نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یاد رہے کپتان مکافات عمل کا شکار ہے ۔۔۔||ملک سراج احمد

ملک سراج احمد ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھتے ہیں،وہ مختلف اشاعتی اداروں میں مقامی ،قومی اور بین الاقوامی موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

ملک سراج احمد

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح کے تخت نشین شام کو مجرم ٹھہرے اور یہ محض لفاظی نہیں اس کی عملی تصویر بارہا نظروں کے سامنے سے گذری ہے ۔غیبی کندھوں پر سوار وہ عظیم شاہ سوار جس کی سادگی کا عالم یہ تھا کہ اس کی قمیض میں دو موریاں تھیں نے انٹرویو دیتے ہوئے اپنے محسن آرمی چیف کی شان میں وہ قصیدے پڑھے کہ الامان الحفیظ۔ہم ایک پیج پر ہیں اور رہیں گے اس لیے سیاسی مخالفین 2028 تک انتظار فرمائیں ۔اقتدار کانشہ ہی کچھ ایسا ہوتا ہے کہ انسان سالوں کے منصوبے بنا لیتا ہے مگر اگلے پل کا پتہ نہیں ہوتا کہ اقتدار کا یہ سنگھاسن قائم رہے گا بھی یا نہیں
اور وہی کچھ ہوا جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے اقتدار اور جوا کسی کا نا ہوا اور اس بار بھی اقتدار دائمی نا تھا اور محض چار سال کی مدت میں سیاسی بساط لپیٹ دی گئی ۔اور پھر واپسی کا سفر شروع ہوگیا ۔وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ تنزلی کی ڈھلوان پر رفتار تیز سے تیز تر ہوتی جارہی ہے ۔انجام نوشتہ دیوار ہے سب سمجھ رہے ہیں کہ کیا ہوگا ۔لے دے کر چند ورکرز بچ گئے ہیں جو کسی روشن مستقبل کی امید لگائے اپنے قائد کے گھر کے باہر پہرہ دے رہے ہیں ۔یہ اتنے سادہ ہیں کہ جس عطار کے لونڈے کے سبب بیمار ہوئے ہیں اسی سے شفا کی امید لگائے ہوئے ہیں ۔ اس ساری مشق سے کیا حاصل ہوگا کیا بخشش ہوجائے گی کیا گنگا جل اشنان ہوجائے گا اور سارے پاپ دھل جائیں گے
کسی نے ٹھیک کہا تھا کہ حساب کتاب صرف حشر کے دن کے لیے ہی نہیں ہے بسا اوقات زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے ۔آج جس نظام کو بدلنے کی بات ہورہی ہے جس نظام کی خامیاں گنوائی جارہی ہیں کل تک اسی نظام کا حصہ بن کر تبدیلی کا نعرہ لگا کر تو ایوان اقتدار میں نقب لگائی گئی ۔کون نہیں جانتا کہ گزشتہ عام انتخابات میں کیسے امیدواروں کی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرائی گئیں کیسے سیاسی جماعتوں کی ٹکٹیں واپس کرائی گئیں ۔کیسے ریس میں دوڑنے والے سب سے آخری گھوڑے کو فاتح بنایا گیا۔کل تک حصول اقتدار کی خاطر مندرجہ بالا گناہوں میں گردن تک لتھڑے ہوئے تھے آج جب اقتدار سے الگ ہوئے تو کیسے پاک صاف ہوگئے اب پاکی داماں کی حکایت یوں بھی بیان مت کریں سب خبر ہے کہ تردامنی ایسی بھی نہیں کہ جب دامن نچوڑیں تو فرشتے وضو کرنے لگ جائیں
بہت غرور ہے ناں عوامی حمایت کا تو زرا رک کرحقیقت کا جائزہ ہی لیتے ہیں ۔سندھ میں فارغ ہوگئے بلوچستان سے صفایا ہوگیا۔پنجاب میں مقابلہ ہے اور بہت سخت مقابلہ ہے زیادہ امید نہیں کہ اقتدار میں آ سکیں لے دے کر کے پی کے رہتا ہے اس کا بھی عام انتخابات میں نتیجہ سامنے آجائےگا۔چلیں سب دعوے درست مان لیتے ہیں اور الیکشن کی ضد کو بھی مان لیتے ہیں تو لگے ہاتھوں صوبائی الیکشن بھی ہونے جارہے ہیں اس بار عدلیہ نہیں سول بیوروکریسی الیکشن کرائے گی اور اس ضمن میں ریٹرننگ آفیسرز اور اسسٹنٹ ریٹرننگ آفیسرز کے ناموں کا اعلان ہوگیا ہے ۔30 اپریل کو پولنگ ہوگی ۔
اب پڑھنے والوں سے سوال ہے کہ کیا ان انتخابی نتائج کو کپتان تسلیم کرلیں گے تو جواب سن لیں اور گرہ باندھ لیں کہ الیکشن کوئی بھی کرائے اور جیسے بھی کرائے اگر کتپان نہیں جیتا تو وہ کبھی بھی ان انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کرئے گا ۔تو پھر کیا ہوگا تو پھر یہی کچھ ہوگا جو اب ہورہا ہے سیاسی انتشار ، آئے روز کا سیاسی بحران اور افراتفری کی سیاست ہوگی ۔تو سوال یہ ہے کہ اس سارے مسلئے کا حل کیا ہے تو اس کا حل کسی کے پاس نہیں ہے ۔عمران پراجیکٹ ناکام ہوگیا اور اس منصوبے کی ناکامی کے نتائج تو بھگتنا ہوں گے۔گویا سیاسی استحکام کے دن ہنوز دلی دور است کی طرح دور ہیں۔
بدنصیبی کہہ لیں یا پھر قسمت کا لکھا کہ نت نئے تجربات کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ۔آوے ہی آوے اور جاوے ہی جاوے کے نعروں میں زندگی گذر رہی ہے سب کی باری لگ رہی ہے سب اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں ۔سب قانون س بالاتر ہیں سب ملک کے وفادار ہیں اور دوسروں کی نظرمیں سب ملک دشمن ہیں ۔سب کے دن بدل گئے گھروں کی جگہ محلات نے لے لی اور گاڑیوں کی جگہ پر جہازوں میں سفر کرنے لگے مگر ایک غریب آدمی ہے کہ جس کو سستا آٹا خریدنے کے لیے آج بھی لائن لگناپڑتا ہے ۔جس کو زندگی کی بنیادی سہولیات تک دستیاب نہیں ہیں مگر پھر بھی اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیئے ٹیکس پر ٹیکس دئیے جارہا ہے ۔
یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ مڈل کلاس پینے کا صاف پانی بھی خرید کر پینا پڑتاہے ۔اچھی تعلیم کے لیئے رقم خرچ کرنی پڑتی ہے اور علاج معالجہ نجی ہسپتالوں سے کرانا پڑتا ہے ۔پھر بھی وہ ٹیکس ادا کیئے جارہا ہے پتہ نہیں کس بات کے لیئے ادائیگی کررہا ہے ۔شائد اس لیئے کہ اس پر مزید نئے تجربات کیئے جائیں اس کی امنگوں اور امیدوں کا مزید کھلواڑ کیاجائے۔مزید قرض حاصل کیا جائے اور حکمران اشرافیہ مزید آسودہ زندگی بسر کرسکے۔
آخری سوال یہ کہ کیا نئے انتخابات سے مسائل حل ہوجائیں گے تو اطلاع ہو کہ کچھ بھی نہیں بدلے گا حالات جوں کے توں رہیں گے بلکہ مزید ابتر ہوں گے ہاں حکمرانوں کے چہرے شائد بدل جائیں ۔اور آخری بات کہ کیا کپتان اقتدار میں آئے گا تو فی الوقت کوئی امید بھی نارکھے ۔ممکن ہی نہیں ہے کہ جو ایک غلطی ایک بار ہوگئی وہ بار بار ہوگی ۔فی الحال تو 2018 والی غلطی کے تاوان کے بھرنے کا وقت ہے اور اس میں مزید کئی سال لگیں گے۔رہی بات کپتان کی تویاد رہے کپتان کے دور اقتدار میں لاہور کے چوک یتیم خانہ پر جو کچھ ہوتا رہا وہی کچھ اس کے ساتھ ہورہا ہے کپتان مکافات عمل کا شکار ہے

مصنف سے رابطے کیلئے
رابطہ نمبر 03334429707
وٹس ایپ 03352644777

یہ بھی پڑھیے:

ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد

وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد

بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد

عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد

حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد

ملک سراج احمد کے مزید کالم پڑھیے

About The Author