نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

افسوس، ہم ماضی سے کچھ نہ سیکھ سکے۔۔۔||محمد عامر خاکوانی

عامر خاکوانی لاہور میں مقیم سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں،ان کے موضوعات میں سیاست ، حالات حاضرہ ،سوشل ایشوز،عسکریت پسندی اورادب شامل ہیں۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

میری نسل کے اخبارنویس ہوں یا عام لوگ جنہوں نے ستر کے عشرے میں آنکھ کھولی، انہیں نوے کی دہائی اچھی طرح یاد ہے۔ ہمارے سکول ، کالج کا زمانہ تھا۔، جو چند سال بڑے تھے، وہ یونیورسٹی میں یا عملی زندگی میں ہوں گے۔ نوے کی دہائی میں مسلم لیگ ن (ابتدا میں اسلامی جمہوری اتحاد کی شکل میں)اور پیپلزپارٹی میں شدید سیاسی چپقلش اور اختلاف رہا۔ دونوں کو دو مختلف ادوار میں اقتدار ملا۔ ان دونوں ادوار میں شدید سیاسی تلخی، ایک دوسرے پر ذاتی نوعیت کے حملے اور اقتدار میں آ کر اپوزیشن کے خلاف سخت ترین انتظامی حربے استعمال کئے جاتے رہے۔ مسلم لیگ نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی کردار کشی کی کوششیں بھی کیں اور انہیں سکیورٹی رسک بھی قرار دیا۔ نواز شریف صاحب خود اپنی تقریر میں بی بی کو سکیورٹی رسک کہتے تھے۔ جوابی طور پر پیپلزپارٹی شریف خاندان کو کرپٹ، ضیا باقیات وغیرہ کہا کرتیں۔ دونوں جماعتوں نے اقتدار میں آ کر اپنی اپوزیشن کے کارکنوں کی گرفتاریاں کرائیں، ان پر مقدمے کئے اور میڈیا کو بھی پریشرائز کرنے کی کوشش کی۔ نواز شریف کے دوسرے دور میں صحافیوں اور میڈیا ہائوسز کے گرد گھیرا بہت تنگ ہوا۔ آصف زرداری اور بے نظیر بھٹو کے خلاف زیادہ تر کیسز انہی ادوار میں ہوئے ۔ مجھے یاد ہے کہ میاں نواز شریف کے بزرگ والد میاں شریف کو بھی گرفتار کیا گیا ۔ یہ سب بہت بری، تکلیف دہ یادیں ہیں ۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب دونوں جماعتیں اقتدار سے دور ہوئیں تو پھر ان میں قربت پیدا ہوئی۔پھر وہ مشہور میثاق جمہوریت (چارٹر آف ڈیموکریسی) پر دستخط ہوئے ،جس کا حوالہ آج بھی دونوں پارٹیوں کے لیڈر دیا کرتے ہیں۔ پرویز مشرف کے بعد پہلے پیپلزپارٹی اور پھر ن لیگ اقتدار میں آئی۔ ان دس برسوں کے دوران پیپلزپارٹی اور ن لیگ ایک دوسرے پر زبانی تنقید تو کرتے رہے، مگر عملی طور پر مفاہمت والا رویہ اپنائے رکھا۔ حتیٰ کہ ان پر فرینڈلی اپوزیشن اور نورا کشتی کھیلنے کا الزام بھی لگا۔ ان دونوں کا طریقہ کار یہی رہا کہ اقتدار کے دو تہائی حصے میں مفاہمت رکھی جائے تاہم آخری سال کوئی بہانہ کر کے الگ ہوجائیں اور پھر ایک دوسرے پر روایتی سیاسی الزامات اور تنقید کی جائے ۔ دلچسپ کام یہ ہوا کہ مسلم لیگ ن نے سندھ کو پیپلزپارٹی کے لئے بالکل کھلا چھوڑ دیا۔ میاں نوازشریف نے کراچی اور دیہی سندھ کو بالکل ہی نظرانداز کر دیا اگرچہ وہاں مسلم لیگی ووٹ کی بعض پاکٹس تھیں۔ مقصد اس کا یہ تھا کہ پیپلزپارٹی کو کمفرٹیبل رکھا جائے۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت کا سب سے بڑا نقصان انہیں یہ پہنچا کہ پنجاب سے پارٹی ووٹ کا صفایا ہوگیا اور تحریک انصاف پنجاب کی بڑی جماعت بن گئی۔ پیپلزپارٹی نے حالات کا اندازہ کرتے ہوئے مزید پسپائی اختیار کر لی اور ایک طرح سے پنجاب ن لیگ کو سونپ دیا۔ ہمارے دانشور ، اہل قلم، تجزیہ کار تب بڑے ذوق شوق سے یہ لکھا کرتے تھے کہ دونوں بڑی جماعتوں نے ماضی سے سبق سیکھ لیا ہے۔ اب وہ نوے کی سیاست سے آگے نکل آئے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف کارروائی نہیں کرتے، ذہن جمہوری ہوگیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ان میں سے جو ن لیگ کے حامی تھے، وہ زیادہ کریڈٹ آل شریف کو دیتے جبکہ پی پی کے حامی بھٹو صاحب کے گیت گاتے ہوئے زرداری ڈاکٹرائن کے قصیدے رقم فرماتے۔ عمران خان فیکٹر البتہ ایک ایسا نیا عنصر ثابت ہوا جس نے سب کچھ ہلا کر رکھ دیا۔ میثاق جمہوریت کے فسوں ساز سنہری گیت گم ہوگئے ، سیاسی کلچر پختہ ہونے کے دعوے چکناچور ہوئے۔ سیاستدانوں کے اندر کا چھوٹا پن، غصہ، عامیانہ انتقامی جذبہ اور مفاد کی خاطر کسی بھی حد تک گرنے والی خصلتیں آشکار ہوئیں۔ پچھلے ساڑھے چار برسوں پر نظر ڈالیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے ماضی سے کچھ بھی نہیں سیکھا۔ وہ جمہوریت پسند ہیں ہی نہیں۔ سیاست ،پارلیمانی جمہوریت اور الیکشن ان کے اقتدار میں آنے کا راستہ ہے، اس لئے صرف نام کی حد تک وہ اس پر چلتے ہیں۔ اندر سے وہ کسی بھی غیر جمہوری ملک کے آمر کی طرح سفاک، بے حس، سردمہر، خود غرض اور منتقم مزاج ہیں۔ بدقسمتی سے یہ بات کسی نہ کسی حد تک دونوں فریقوں پر پورا اترتی ہے۔ یہ مان لینا چاہیے کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنے سیاسی مخالفین کا ناطقہ بند کرنے کی کوششوں کو پوری طرح اون کیا، ان کی حمایت کی اور ان کے لئے اپنا سیاسی بیانیہ تخلیق کیا۔ ان کے دور میں سیاسی مخالفین کے خلاف کئی ایسی کارروائیاں ہوئیں جن کا دفاع نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ان کی کوئی توجیہہ دی جا سکے گی۔ رانا ثنااللہ کے خلاف منشیات کا مقدمہ بھی ایسا ہی ایک معاملہ تھا۔ جب رانا صاحب کی گرفتار ی ہوئی، تب ان کے مقامی سیاسی مخالفین نے بھی یہ بات کی تھی کہ یہ الزام غلط اور بے بنیاد ہے ، کوئی اور الزام لگایا جاتا تو شائد مان لیا جاتا مگر منشیات کی سمگلنگ میں رانا ثنااللہ کبھی انوالو نہیں رہا۔ اس کے باوجود تحریک انصاف نے اس کیس کو پوری طرح سے اون کیا، عمران خان کے ایک ساتھی اور وزیرشہریار آفریدی کا وہ ویڈیو کلپ آج انہیں دکھایا جائے تو وہ خفیف ہوجائیں گے، جس میں وہ قسمیں کھا کر رانا ثنااللہ کے خلاف مقدمے کو درست کہہ رہے ہیں۔ نیب نے احسن اقبال، شاہد خاقان عباسی، خواجہ سعد رفیق وغیرہ کے خلاف جو گرفتاریاں کیں اور انہیں کئی کئی ماہ جیل میں رہنا پڑا، وہ بھی وقت کے ترازو میں بہت ہلکا اور بے وزن ثابت ہوا۔ نیب کے حکام تب ان کیسز کے مضبوط اور ٹھوس ہونے کا دعویٰ کرتے تھے ، عمران خان ، انصافین رہنما اور کارکن بھی بڑے جوش وخروش سے ان کا دفاع کرتے تھے۔ آج ان سے اگر نجی طور پر رائے پوچھی جائے تو ان سب کا جواب یقینی طور پرناقابل اشاعت اور ناقابل نشر ہوگا۔ مریم نواز شریف کے خلاف جس بھونڈے انداز میں کارروائی کی گئی، اسے تو تب ہی غلط تسلیم کر لیا گیا تھا، اسی وجہ سے متعلقہ اہلکاروں کے ٹرانسفر وغیرہ بھی ہوئے۔ کیپٹن ر یٹائر صفدر نے مزا ر قائد پر نعرے بازی کرا کر غلط کیا، مگر اسے بنیاد بنا کر آدھی رات کو ہوٹل کے کمرے کا لاک توڑ کر گرفتاریوں کاجواز نہیں تھا۔اسی طرح کے بعض دیگر واقعات بھی ہوئے، یہ سب ناخوشگوار، نامناسب اور غلط تھے۔ بدقسمتی سے تحریک انصاف کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے اہل قلم ، اہل دانش ان پر خاموش رہے یا کھل کر مذمت نہیں کر سکے۔شائد اس لئے کہ بعض اوقات حالات کچھ ایسی شکل اختیار کر لیتے ہیں کہ کھل کر مخالفت نہیں کی جا سکتی۔غلط کو غلط اس لئے نہیں کہا جاتا کہ جن کے ساتھ وہ ہو رہا ہوتا ہے،ان کی ذات ہمیں غلط اور مشکوک لگ رہی ہوتی۔ وجہ بہرحال جو بھی ہو، میں اب یہ سمجھتا ہوں کہ عمران خان کے دور میں اپوزیشن رہنمائوں کے خلاف جو کچھ ہوا، اس کی زیادہ کھل کر زوردار انداز میں مذمت کرنا چاہیے تھی۔ آج پھر وہی حالات ہیں۔ عمران خان اور تحریک انصاف کے خلاف یوں معلوم ہورہا ہے جیسے زمین کی تمام تر قوتیں یکجا ہوچکی ہیں۔ صریحاً غلط کیا جا رہا ہے۔ زیادتی در زیادتی کے واقعات ہر روز سامنے آ رہے ہیں۔ عمران خان کے خلاف مقدمات اس تیزی سے درج ہورہے ہیں کہ دو چار دن میں سنچری مکمل ہوجائے گی۔ پی ٹی آئی کے بعض لیڈروں کی گرفتاری ہوچکی، چند ایک کو سخت صعوبت کا سامنابھی کرنا پڑا۔ میڈیا ہائوسز شدید دبائو میں ہیں۔پیمرا شمشیر برہنہ لئے کھڑا ہے۔ پاکستانی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ملک کی تمام تر اینٹی اسٹیبلشمنٹ قوتیں اس بار وہاں کھڑی ہیں جہاں انہیں نہیں ہونا چاہیے۔ ماضی میں وہ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے مخالف صف آرا ہوتی تھیں، اس بار عمران مخالفت کی بدولت وہ پرواسٹیبلشمنٹ قوتوں کے شانہ بشانہ ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ وہ تمام اہل قلم، تجزیہ کار، بلاگر وغیرہ جوصرف ڈھائی تین سال پہلے عمران خان حکومت کی انتقامی کارروائیوں پر نکتہ چیں تھے، اب وہ خاموشی کی چادر اوڑھے غالباً نیپال کی وادیوں میں سونے چلے گئے۔ یہ سب غلط ہو رہا ہے۔ ماضی میں اگر غلط ہوا تو وہ آج کی غلطیوں اور انتقامی کارروائیوں کا جواز نہیں۔ رانا ثنااللہ یا مریم نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ یہ اسے دس گنا زیادہ بڑھا کر عمران خان کو لوٹائیں؟یہ تو انتقام کا ایسا خونی، منحوس چکر ہے جو کچھ عرصے بعد ایک بار پھر گھومے گا۔ اگر الیکشن ہوئے تو عمران خان برسراقتدار آجائے گا۔ کیا وہ بھی یہی سب کچھ کرے ؟خدانخواستہ اگر ایسا ہوا تو ملک اور قومی استحکام کا کیا بنے گا؟بدلہ چکانے اور انتقام لینے کے چکر میں پی ڈی ایم اور اتحادی وہ گرہیں نہ لگائیں جو ناخنوں سے کھل ہی نہ سکیں۔ کیا ہم ماضی ہی میں الجھے رہ جائیں گے یا آگے بڑھنے کا سوچیں گے؟ یہی وہ سوال ہے جو اس کالم کے لکھنے کا باعث بنا۔ افسوس میرے پاس تو اس کا جواب نہیں ۔ مجھے تو یوں لگ رہا ہے کہ انتقام درانتقام کا یہ کھیل زیادہ بے رحم ، سفاک اور خوفناک ہوتا جائے گا۔ اللہ رحم فرمائے اور ہماری سیاسی وغیر سیاسی اشرافیہ کو ماضی سے سیکھنے کی توفیق دے، آمین۔

 

 

 

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

محمد عامر خاکوانی کے مزید کالم پڑھیں

About The Author