دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عدل کے ایوانوں میں سیاسی دھند|| وجاہت مسعود

2007ء کے بعد افتخار چوہدری، ثاقب نثار، آصف کھوسہ، اور گلزار احمد کے ادوار عدلیہ اور انتظامیہ میں دستوری لکیر اوجھل ہونے کا استعارہ ہیں۔ پوچھنا چاہیے کہ آخر اس فہرست میں جسٹس تصدق حسین جیلانی، ناصر الملک اور انور ظہیر جمالی کے نام کیوں نہیں آتے۔

وجاہت مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جدید سیاست کی بات 1789 کے انقلاب فرانس سے شروع ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جدید دنیا کا دروازہ کھولنے والے اس اہم سیاسی سنگ میل کی شعوری بنیادیں رکھنے والے فرانس کے کم و بیش تمام اہم فلسفی اور ادیب انقلاب سے چند برس پہلے دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔ مانٹیسکیو 1755، والٹیئر 1778، روسو 1778 اور دیدرو 1784 میں انتقال کر گئے تھے۔ ان میں مانٹیسکیو فلسفہ قانون میں بھی درک رکھتا تھا۔ عوام کی حکمرانی یعنی جمہوری بندوبست میں پارلیمنٹ، حکومت اور عدلیہ میں اختیارات کی تقسیم کا تصور مانٹیسکیو ہی کی دین ہے۔ اقتدار کے اس نمونے میں مقننہ کا کردار قانون سازی کرنا ہے۔ انتظامیہ کا دائرہ کار قانون کے مطابق حکومت چلانا ہے۔ عدلیہ کا کردار عوام کو انصاف فراہم کرنے کے علاوہ یہ دیکھنا بھی ہے کہ حکومت کا کوئی اقدام یا مقننہ کی کوئی قانون سازی دستور سے متصادم نہ ہو۔ فرانس کے روشن خیال فلسفیوں کے بعد سپین کے مصور فرانسسکو گویا کا زمانہ آتا ہے۔ 1746 میں پیدا ہونے والے فرانسسکو گویا نے انقلاب فرانس سے قریب دس برس بعد اپنی ایک تصویر کا عنوان لکھا تھا ”جہاں عقل کو اونگھ آ جائے، وہاں عفریت جنم لیتے ہیں“ ۔ پاکستان کے دستور میں اختیارات کی تقسیم کا وہی اصول مدنظر رکھا گیا ہے جو مانٹیسکیو نے پیش کیا تھا لیکن ہماری تاریخ میں حکومت اور عدلیہ کو الگ کرنے والی سرحد پر غیر شفافیت کی دھند کیسے نمودار ہوئی؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بابائے قوم کے استثنا کے ساتھ پاکستان بنانے والی سیاسی نسل نے جمہوریت کا خواب ہی نہیں دیکھا۔ تقسیم ہند کے ہنگامی حالات میں افسر شاہی نے سیاسی قوتوں پر کاٹھی ڈال لی۔ جنوری 1951 میں ایوب خان فوج کے پہلے مقامی سربراہ مقرر ہوئے تو غیر ملکی حکمرانوں کی تربیت یافتہ مسلح افواج اور افسرشاہی میں گٹھ جوڑ وجود میں آ گیا۔ 16 اکتوبر 1951 کو لیاقت علی خان پر چلنے والی پستول کی نال سے جو دھواں اٹھا تھا اس میں غلام محمد اور مشتاق گورمانی کے ہیولے تو عارضی مہرے تھے۔ اس بساط کے اصل کھلاڑی سکندر مرزا اور ایوب خان تھے۔ دستور سازی کی بنیادی ذمہ داری سے غفلت کا نتیجہ تھا کہ جسمانی طور پر مفلوج غلام محمد نے 24 اکتوبر 1954 کو دستور ساز اسمبلی ہی توڑ ڈالی۔ گورنر جنرل کا یہ حکم نامہ اس اعتبار سے غیر معمولی تھا کہ اس میں کسی قانونی اختیار کا حوالہ دینے کی زحمت تک نہیں کی گئی تھی کیونکہ ایسا کوئی دستوری یا قانونی اختیار موجود ہی نہیں تھا۔ مولوی تمیز الدین نے دستور ساز اسمبلی کے سربراہ کی حیثیت سے عدلیہ سے انصاف چاہا تو 10 مئی 1955 کو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت (تب فیڈرل کورٹ) کے چیف جسٹس محمد منیر نے دائرہ اختیار کے تکنیکی نکتے کی بنیاد پر سندھ چیف کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ یہ فیصلہ نادیدہ دباؤ میں دیا گیا تھا۔ اس حقیقت کی اہم ترین گواہی خود جسٹس منیر ہی نے دے رکھی ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد لاہور بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے 22 اپریل 1960 کو جسٹس منیر نے کہا کہ ”سندھ چیف کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا جاتا تو خون خرابہ ہو سکتا تھا“ ۔ اس تقریر میں جسٹس منیر نے عدالت عظمیٰ کے ججوں کی ذہنی کیفیت کو ”عدالتی ایذا رسانی“ قرار دیا تھا۔ اگر جسٹس منیر مئی 1955 میں یہ دباؤ برداشت نہیں کر سکتے تھے تو ان سے یہ توقع کیسے رکھی جا سکتی تھی کہ وہ ڈوسو کیس میں ایوب خان کے خود ساختہ مارشل لا بندوبست کو غیر دستوری قرار دیتے۔

ایوب خان 7 اکتوبر 1958 کو 1956 کا دستور توڑ کر مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے۔ 10 اکتوبر کو نیا قانونی ڈھانچہ (New Legal Order) نافذ کیا۔ 23 اکتوبر کو وزیراعظم بن گئے اور 27 اکتوبر کو سکندر مرزا سے زبردستی استعفیٰ لے کر صدر کے عہدے پر براجمان ہو گئے۔ 27 اکتوبر 1958 ہی وہ تاریخ تھی جب جسٹس محمد منیر کی صدارت میں عدالت عظمیٰ نے متفقہ طور پر آسٹریا کے قانون دان ہانس کیلسن (Hans Kelsen) کے قانونی نظریات کا مثلہ کرتے ہوئے کامیاب انقلاب کو نظریہ ضرورت کا نام دیتے ہوئے جائز حکومت قرار دیا تھا۔ یہ نکتہ سراسر فراموش کر دیا گیا کہ ایوب خان کا اقدام ”انقلاب“ نہیں، دستور سے ”بغاوت“ تھا۔ 1973 میں انتقال کرنے والے کیلسن کو اپنے تصور قانون کی اس تشریح کا علم ہوا تو وہ خود حیران رہ گئے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں آٹھویں صدی کے مسلم فقیہ امام ابو حنیفہ کے چند حوالے بھی دیے تھے۔ امام ابو حنیفہ نے شخصی ضرورت کے تناظر میں اپنی رائے دی تھی اس کا عوام کی رائے سے قائم ہونے والی قومی ریاست سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ دسمبر 1971 میں عاصمہ جیلانی نے اپنے والد ملک غلام جیلانی کی مارشل لا احکامات کے تحت نظربندی کو چیلنج کیا تو غاصب یحییٰ خان حکومت سے محروم ہو کر حفاظتی نظربندی میں تھے۔ سپریم کورٹ نے 20 اپریل 1972 کو یحییٰ خان کی حکومت کو غیر قانونی، غیر آئینی اور غاصب قرار دیا تو یحییٰ خان کے شریک سفر لیفٹیننٹ جنرل گل حسن اور ائر مارشل رحیم خان بھی اپنے عہدوں سے محروم ہو چکے تھے۔ یہ امر دلچسپ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے قومی اسمبلی میں مارشل لا اٹھانے کا اعلان بھی اسی رات کیا۔ عدلیہ کے فیصلوں اور حکومت کے اقدامات میں تال میل جاری رہا۔

20 ستمبر 1977 کو بیگم نصرت بھٹو نے جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تو چیف جسٹس انوار الحق نے 10 نومبر 1977 کو ”نظریہ ضرورت“ ہی کا سہارا لیتے ہوئے ضیا الحق کے مارشل لا کو جائز قرار دے دیا بلکہ انہیں آئین میں ترمیم کا اختیار بھی سونپ دیا۔ یہ امر دلچسپ ہے کہ اس مقدمے میں فوجی حکومت کے وکیل اے کے بروہی تھے جو ٹھیک چھ برس پہلے عاصمہ جیلانی کیس میں مارشل لا کی مخالفت میں دھواں دھار دلائل دے چکے تھے۔ چیف جسٹس یعقوب علی خاں نے 5 جولائی 1977 کو ملاقات کے لئے آنے والے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیا الحق کا بذات خود استقبال کرنے سے معذرت کرتے ہوئے عدالت کے رجسٹرار کو دروازے پر بھیجا تھا۔ نیز یہ اشارہ بھی دیا تھا کہ اگر مارشل لا کو چیلنج کیا گیا تو عدالت دستور کے مطابق فیصلہ دے گی۔ اسی نکتے کو مدنظر رکھتے ہوئے 14 ستمبر 1977 کو ایران کے اخبار ’کیہان انٹرنیشنل‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے جنرل ضیا نے کہا تھا کہ ”آئین کیا چیز ہے، دس بارہ صفحات کا ایک کتابچہ ہی تو ہے۔ میں جب چاہوں، اسے پھاڑ کر پھینک سکتا ہوں۔“ اس انٹرویو کے ایک ہفتے بعد 22 ستمبر کو چیف جسٹس یعقوب علی خان کو ان کے عہدے سے بٹا کر جسٹس انوار الحق کو سپریم کورٹ کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ جنرل ضیا الحق کے حکم پر چیف جسٹس کا عہدہ قبول کرنے والے جسٹس انوار الحق فوجی حکومت کو غاصب قرار دینے کی جرات کیسے کر سکتے تھے۔ جسٹس دراب پٹیل نے اپنی خود نوشت Testament of a Liberal میں اس فیصلے کا جواز دیتے ہوئے لکھا کہ عدالت ایک قابض حکومت کے خلاف فیصلہ کیسے نافذ کروا سکتی ہے۔ جسٹس صاحب نے یہ نکتہ فراموش کر دیا کہ عدالت کا کام دستور کا تحفظ ہے، اپنے فیصلے کے نفاذ کی ذمہ داری اٹھانا نہیں ہے۔

3 ستمبر 1977 کو ذوالفقار علی بھٹو کو مارچ 1974 میں ایک سیاسی مخالف محمد احمد خان کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ سیشن کورٹ کی بجائے یہ مقدمہ لاہور ہائی کورٹ میں چلایا گیا جس کی سربراہی بھٹو کے ایک واضح مخالف جسٹس مولوی مشتاق حسین کر رہے تھے۔ فوجداری قانون کا کوئی ایسا اصول نہیں جسے اس مقدمے میں پامال نہیں کیا گیا۔ سابق امریکی اٹارنی جنرل ریمزے کلارک نے اسے کینگرو کورٹ میں چلایا جانے والا جعلی مقدمہ قرار دیا۔ مولوی مشتاق کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے 18 مارچ 1978 کو بھٹو کو اعانت قتل کے الزام میں سزائے موت سنا دی۔ سپریم کورٹ میں اپیل بھی 6 فروری 1979 کو تین کے مقابلے میں چار ججوں کی رائے سے مسترد کر دی گئی۔ سپریم کورٹ کے سات رکنی بنچ کے رکن جسٹس نسیم حسن شاہ نے برسوں بعد سرعام تسلیم کیا کہ انہوں نے یہ غلط فیصلہ انتہائی دباؤ میں دیا تھا۔ بھٹو کو سزائے موت دینے کا فیصلہ پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ کا بھیانک باب ہے جس کا مقصد صرف بھٹو کو جنرل ضیا کے راستے سے ہٹانا تھا۔ 2011 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے سپریم کورٹ میں بھٹو کے مقدمے پر نظر ثانی کی درخواست دی جو چند سماعتوں کے بعد سے زیرالتوا چلی آتی ہے۔

عدالت عظمیٰ کے ان اقدامات کے نتیجے میں جنرل ضیا الحق 30 دسمبر 1985 تک مارشل لا ایڈمنسٹریٹر رہے۔ اس دوران انہوں نے مارچ 1981ء میں ایک عبوری آئینی حکم نافذ کیا۔ 19 دسمبر 1984 کو ایک جعلی ریفرنڈم منعقد کر کے مزید پانچ برس صدر رہنے کا اعلان کیا۔ 16 اکتوبر 1985 کو غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے قائم ہونے والی قومی اسمبلی سے طاقت کے بل پر آٹھویں دستوری ترمیم بھی منظور کروائی۔ آٹھویں آئینی ترمیم نے دستور کا پارلیمانی تشخص ختم کر کے اسے صدارتی نظام میں بدل دیا۔ دستور میں شق 58 ( 2 ) بی شامل کر کے صدر کو پارلیمنٹ تحلیل کرنے کا اختیار بھی مل گیا۔ جنرل ضیا الحق نے یہی اختیار استعمال کرتے ہوئے 29 مئی 1988 کو اپنی ہی تخلیق کردہ ”جمہوری حکومت“ ختم کر دی۔

17 اگست 1988 کو جنرل ضیا الحق کی موت کے بعد حاجی سیف اللہ اور چند دوسرے ارکان اسمبلی نے جونیجو حکومت کی برطرفی کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ یکم اکتوبر 1988 کو لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ نے 29 مئی 1988 کے اقدام کو متفقہ طور پر بلاجواز اور غیر آئینی قرار دینے کے باوجود اسمبلیاں بحال کرنے سے انکار کر دیا۔ 5 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ درست قرار دیتے ہوئے حکم جاری کیا کہ 29 مئی 1988 کا اقدام 58 ( 2 ) بی کے مطابق نہیں تاہم بہتر ہو گا کہ عوام ازسرنو اپنے نمائندے منتخب کریں۔ اس فیصلے کے چار برس بعد فروری 1993 میں جنرل اسلم بیگ نے اعتراف کیا کہ انہوں نے وسیم سجاد کے ذریعے سپریم کورٹ کے ججوں کو جونیجو حکومت بحال نہ کرنے کا پیغام بھجوایا تھا۔ اس اعتراف کے بعد سپریم کورٹ نے 29 مارچ 1993 کو جنرل اسلم بیگ کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دینے کے باوجود کوئی سزا نہیں سنائی۔ بہت برس بعد جنرل اسلم بیگ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ انہوں نے جنرل حمید گل کو اکتوبر 1988 میں انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونے کے لئے آئی جے آئی بنانے کی اجازت دی تھی۔

نومبر 1988 میں برسراقتدار آنے والی بے نظیر حکومت صرف بیس ماہ بعد من گھڑت الزامات کی بنیاد پر برطرف کر دی گئی۔ سندھ اور پنجاب میں ہائی کورٹ کی سطح پر صدارتی اقدام کو جائز قرار دے دیا گیا۔ ان فیصلوں کے خلاف خواجہ احمد طارق رحیم کی سپریم کورٹ میں اپیل بھی مسترد کر دی گئی۔ اکتوبر 1990 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی اور اتحادی جماعتیں نومبر 1988 کے مقابلے میں لاکھوں ووٹ زیادہ لینے کے باوجود صرف 44 نشستیں جیت سکی۔ نواز شریف کی آئی جے آئی 106 نشستوں پر کامیاب ہوئی۔ ان انتخابات کے دوران آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی نے 1994 میں ایک حلفیہ بیان میں بتایا کہ انہوں نے جنرل اسلم بیگ کے حکم پر کراچی کے ایک بینکار یونس حبیب کی مدد سے پیپلز پارٹی مخالف سیاست دانوں میں کروڑوں روپے تقسیم کیے تھے۔ ائر مارشل اصغر خان نے 1996 میں اس معاملے پر سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی۔ 16 برس بعد سپریم کورٹ نے درخواست منظور کرتے ہوئے 19 اکتوبر 2012 کو متعلقہ افراد کے خلاف کارروائی کا حکم دیا لیکن فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

