریک انصاف وفاقی نظام، پارلیمانی جمہوریت ، اسلامی شقیں، فنڈامینٹل رائٹس کی قائل ہے اور انہیں ہی آگے برقرار رکھنا چاہتی ہے۔
شدت پسند تنظیمین خاص کر ت ت پ تو ان میں سے کسی کی قائل نہیں۔ وہ اپنے انداز کی خلا ف ت نما نظام بنانے کی حامی ہے ، جس میں کوئی الیکشن ہو نہ جمہوریت وغیرہ ۔
مزید پڑھیں:توشہ خانہ کے تحائف: کیا ہوا، کیا ہونا چاہیے ؟
اس لئے اپنے منشور، اہداف، بیانیہ اور تنظیمی سٹرکچر کے اعتبار سے شدت پسند تنظیموں کی تحریک انصاف کے ساتھ کسی بھی قسم کی مماثلت نہیں ہے۔ معمولی سی بھی نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تحریک انصاف کا بیانیہ ہر اعتبار سے شدت پسند تنظیموں کے برعکس اور مخالف ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر