نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خواتین کے حقوق۔ پاکستان کا نمبر 146۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواتین کا عالمی دن پوری دنیا کے ساتھ پاکستان میں بھی جوش و خروش سے منایا گیا،اس موقع پر مختلف تقریبات کا اہتمام کیا گیا،جس میں خواتین کے مسائل اور خواتین کی فلاح کے لئے اقدامات تجویز ہوئے۔ خواتین کا عالمی دن ہر سال منایا جاتا ہے۔ سیمینارز، سمپوزیم، کانفرنسیں اور ریلیاں منعقد کی جاتی ہیں مگر عملی طور پر ترقی کی بجائے تنزلی ہو رہی ہے۔ انسانی حقوق کمیشن کی ایک خوفناک رپورٹ سامنے آئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ خواتین کو حقوق دینے میں پاکستان 146ویں نمبر پر ہے اور سب سے آخر میں افغانستان ہے۔ یعنی اس کا نمبر 147 ہے۔ پاکستان جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، جو خود کو انسانی حقوق کا علمبردار ہونے کا دعویدار ہے، خواتین کے حقوق کے معاملے میں اس کی اتنی پستی قابل افسوس ہے۔حکومت کو اس معاملے پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ یہ بھی دیکھئے کہ انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین برسوں کے دوران پاکستان میں خواتین کے تشدد کے 63000 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں گھریلو تشدد،جنسی زیادتی اور قتل کے واقعات بھی شامل ہے۔انسانی حقوق کے وزیر ریاض پیرزادہ نے قومی اسمبلی میں یہ انکشاف کر کے سب کو حیران کر دیا کہ کورونا کے دوران خواتین سے زیادتی اور اجتماعی زیادتی کے 11 ہزار کیس درج ہوئے۔ یہ ٹھیک ہے کہ پورے ملک خواتین کے حوالے سے صورتحال بہتر نہیں ہے۔ مگر وسیب کے علاوہ سندھ بلوچستان میں کالا کالی کے سب سے زیادہ واقعات رونما ہوتے ہیں۔خواتین کے حقوق کے سلسلے میں اجتماعی اقدامات کی ضرورت ہے اور ہر طرح کی صنفی تقسیم کو ختم کرنا ہوگا اور خواتین کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لئے اقدامات کرنا ہونگے۔ ہر جگہ عورت ظلم کا شکار ہوتی ہے،کہنے کو صنفی امتیاز کے بغیر ہر انسان کو برابر کے حقوق حاصل ہیں مگر عملی طور پر عورت کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ ہمارے مذہب اسلام میں عورت پیغمبر نہیں بن سکی مگر وہ پیغمبر کی ماں ضرور ہے ۔ جنات کے حوالے سے جعلی اور ڈبہ پیروں کے قصے کہانیاں زبان زدِ خاص و عام ہیں ۔ جعلی پیروں نے بہت دوکانداری کر لی ہے ، ذاتی اغراض و ہوس زر کے لئے اس نے انسانیت پر بہت ظلم کئے ۔ کورونا وائرس نے بہت سے جعل سازوں کے نقاب اتار دیئے ، یہ تو کہتے تھے کہ کائنات کی ہر مرض کا ہم علاج کرتے ہیں ، اب یہ کورونا کے خوف سے گھروں میں چھپ کر کیوں بیٹھ گئے تھے ۔ اس طرح کے واقعات جہالت کی بناء پر ہوتے ہیں ،سرکارؐ کی آمد سے پہلے عرب میں بیٹی کو زندہ درگو کیا جاتا تھا ، یہ بھی جہالت کی بناء پر تھا۔جہالت اب بھی باقی ہے جسے ختم کرنے کیلئے تعلیم کو عام کرنے کی ضرورت ہے ۔ ماں کی گود ابتدائی درسگاہ ہے لیکن اس معاشرے میں اس درسگا ہ کو معاشی ،سماجی اور اقتصادی دبائو میں ناصرف کمزور کیا جارہے بلکہ عورت کی عزت و احترام اور وقار بھی اس معاشرے میں دن بدن ختم ہورہی ہے او ر خواتین اپنی گود میں بچوں کو قوم کی مضبوطی کادرس نہیں دیتی ہیں بلکہ ان کو معاشی دبائو کو کم کرنے کا ذریعہ سمجھتی ہیں اور ترقی خوشحالی کیلئے دولت کمانے کو اہمیت دیتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں لوگ دولت کی ہوس میں مبتلا ہیں اور دولت کمانے کے جائز وناجائز طریقوں کو جائز سمجھتے ہیں ۔ کرپشن بدعنوانی کو عیب نہیں جانا جاتاہے بلکہ معاشی تنگی کو دور کرنے کا ذریعہ جانا جاتاہے یہی وجہ ہے کہ اس معاشرے میں عورت کی عزت نفس محفوظ نہیں ہے اور نہ انکے حقوق محفوظ ہیں ۔ لوگ آگاہی کے باوجود عورت کی عزت احترام نہیں کرتے ہیں اور دین اسلا م کی مکمل خلاف ورزی کرتے ہیں اور عورت کو پنچائیتوں عدالتوں اور جرگوں میں ناجائز گھسیٹتے ہیں اور انکے ساتھ انتہائی بے رحما نہ سلوک کرتے ہیں اور جھوٹ دھوکا دہی اور بہتان بازیوں سے اسکے مقام کو معاشرے میں گراتے ہیں اور حوا کی اس بیٹی کواس طرح رسوا کیا جاتاہے کہ معاشرے میں اس کو پنا ہ نہیں ملتی ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ لوگوں میں اپنے بنیادی انسانی حقوق کا شعور بڑھ رہا ہے ۔لوگ تعلیم کی طرف راغب ہیں اور اپنی دھرتی ، اپنی مٹی اور اپنے وسیب سے جڑت مضبوط ہو رہی ہے ۔ لوگ ا پنی شاعری ، موسیقی اور ثقافت سے والہانہ محبت کرتے ہیں جوکہ انتہا پسندی اور ’’ گودا گیری ‘‘ پر کاری ضرب ہے ۔ یوں تو پوری دنیا میں میل شاونزم نے معاشرے کو اول اور دوم درجے میں بانٹ رکھا ہے،لیکن ترقی پذیر ممالک خصوصاً پاکستان، افغانستان میں صنف نازک کی صورتحال بد تر ہے ۔خواتین پر تشدد، غیرت کے نام پر عورتوں کا قتل ، ونی اور کالا کالی جیسی رسومات نے عورت دوسرے اور تیسرے درجے سے بھی آگے پھینک دیا ہے ۔ صنفی اور امتیازی سلوک عورتوں کے ساتھ ساتھ بچوں سے بھی روا رکھا جاتا ہے اور بوڑھوں کی بھی قدر افزائی نہیں ہوتی ۔ بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے صنف کی بنیاد پر ہر طرح کا امتیازی رسموات کے خاتمے کیلئے قوانین کی ضرورت ہے۔ انسانی حقوق کے حوالے سے جہاں ترقی پذیر ممالک کی صورت حال درست نہیں وہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی انسانی حقوق کی صورتحال ان سے بھی زیادہ خراب ہے ۔ ان ملکوں میں رنگ اور نسل کی بنیاد پر انسانیت سوز مظالم دیکھنے کو ملتے ہیں۔ انسانی حقوق کے حوالے سے یہ بات بھی تسلیم کرنا ہو گی کہ بر صغیر جنوبی ایشیاء میں معاشرے کو طبقات میں تقسیم کرنے والا بھی انگریز سامراج ہی تھا جس نے اپنے ایجنٹوں اور اپنے تنخواہ دار ملازمین کو مراعات اور عہدے دیئے وہ معزز کہلائے اور غرباء کو ان کی باج گزار کمی کمین بنا دیا گیا۔ پوری دنیا میں انسانی حقوق کی صورتحال اس وقت تک درست نہ ہو سکے گی جب تک ترقی یافتہ ممالک اپنی روش تبدیل کر کے ترقی پذیر ممالک اور وہاں بسنے والے لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق فراہم نہ کریں گے ۔ یورپ نے ترقی پذیر ممالک کو لوٹنے ، ان کو قرضوں میں جکڑنے ،کرپٹ حکمرانوں کو ککس بیک کی شکل میں تحریص اور لالچ دیکر سود در سود قرضوں کی شکل میں غریب عوام کا کچومر نکالنے اور بدنام زمانہ معاشی ہتھکنڈوں کا جو جال بچھایا ہوا ہے یہ بھی در اصل بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ آج ہر طرف آگ لگی نظر آتی ہے ، دہشت گردی کے باعث خون آشام فضا سوگوار نظر آتی ہے ، ہر طرف انسانی خون کے لوتھڑے فریاد کناں نظر آتے ہیں ، یورپ اور ترقی پذیر ممالک پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ انسانیت کو مساویانہ انسانی حقوق اور انصاف فراہم کر کے انسانیت کو تباہ ہونے سے بچا لیں ۔

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author