18 اپریل 1993 کو صدر غلام اسحاق نے نواز شریف حکومت بھی برطرف کر دی لیکن سپریم کورٹ نے جسٹس نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں 26 مئی 1993 کو صدر کا اقدام غیر آئینی قرار دیتے ہوئے حکومت بحال کر دی۔ تاہم سیاسی بحران ختم نہ ہو سکا۔ بالآخر آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ نے مداخلت کر کے 18 جولائی 1993 کو صدر اسحاق خان اور وزیر اعظم نواز شریف سے استعفے لے لئے۔ اکتوبر 1993 کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو دوبارہ وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ مارچ 1996 میں الجہاد ٹرسٹ کی ایک آئینی درخواست پر فیصلہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کے لئے متعلقہ عدالتوں کے چیف جسٹس سے مشاورت کو لازمی قرار دے دیا۔ سنیارٹی کے اصول کی پابندی ضروری قرار دی گئی۔ عشروں تک نادیدہ مقتدرہ کا کھیل کھیلنے کے بعد اب عدلیہ اقتدار کی بساط پر اپنے لئے زیادہ طاقت کی خواہاں تھی۔ اسی برس 5 نومبر کو فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت بھی برطرف کر دی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور قومی اسمبلی کے اسپیکر یوسف رضا گیلانی نے اس اقدام کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ 29 جنوری 1997 کو عدالت عظمیٰ نے ایک کے مقابلے میں 6 ججوں کی اکثریت سے بے نظیر کی برطرفی کو جائز قرار دے دیا۔ نئے انتخابات میں نواز شریف دو تہائی اکثریت سے کامیاب ہو کر دوسری بار وزیر اعظم بنے۔ صرف 6 ہفتے بعد یکم اپریل 1997 کو پارلیمنٹ نے تیرہویں آئینی ترمیم کے ذریعے دستور کی بدنام زمانہ شق 58 ( 2 ) بی ختم کر دی۔ اس دوران عدلیہ اور حکومت میں اختلاف شروع ہو گیا۔ عدلیہ کا موقف تھا کہ ججوں کی تقرری کا اختیار عدلیہ کے پاس ہونا چاہیے۔ نواز شریف اسے پارلیمنٹ کا اختیار سمجھتے تھے۔ دراصل صدر فاروق لغاری 58 ( 2 ) بی کے خاتمے پر سیخ پا تھے اور جسٹس سجاد اقتدار کی بساط پر عدلیہ کے لئے زیادہ اختیارات کے خواہاں تھے۔ جھگڑا اس قدر بڑھا کہ صدر فاروق لغاری کو پارلیمانی مواخذے اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو عدالت عظمیٰ میں کھلی بغاوت کے لالے پڑ گئے چنانچہ 2 دسمبر 1997 کو دونوں افراد ایک ہی روز مستعفی ہو گئے۔

12 اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف نے حکومت پر قبضہ کرنے کے بعد شریف الدین پیرزادہ کے ذریعے چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی کو پیغام دیا کہ وہ عبوری آئینی حکم کے تحت حلف اٹھا لیں۔ جسٹس صدیقی کا موقف تھا کہ ایسا حلف اٹھانا ان کے حقیقی حلف کی خلاف ورزی ہو گی جس میں انہوں نے دستور پاکستان کے تحفظ کی ذمہ داری اٹھا رکھی ہے۔ جسٹس صدیقی کے علاوہ اعلیٰ عدلیہ کے 14 دیگر ججوں نے عبوری آئینی حکم کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا۔ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری جنرل مشرف کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والوں میں شامل تھے جو بعد ازاں عدلیہ بحالی تحریک کا مرکزی کردار بنے۔ عدالت عظمیٰ میں خالی ہونے والی نشستوں پر نئی تقرریاں کی گئیں تو افتخار محمد چوہدری بھی سپریم کورٹ میں پہنچ گئے اور اس بینچ کا حصہ تھے جس نے پرویز مشرف کو تین سال تک حکومت کرنے کی اجازت دی۔ نیز دستور میں ترمیم کا وہ اختیار بھی عنایت کر دیا جس کی حکومت کی طرف سے استدعا ہی نہیں کی گئی تھی۔ پرویز مشرف نے بھی پیشروؤں کی روایت پر چلتے ہوئے ریفرنڈم منعقد کیا جس کی حمایت میں عمران خان اور طاہر القادری پیش پیش تھے۔ مذہبی تنظیموں کا اتحاد یعنی متحدہ مجلس عمل قائم کیا۔ اس کے باوجود اکتوبر 2002ء میں قومی اسمبلی میں من پسند جماعت قاف لیگ کو سادہ اکثریت نہ مل سکی تو پیپلز پارٹی کے دس ارکان کی وفاداریاں تبدیل کر کے پیٹریاٹ گروپ تشکیل دیا گیا۔ فوجی چھتری تلے قائم ہونے والی اس ’پارلیمنٹ‘ نے دسمبر 2003ء میں سترہویں آئینی ترمیم پاس کی جو دراصل آٹھویں آئینی ترمیم کا احیا تھا۔ اس کی مدد سے نہ صرف ایل ایف او کو آئینی تحفظ مل گیا بلکہ صدر کو قومی اسمبلی کی تحلیل او ر وزیراعظم کی برطرفی کا اختیار بھی مل گیا۔ اس دوران عدلیہ منقار زیر پر رہی۔ وزارت عظمیٰ ظفراللہ جمالی اور چوہدری شجاعت سے ہوتی ہوئی شوکت عزیز تک پہنچی۔ 2005ء میں پرویز مشرف نے افتخار محمد چوہدری سے پاکستان کے چیف جسٹس کا حلف لیا۔ گویا یہ تیسرا موقع تھا جب افتخار محمد چوہدری نے غیر دستوری آئینی بندوبست کو تسلیم کیا۔ یہاں سے ایک نئی کہانی شروع ہوئی۔

فوجی آمر ملک پر قبضہ کرتا ہے تو اس کی پہلی خواہش عدالت عظمیٰ سے اپنی حکومت کا جواز حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اس کے بعد فوجی آمر کی واحد دلچسپی اپنے اقتدار کی ممکنہ حد تک طوالت ہوتی ہے۔ ایک خاص مدت گزرنے کے بعد آمر کے ذاتی عزائم اور اس کے عسکری ادارے کے طویل مدتی مفادات میں فاصلہ پیدا ہونے لگتا ہے۔ اپنی باری کے منتظر اعلیٰ افسروں کے عزائم بھی انگڑائی لیتے ہیں۔ ایوب خان کو کسی عوامی تحریک نے نہیں بلکہ یحییٰ، حمید خان، گل حسن، پیرزادہ جیسے جتھے نے اقتدار سے الگ کیا تھا۔ ایم آر ڈی کی تمام تر مزاحمت کے باوجود ضیا الحق کے منظر سے ہٹنے کے اسباب بالکل مختلف تھے۔ 2006ء کے اواخر تک پرویز مشرف کا اقتدار بھی اس مرحلے میں داخل ہو چکا تھا جہاں ان کا صدارت کے عہدے پر مزید قیام فوج کے مفادات سے متصادم ہو چکا تھا۔ اس موقع پر افتخار محمد چوہدری کے کچھ اقدامات فوج میں متحرک زیرزمین طاقتوں کو ایک نعمت کی طرح نظر آئے جنہیں فوراً بروئے کار لایا گیا۔ حکومت پاکستان 362 ملین ڈالر کے عوض سٹیل مل کی 75 فیصد ملکیت مختلف کاروباری اداروں کو فروخت کرنا چاہتی تھی لیکن افتخار چوہدری نے سوموٹو نوٹس لیتے ہوئے پاکستان سٹیل مل کی نجکاری روک دی۔ اس سے نہ صرف یہ کہ حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچا بلکہ نجکاری کا پورا عمل ہی اندیشوں میں گھر گیا۔ شوکت عزیز اس فیصلے پر سخت ناخوش تھے اور افتخار چوہدری کے مخالف ہو گئے۔ نادیدہ بندگان خاکی نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور پرویز مشرف کو افتخار چوہدری سے جان چھڑانے کی تجویز دی۔ بظاہر اس کی توقع نہیں تھی لیکن 9 مارچ 2007ء کو افتخار چوہدری نے پس پردہ پشت پناہی سے شہ پا کر پرویز مشرف کے حکم پر مستعفی ہونے سے انکار کر دیا۔ پرویز مشرف مطلق اقتدار کے نشے میں معاملے کی سنجیدگی کو سمجھ نہیں سکا۔ دوسری طرف اس ملاقات میں موجود تمام عسکری رہنماؤں نے سپریم کورٹ میں حلفیہ بیان جمع کرائے سوائے ایک عہدیدار کے۔ اور اس کھیل کے اسی کردار نے 29 نومبر 2007ء کو پرویز مشرف کے ہاتھ سے کمان کی چھڑی اپنے قبضے میں کر لی۔ اس دوران 12 مئی 2007ء کو کراچی میں قتل عام بھی ہوا۔ بے شک عوام اور وکلا کی بڑی تعداد مشرف آمریت کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کر رہی تھی لیکن افتخار محمد چوہدری نے 20 جولائی کو بطور چیف جسٹس بحالی کے بعد بھی 28 ستمبر 2007 کو پرویز مشرف کو وردی میں دوبارہ صدارتی انتخاب لڑنے کی اجازت دی۔ 3 نومبر 2007 کو پرویز مشرف کی طرف سے ایمرجنسی کا اعلان محض عدلیہ مخالف اقدام نہیں تھا بلکہ ڈکٹیٹر کو ناگزیر طور پر سیاسی، معاشی اور خارجہ سطحوں پر ایسے تضادات اور کمزور لمحات سے واسطہ پڑتا ہے جو اقتدار کے ایوانوں سے دور بیٹھے عوام نہیں جان سکتے۔

29 November 2007

این آر او کے لیے بذات خود دبئی میں مذاکرات کرنے والا عہدیدار ہی این آر او کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا تھا۔ میثاق جمہوریت پر دستخط کرنے والی سیاسی قیادت کی وطن واپسی کے بعد معاملات اس حد تک پرویز مشرف کے ہاتھ سے نکل چکے تھے کہ سانحہ کارساز اور بعد ازاں محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت سے بھی سنبھالا نہیں لے سکے۔ فروری 2008ء کے انتخابات میں آئی ایس آئی کی لاتعلقی کی حقیقت یہ تھی کہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ نے بہت بعد میں اعتراف کیا کہ اگر 27 دسمبر کا سانحہ پیش نہ آتا تو قاف لیگ کی دوبارہ انتخاب میں کامیابی کا منصوبہ تیار تھا۔ بریگیڈیئر اعجاز شاہ نے 2018 کے آخر میں یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ اگر نواز شریف مناسب اطاعت پر تیار ہوتے تو چوتھی بار بھی وزیر اعظم بن سکتے تھے۔ گویا سازش میمو گیٹ یا ڈان لیکس میں نہیں، کہیں اور پائی جاتی تھی۔

2007ء کے بعد افتخار چوہدری، ثاقب نثار، آصف کھوسہ، اور گلزار احمد کے ادوار عدلیہ اور انتظامیہ میں دستوری لکیر اوجھل ہونے کا استعارہ ہیں۔ پوچھنا چاہیے کہ آخر اس فہرست میں جسٹس تصدق حسین جیلانی، ناصر الملک اور انور ظہیر جمالی کے نام کیوں نہیں آتے۔ یکے بعد دیگرے دو منتخب وزرائے اعظم کو عدالتی حکم کے ذریعے گھر بھیجا گیا ہے۔ گزشتہ پندرہ برس میں پاکستان کی سیاست پارلیمنٹ سے ایوان عدل میں منتقل ہو چکی ہے۔ الجہاد ٹرسٹ کا فیصلہ اب ایک مردہ پرندے کی طرح قوم کے گلے میں آویزاں ہے کیونکہ دستور میں شق 175 (الف) کی مدد سے عدلیہ میں تعیناتیوں کے ضمن میں پارلیمنٹ کو عضو معطل بنا دیا گیا ہے۔

پراجیکٹ عمران میں ریاست اور سیاست کے مختلف کرداروں نے جو کھیل کھیلا اس کے نتیجے میں کمرہ عدالت میں سیاست کی دھند اب محض اصولی اختلاف یا سیاسی رجحانات سے آگے بڑھ کر خالص ذاتی مفادات کی لڑائی میں بدل چکی ہے۔ بار کی سیاست اور بینچ کے فیصلوں میں بہت سے نادیدہ پل تعمیر ہو گئے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ مقدمات کے انتخاب کا طریقہ کار شفاف نہ ہونا ہے۔ بینچ کی تشکیل کے اختیارات فرد واحد کے ہاتھ میں مرتکز ہونے سے عدلیہ کی ساکھ مزید بگڑی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اقتدار کے دیدہ اور نادیدہ کرداروں میں ملی بھگت نے ٹھیک 35 برس پرانی صورتحال دوبارہ پیدا کر دی ہے۔ 1988ء میں جنرل اسلم بیگ کو خدشہ تھا کہ ضیا الحق کی گیارہ سالہ ذہن سازی سے متاثر اعلیٰ عدلیہ پیپلز پارٹی کی مقبولیت سے خائف ہو کر جونیجو حکومت بحال نہ کر دے۔ آج کا خدشہ یہ ہے کہ پراجیکٹ عمران کی تعمیر میں جگہ جگہ جو پاڑ باندھی گئی تھی اس کے مختلف تختوں پر بیٹھے نادیدہ کردار ملک کی معاشی صورتحال سے بے نیاز ہو کر محض ذاتی مفادات اور وابستگیوں کے لیے آئندہ سیاسی صورتحال پر اثر انداز نہ ہوں۔ ایک طرف حالات کی سنگینی اس وسیع تر قومی مکالمے کا تقاضا کرتی ہے جس کا مطالبہ اگست 2017ء کے پہلے ہفتے میں اس وقت کے چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے تجویز کیا تھا۔ دوسری طرف آئینی، سیاسی اور ریاستی قوتوں میں خلفشار کی یہ کیفیت ہے کہ دستوری طور پر اختیارات کی تقسیم کا اصول بری طرح دھندلا چکا ہے۔ جنوری 2013ء میں ایک چیف جسٹس کی مقبولیت پسندی نے ریکوڈک کے منصوبے میں مداخلت کر کے ملک کو 11.43 ارب ڈالر کے جرمانے سے دوچار کر دیا تھا۔ ایک دوسرے چیف جسٹس نے پراجیکٹ عمران کی کامیابی کے لیے پاناما سے اقامہ نکال کر سیاسی عمل کی بنیادیں ہلا دیں۔ ایک تیسرے چیف جسٹس کی خود آرائی نے لاہور میں پی کے ایل آئی  جیسے ادارے کو نیست و نابود کر دیا تو ایک اور چیف جسٹس نے ہسپتالوں کی کارگزاری اور نکاسی آب جیسے انتظامی امور میں مداخلت کر کے سیاسی حکومتوں کو بے بس کر دیا۔ کمرہ عدالت میں سیاسی دھواں بھر گیا ہے اور اس میں کسی بیرونی سازش کو دخل نہیں۔ ہم نے برسوں کی محنت شاقہ سے اپنی جڑوں پر خود کدال چلائی ہے۔ اس بحران سے راتوں رات چھٹکارا ممکن نہیں۔ اس کے طویل مدتی علاج کا ایک ہی نسخہ ہے، “بارہ صفحات کے اس کتابچے” کی بالادستی اور تسلسل جسے جنرل ضیا الحق پھاڑ کر پھینکنے کا اعلان کرتے تھے اور پرویز مشرف اسے کوڑے دان میں ڈال دینا چاہتے تھے۔

بشکریہ: wenews.pk

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

وجاہت مسعود کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author